Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر3

"میرا نام کبیر ہے۔۔۔۔" ایک بھاری بھرکم آوز میرے کانوں میں پڑی۔میں نے چونک کر کرسی کی جانب دیکھا۔ اب کے اس لڑکی کی جگہ پر سفید لباس میں ملبوس ایک عام سی شکل و صورت کا ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا۔ بظاہر وہ ایک مہزب انسان لگتا تھا۔وہ بھی بغیر پلکیں جھپکائے مجھے ہی دیکھے جارہا تھا۔ "میں ایک نامی گرامی تاجر تھا۔اس رات میں اپنے کام کے سلسلے میں کہیں دور گیا ہوا تھا۔کام مکمل ہوتے ہوتے شام ہوچکی تھی۔جلدی واپس پہنچنے کے لیے میں نے مختصر راستے کا انتخاب کیا۔لوگ وہ راستہ لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔کیونکہ راستہ ویران تھا اور درمیان میں کئی سو سال پرانا قبرستان پڑتا تھا۔ مگر مجھے ان مافوق الفطرت باتوں پر یقین نہ تھا۔میں تو بس جلد ہی گھر پہنچنا چاہتا تھا" میری سوچوں پر ابھی تک وہی لڑکی سوار تھی۔میری نظر بار بار اس کی لاش پر جاتی۔ "جوں جوں میں آگے بڑھتا جارہا تھا شام کے سائے گہرے ہوتے جاتے تھے۔جب میں آبادی سے نکل کر سنسان جگہ پر پہنچا تو رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔دور دور تک سوائے چند ایک درختوں اور ویران میدان کے سوا کچھ نہ تھا۔حتٰکہ ٹریفک بھی بالکل نہ تھی۔ مگر میں اپنی ہی دھن میں بلاخوف وخطر آگے بڑھتا جارہا تھا۔وہ سڑک بھی کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ مجھے گاڑی کی رفتار درمیانی رکھنی پڑ رہی تھی۔جب میں تقریباً آدھا سفر طے کرچکا تو یکدم آسمان پر گہرے بادل چھا گئے۔قبرستان والی جگہ تک پہنچتے پہنچتے طوفانی بارش شروع ہوگئی۔" وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔۔ "چند ہی لمحوں میں ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔تب تک میں قبرستان کے درمیان داخل ہوچکاتھا۔سڑک اب کچی تھی۔پانی اس قدر زیادہ تھا کہ گاڑی بڑی مشکل سے چل رہی تھی۔اور پھر قبرستان کے عین درمیان گاڑی رک گئی۔معلوم نہیں کیا ہواتھا۔میں نے کئی بار سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔میراغصہ اور پریشانی بڑھنے لگے تھے۔مجھے تو گاڑی کے حوالے سے کوئی خاص ٹیکنیکل چیزیں بھی معلوم نہ تھیں۔موبائل اٹھایا تو سگنل نہ تھے۔میں بری طرح پھنس چکاتھا۔" اب میری توجہ اس لڑکی سے ہٹ چکی تھی۔میرے سامنے ایک اور کردار ایک نئی کہانی لیے بیٹھا تھا۔میں ذہنی طور پر کسی بھی قسم کے حالات کے لیے خود کوتیار کرنے لگا۔ "پھر میری نظر کچھ ہی فاصلے پر کھڑے ایک شخص پر پڑی۔اس کے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں شاید چھاتا تھا۔وہ میری طرف بڑھ رہا تھا۔ونڈو کے بالکل پاس آکر اس نے شیشہ کھولنے کا اشارہ کیا۔میں نے شیشہ کھولا تو وہ جھک کر بولا "کہاں جارہے ہوصاحب؟" میں نے اسے اپنی منزل بارے بتایا تو اس نے کہا "صاحب ابھی بہت دور ہو تم۔یہ بارش رات بھر یونہی رہے گی۔یہاں کھڑے رہنا خطرے سے خالی نہیں۔" "تو کیا کروں؟؟" میں نے پوچھا۔ "صاحب گاڑی ادھر ہی کھڑی کرو اور تم میرے ساتھ میرے جھونپڑے میں چلو۔" اس نے مجھے آفر دی۔۔ "یہاں گاڑی کو تو کوئی خطرہ نہیں؟؟" میں نے استفسار کیا "نہ نہ صاحب۔یہاں کوئی نہیں آتا سوائے چند ایک جانوروں کے" مرتا کیا نہ کرتا میں نے گاڑی وہیں چھوڑی اور اس کے پیچھے چل دیا۔ "صاحب میں یہاں کا گورکن ہوں۔کئی سالوں سے ادھرہی رہ رہا ہوں۔" چلتے چلتے اس نے اپنا تعارف کروایا۔ "سنا ہے لوگ اس راستے سے ڈرتے ہیں۔اس قبرستان سے خاص کر خوفزدہ ہیں؟ کیا معاملہ ہے؟" میں نے پوچھا۔۔ "صاحب یہ مُردوں کی دنیا ہے۔مُردے بھلا کس کو کیا کہیں۔ڈرنا تو زندوں سے چاہیے نا۔" اس کی بات میں دم تھا۔۔۔ "تو تم نے اتنے سالوں میں یہاں کچھ نہیں دیکھا یا محسوس کیا؟" "نا صاحب۔میری شاید ان مُردوں سے اب دوستی ہوچکی ہے۔اس لیے مجھے کچھ نہیں کہتے۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا۔بظاہر وہ مذاق کررہا تھا مگر ناجانے کیوں مجھے اُس کا لہجہ اور ہنسی دونوں عجیب لگے۔ "خیرسوائے کچھ جنگلی جانوروں کے میرا پالا اب تک کسی سے نہیں پڑا۔سال میں بس چندایک بار یہاں سے آپ کی طرح کسی انسان سے ٹاکرا ہوجاتا ہے۔" باتیں کرتے کرتے ہم اس کے جھونپڑے تک پہنچ گئے۔بارش بدستور جاری تھی۔جھونپڑی کے اندرپہنچ کراس نے لالٹین اوپر لٹکائی۔اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولا "صاحب تم یہاں بیٹھو۔میں کچھ کھانے کابندوبست کرتا ہوں" اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ جاچکا تھا۔جھونپڑی میں ایک چارپائی پڑی تھی۔میں اس پربیٹھ گیا" میری نظر اس کے لباس پرپڑی تو وہ گیلا ہوچکا تھا۔اس نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔ "میں حیران تھا کہ اس موسم اور قبرستان میں وہ کہاں سے کھانے کابندوبست کرے گا۔میں اپنی سوچوں میں غلطاں تھا کہ ایک دم میلے کچیلے لباس،بکھرے بالوں اور عجیب شکل کی ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔وہ ہانپ رہی تھی۔ میں محتاط ہوگیا۔ "بھاگ جا یہاں سے ۔ جتنی جلدی ہوسکے اپنی جان بچا۔بھاگ جا۔۔۔بھاگ جا۔۔" اتنا کہتے ہی وہ الٹے قدموں مڑی اور جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی۔میں حیران اور خوفزدہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔میری سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا۔ کچھ ہی لمحوں بعد وہ گورکن اندر داخل ہوا۔اس کے ہاتھوں میں سالن سے بھرا لوہے کا ایک پرانا ساکٹورا اورچند روٹیاں تھیں۔ اس نے سامان چارہائی پر رکھا اور بولا "صاحب آج گوشٙت بنایا تھا۔تمہاری قسمت تھی اس لیےسالن بچ گیا۔تم کھاو میں جب تک پانی لاتا ہوں" وہ ایک بار پھر باہر چلا گیا۔ بھوک لگی ہوئی تھی اس لیے میں نے بنا کچھ اور سوچے کھانا شروع کردیا۔شوربہ انتہائی لزیز تھا۔پھر ایک نوالے کے ساتھ شاید ایک بوٹی منہ میں چلی گئی۔میں نے چبانا چاہا مگر وہ سخت تھی۔میں نے انگلی کے ذریعے وہ بوٹی باہر نکالی تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔وہ انسانی انگلی تھی۔مجھے متلی سی آنے لگی۔