Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب
از سید حیدر ذیشان 
قسط نمبر1

سردیوں کی شام تھی۔میں کام سے فارغ ہو کر واپس اپنے مکان کی طرف روانہ تھا۔مکان کیا ایک کمرہ اور واش روم۔ مجھے اس شہر میں تقریباً سال ہونے کو تھا۔ اب تک کچھ ہمسائیوں یا پھر کتاب گھر کے مالک ہارون صاحب سے ہی جان پہچان تھی۔ میں ہر ہفتے کتاب گھر سے ایک کتاب خرید کے لے جاتا۔ اس لیے ہارون صاحب مجھے اور میری پسند کو اچھی طرح جان چکے تھے۔آج ہفتہ تھا اسی لیے میں دکان پر رکا۔ ہارون صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے۔سلام دعا کے بعد انہوں نے بڑے رازدرانہ انداز میں کہا
"شامی صاحب آج نئی کھیپ منگوائی ہے۔کانٹ چھانٹ کے دوران سرخ رنگ کی ایک بالکل نئی کتاب سامنے آئی۔ عام طور پر صرف وہ کتابیں ہی آتی ہیں جو میں منگواتا ہوں۔مگر شاید یہ غلطی سے آگئی۔اس لیے میں نے آپ کے لیے رکھ چھوڑی ہے۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ منفرد کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں"
میں نے غور سے ہارون صاحب کی بات سننے کے بعد کہا
"چلیں ذرا دیکھایئے گا وہ کتاب"
ہارون صاحب نے  کاونٹر کے نیچے  رکھی  کتاب اٹھائی اور مجھے پکڑا دی۔ کتاب کا کور سرخ تھا۔مگر اس کے اوپر کوئی عنوان نہ تھا۔اوراق پلٹے تو پہلے صفحے پر ہی "7 کہانیاں" لکھا ہوا تھا۔ یہ عنوان پڑھتے ہی میں نے ہارون صاحب سے قیمت پوچھی۔انہوں نے کتاب پر لکھی قیمت کچھ کم کر کے مجھ سے وصول کی۔انہیں الوداع کہہ کر میں باہر آگیا۔ اب تقریباً رات ہوچکی تھی۔کچھ وہ شہر قصبہ نما تھا اور کچھ سردی کی وجہ سے راستے سنسان تھے۔ جب میں دکان میں داخل ہوا  تو مطلع صاف تھا۔حیرت انگیز طور پر جب باہر نکلا تو آسمان گہرے بادلوں کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ جو کہ زوروشور سے گرج نہیں دھاڑ رہے تھے۔ بارش کے ڈر سے میں نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ جیسے ہی میں مکان کی دہلیز پر پہنچا بارش شروع ہوگئی۔ وہ کتاب ہاتھ میں پکڑے جونہی میں کمرے میں داخل ہوا سامنے عجیب منظر تھا۔ایسے لگا جیسے کمرے میں ہی کوئی بھیانک طوفان آیا ہو۔سارا کمرہ گرد سے اٹا ہوا،الماری کھلی ہوئی،کتابیں فرش پر اور فرنیچر اِدھراُدھر بکھراپڑا تھا۔خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔خیر ہمت کی اور کافی وقت لگا کر کمرے کی حالت درست کی۔اب میں تھک چکا تھا۔جیسے ہی بیڈ پر لیٹا نیند نے آلیا۔آدھی رات کے وقت دروازے پرزوردار دستک سے آنکھ کھلی۔میں حیران پریشان جب دروازے پر پہنچا توکوئی نہ تھا۔واپس آکے ابھی لیٹاہی تھا کہ دوبارہ دستک ہوئی۔اب کے غصے کی حالت میں دروازہ کھولا تو سامنے مکروہ شکل کی ایک بڑھیا تھی۔اس نے سفید رنگ کا میلا سالباس پہنا ہواتھا۔بال گرد سے اٹے ہوئے تھے۔مجھے دیکھتے ہی بولی۔۔
"تم نے وہ کتاب لے کر اچھا نہیں کیا"
یہ کہتے ہی وہ پلٹی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئی۔میں  حیرت کے سمندر میں غوطہ زن اپنی جگہ کچھ دیر کھڑا رہا۔پھر جب حواس بحال ہوئے تو آسمان کی طرف دیکھا۔ بارش رک چکی تھی مگر بادل اب بھی باقی تھے۔کمرے میں واپس آکر میں نے سگریٹ سلگائی اور اس بڑھیا کے بارے سوچنے لگا۔اسے کس نے بتایا کہ میں نے یہ کتاب لی؟ اور کتاب کے ساتھ اس کا کیا تعلق تھا؟یہ سوچتے ہوئے میں نے وہ کتاب اٹھائی۔ اوراق پلٹے۔ عنوان کے مطابق  کتاب میں سات کہانیاں تھیں۔کتاب کے اوراق بہترین اور بالکل نئے معلوم ہوتے تھے۔جیسے آج ہی پبلش ہوئی ہو۔خیر میں پہلی کہانی پر پہنچا تو اوپر اس کا ٹائٹل لکھا تھا۔۔۔"قانونِ فطرت"۔۔۔میں نے کہانی پڑھنی شروع کی۔۔۔
"میرا نام  مہرین ہے۔۔۔"
اتنا ہی پڑھا تھا کہ مجھے لگا جیسے کوئی نسوانی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میں نے چونک کر سامنے دیکھاتو میرے ہوش اڑ گئے۔سامنے کرسی پر ایک مناسب قد کی خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی۔ اس نے سرخ لباس زیب تن کیا ہواتھا۔ آنکھیں سبز،گہرے بھورے بال جو کمر تک جارہے تھے اور ہلکا سانولا رنگ۔۔۔ میں ایک لمحے کو سکتے میں آگیا۔
"ککک۔۔کون ہیں آپ؟؟؟؟اور کمرے تک کیسے پہنچیں؟؟؟"
میں نے بوکھلا کرکہا۔
"میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی پوسٹ پر تھی۔۔۔۔"
اس نے میرے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"میں پوچھتا ہوں۔۔۔کون۔۔۔کون ہیں۔۔آآآ۔۔آپ؟؟؟؟"
میں اچھل کرکھڑا ہوگیا۔۔۔
"اس دن کام زیادہ تھا۔اس لیے مجھے آفس میں دیر ہوگئی۔رات کے اندھیرے دن کے اجالوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔باقی تمام کولیگز اور ملازم جاچکے تھے۔۔۔"
اس کی آواز میں ایک عجب سی پراسراریت اور گونج تھی۔اب مجھے اس سے خوف آنے لگا تھا۔۔۔
"مممم۔۔۔میں کہتا ہوں۔۔۔چللللی۔۔۔جائیں یہاں سے۔۔"
اب کی بار اپنی طرف سے میں نے غصے میں کہا۔۔۔ مگر اس نے پھر  مجھے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔
"میں اپنا کام مکمل کر کے تھوڑی دیر سستانے کے لیے اُدھر ہی بیٹھی گئی۔۔۔۔"
اب مجھے سمجھ آنے لگا کچھ کچھ۔۔۔اس کہانی کا مرکزی کردار خود میرے سامنے تھا۔ جب میں بولتا وہ خاموش تو ہوجاتی مگر مجھے جواب دینے یا مجھ سے بات کرنے سے قاصر تھی۔وہ تو محض اپنی کہانی سنانے کے لیے آئی تھی۔
یہ جان کر کہ اب میری کسی بات کا اس پر اثر نہ ہوگا میں خوفزدہ چپ چاپ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ وہ بدستور ایک روبوٹ کی طرح بغیر پلیکیں جھپکائے مجھے گھورے جا رہی تھی۔ اس قدر سردی میں بھی میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔۔۔اس نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"ابھی مجھے بیٹھے کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ مجھے کسی بھاری بھرکم چیز کے گھسیٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے ڈر کر پیچھے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے اپنا دھیان بٹانے کے لیے موبائل اٹھا لیا۔ بیگ سے ہینڈ فری نکالا۔جیسے ہی ہینڈفری موبائل میں لگانے لگی کسی نے میرے ہاتھ سے ہینڈ فری چھینا اور دور پھینک دیا۔میں خوف کے مارے اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی۔