وہ انگلی میں نے فوراً نیچے پھینک دی۔پھر ایک خیال کے تحت میں نے سالن کے اندر ہاتھ ڈالا تو۔۔۔برتن کے پیندے میں مزید پانچ چھ انگلیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے فوراً اپنے منہ میں انگلیاں ڈال کر الٹی کرنے کی کوشش کی۔مگر اب کچھ نہ ہوسکتا تھا۔مجھے اس لڑکی کی بات یاد آنے لگی۔میں نے ایک خیال کے تحت جھونپڑے سے باہر جھانک کر دیکھا۔کچھ ہی فاصلے پرگورکن ایک جگ پکڑے جھونپڑے کی طرف بڑھ رہاتھا۔بظاہر وہ اکیلا تھا مگر حیران کن طور پر وہ شاید کسی سے باتیں کرتا اور ہنستا آرہا تھا۔ میں نے تیزی سے زمین پر پڑی وہ انگلی اٹھا کر سالن میں رکھی۔سالن کو واپس ڈھانپا اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔" میں اب اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھ سکتا تھا۔وہ خوفزدہ تھا۔۔۔ "اس نے جھونپڑی میں داخل ہوتے ہی پوچھا "صاحب تمہارے لیے شربت لایا ہوں۔ اور سالن کیسا تھا؟" اس نے گلاس میں "شربت" ڈالتے ہوئے پراسرار لہجے میں پوچھا۔ "اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔اچھا تھا سالن۔اچھاتھا" میں نے گھبرا کر کہا۔ اس نے وہ گلاس میرے ہاتھ میں تھمایا اور خود ایک کلہاڑا اٹھا کرجھونپڑی کے کونے میں جا بیٹھا۔میں نے احتیاطاً گلاس کے اندر جھانکا۔۔۔اس میں شربت کی بجائےتازہ اور گاڑھا خون تھا۔ "پیو صاحب۔شربت پیو۔اگر نہ پیو گے تو ہم کو برا لگے گا۔" وہ کلہاڑے کی دھار تیز کررہا تھا۔اس کی آنکھوں میں انتہائی بھیانک سی چمک اور لہجے میں دھمکی تھی۔ اب میں اس سے ڈرنے لگا تھا۔ میں نے ناک پر ہاتھ رکھا،آنکھیں بند کیں اورزبردستی ایک گھونٹ بھرا۔خون کا نمکین ذائقہ میرے منہ میں بھر گیا۔ میں نے بمشکل خود کو قے کرنے سے روکا۔ "اوہ!میں تو بھول ہی گیا صاحب۔میرے کچھ دوست تم سے ملنا چاہتے ہیں۔آجاو اندر" اس نے زور سے آواز لگائی۔دوست؟؟؟؟؟میں اپنی جگہ پر سمٹنے لگا۔میری نظر جھونپڑے کے دروازے پرتھی۔" اب کے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔جن میں واضح خوف ہی خوف تھا۔میں نے اضطراب میں سگریٹ سلگائی۔ "دروازے سے انتہائی لمبے اور برابر قد کے چار خوفناک مرد داخل ہوئے۔ان کے چہرے رات کی طرح سیاہ اور آنکھیں انگاروں کی طرح سرخ تھیں۔انہوں نے کفن نما لمبے سے لباس پہن رکھے تھے۔ یا پھر وہ شاید کفن میں ہی تھے۔۔۔میری نظر بائیں طرف کھڑے ایک شخص کے ہاتھ پر پڑی تو مارے خوف کے میری چیخ نکل گئی۔اس کے ہاتھ میں اسی لڑکی کا تازہ کٹا ہوا سر تھا۔جس سے خون ٹپ ٹپ برس رہاتھا۔میں ہسٹیریکلی اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑا ہوا اور ان کے درمیان سے بھاگنے کی کوشش کی۔مگر ان میں سے ایک نے مجھے پھرتی کے ساتھ گردن سے پکڑا اور کھلونے کی طرح ہوا میں کچھ دیر معلق رکھنے کے بعد چارپائی پر پٹخ دیا۔مارے درد کے میری چیخیں نکلنے لگیں۔انہوں نے چارپائی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔چاروں نے اپنا اپنا بایاں ہاتھ اوپر اٹھایا۔ہر ایک کے ہاتھ میں انتہائی تیز دھار خنجر تھا۔۔۔

   0
0 Comments