وہاں میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ڈر سے میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اچانک میری نظر مانیٹر پر پڑی۔وہ ہوا میں معلق تھا۔جیسے کسی نے اسے اٹھایا ہوا ہو۔مگر پھر۔۔۔وہاں میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ مانیٹر تھوڑی دیر یونہی ہوا میں معلق رہا۔ پھر ایک جھٹکے سے نیچے گرا۔ میں زور سے چلائی۔پوچھا کہ کون ہے۔مگر کوئی جواب نہ ملا۔ میں دروازے کی جانب بھاگی۔مگر کسی نادیدہ قوت نے اٹھا کر مجھے فرش پر پٹخا۔میں پیٹھ کے بل نیچے گری۔میری گردن اور کمر میں شدید درد شروع ہوگیا۔مگر اس وقت مجھے درد کی پرواہ نہیں تھی۔ میں ہمت کر کے  اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی۔اس بار ایک زور دار دھچکا لگا اور ایک بار پھر میں زمین پر آرہی۔ اب کے میں نے چلانا شروع کردیا۔مگر وہاں بظاہر ایساکوئی نہ تھا جو میری چیخیں سنتا۔ اِدھر میں چلاتی جاتی اُدھر وہ نادیدہ قوت آفس کا سارا سامان اِدھراُدھرپھینکتی جاتی۔جیسے مجھے چپ رہنے کا اشارہ دے رہی ہو۔ وہ جو چیز بھی تھی شدید غصے میں لگ رہی تھی۔اسی لیے میں نے چپ رہنے میں ہی آفیت جانی۔میری چپ کے ساتھ ہی آفس میں سناٹا چھا گیا۔یہ سناٹا جب تھوڑی دیر ویسے ہی رہا تو یہ سمجھ کر کہ وہ مخلوق جاچکی ہے میں نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی۔جیسے ہی میں لڑکھڑاتے ہوئے اپنے قدموں پر کھڑی ہوئی مجھے ایسے لگا جیسے میری داہنی ٹانگ جسم سے الگ ہوچکی ہے۔سکتے کے عالم میں میں نے اپنی ٹانگ کی طرف دیکھا۔ ایک خار دار تار میری ٹانگ سے جکڑی ہوئی تھی جس کا دوسرا سرا چند فٹ کے فاصلے پر ہوا میں معلق تھا۔تارکے کانٹے میری ٹانگ میں پیوست تھے۔جیسے گوشت کو چیرتے ہوئے ہڈیوں تک جا پہنچے تھے۔خون کی دھاریں میری ٹانگ سے نکل کر پاوں اور فرش کو سرخ کیے جارہی تھیں۔میں ایک جھٹکے سے نیچے گری۔درد کی وہ شدت ناقابل بیان تھی۔ میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر میں یونہی روتی رہی۔۔۔پھر اچانک اس تار میں تناو بڑھنا شروع ہوا۔ تناو کے ساتھ ہی میری ٹانگ بھی کھنچی چلی جارہی تھی۔اور پھر میرا جسم بھی گھسیٹا جانے لگا۔۔۔وہ تار مجھے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔"
میں نے اس کی کہانی سنتے ہوئے اس کی ٹانگ کی طرف دیکھا تو مارے خوف کے میری آنکھیں پھیل گئیں۔۔۔اس کی ٹانگ سے تازہ خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔ایک لمحے کو میں کانپ اٹھا۔۔۔ 
"وہ قوت  اسی طرح گھسیٹتے ہوئے مجھے سیڑھیوں تک لے گئی۔ میں نے اپنی تمام تر طاقت سے سیڑھیوں کا جنگلا  پکڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ میرا جسم سیڑھیوں پر لڑھکتا گیا۔مجھے اپنی ہڈیاں چٹختی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔بار بار سیڑھیوں سے ٹکرانے کے باعث میرے سر سے بھی خون بہنے لگا"
اب کے تکلیف کے اثار اس کے چہرے پر نمایاں ہونے لگے۔جیسے جیسے وہ کہانی سناتی جارہی تھی اس کے سر سے بھی خون کی دھاریں بہتی جارہی تھیں۔ میری حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہیں۔۔۔ 

   1
0 Comments