Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر4

وہ چپ ہوگیا۔میری بے چینی بڑھ گئی۔ اس کی نظریں بدستور مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ان خوفناک مردوں کی دہشت میں اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتا تھا۔اس نے ایک بار پھر اپنی کہانی شروع کی۔۔۔ "خنجروں سمیت ان کے ہاتھ فضاء میں تھے۔دہشتناک نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ "رک جاو۔۔۔" گورکن نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔چاروں نے ایک ساتھ مڑ کر گورکن کی طرف دیکھا۔۔ "ابھی نہیں۔یوں کھیل میں کوئی مزا نہیں رہے گا۔" چاروں کے چہروں پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ "صاحب ہم تمہیں بھاگنے کا موقع دیں گے۔اگر تم قبرستان کی حدود پار کرگئے تو تمہاری ذندگی تمہاری ورنہ ہماری" اس نے مجھ پر احسان کرتے ہوئے کہا۔ وہ چاروں اس کی بات سن کر ایک طرف ہوگئے۔ "بھاگو صاحب بھاگو۔اس سے پہلے کے میرے دوست قابو میں نہ رہیں بھاگ جاو" گورکن نے مکاری سے ہنستے ہوئے کہا۔مجھے جان بچانے کا موقع مل رہا تھا۔ میں پلک جھپکنے میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ تیر کی مانند جھونپڑے سے نکلا۔جدھر کو منہ تھا اسی سمت دوڑا۔ حیرت کی بات تھی کہ ان میں سے کوئی میرے پیچھے نہ بھاگا۔بارش رک چکی تھی۔مگر چہار طرف دلدل بنی ہوئی تھی۔میں گرتا پڑتا شاید قبرستان کے درمیان پہنچ چکا تھا۔" اب کے وہ خود بھی ہانپ رہا تھا۔ایسے جیسے ابھی بھی وہ بھاگ رہا ہو۔ "اسی بھاگم بھاگ میں اچانک کسی چیز نے میرا پاوں جکڑ لیا۔میں نے جو نیچے مڑ کر دیکھا میرے اوسان خطا ہوگئے۔یہ لوہے کا گول شکنجہ تھا۔جس کے ہر طرف نوکیں نکلی ہوئی تھیں۔جیسے مجھے پھنسانے کے لیے پہلے ہی بچھایا گیا ہو۔ میں نیچے بیٹھ کر ہزیانی کفیت میں اپنے پاوں کو شکنجے کی جکڑ سے آزاد کرانے لگا۔درد کی شدت مجھے مزید پاگل کیے جارہی تھی۔مگر کچھ نہ ہوا۔ میں اپنی کوشش میں مصروف تھا کہ مجھے انتہائی بھیانک قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا وہ چاروں چند فٹ کے فاصلے پر مجھے گھیرے ہوئے تھے۔ گورکن کچھ فاصلے پر ایک بلند قبر کے اوپر گھٹنوں کے بل بیٹھا دیوانہ وار ہنستا جارہا تھا۔ میری ہمت جواب دینے لگی۔موت رفتہ رفتہ میری طرف بڑھ رہی تھی۔ اچانک ان چاروں میں سے ایک نے میری طرف کچھ پھینکا۔ یہ ایک الیکٹریکل آری تھی۔جو اپنے دندانوں سے بالکل نئی معلوم ہوتی تھی۔ میں نے حیرت اور خوف کے ملے جلے اثرات سے گورکن کی طرف دیکھا۔ "صاحب۔۔۔ ایک بات تو پکی ہے کہ یہ شکنجہ تو اب ہم سے بھی نہ کھلے گا۔اس سے جان چھڑانے کے لیے تمہارا پاوں ہی کاٹنا پڑنا۔اب تمہارے پاس دو راستے ہیں۔اول یہ کہ ہم خود تمہارا پاوں کاٹیں اس صورت میں تمہاری ذندگی ہماری۔ دوئم آری تمہارے پاس پڑی ہے۔یہ کام تم خود کرو۔اس صورت میں تمہیں ایک بار پھر بھاگنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا" وہ ایک بار پھر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا۔بھاگنے کا موقع؟؟؟ایک پاوں کے ساتھ؟؟؟؟ یعنی مجھے خود اپنے ہاتھوں اپنا ہی پاوں کاٹنا ہوگا؟؟؟؟ کچھ لمحوں کو تو اس امر پر میں نے موت کو ہی ترجیح دی۔مگر پھر۔۔۔جب انسان کو جان کے لالے پڑے ہوں تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔۔۔میں نے کانپتے ہاتھوں آری اٹھائی۔اسے آن کیا۔آری کی آواز میری سماعتوں کو چیرنے لگی۔ایک بار پھر میں نے موت کے بارے سوچا۔۔۔اور۔۔۔یکدم شکنجے کے تھوڑا پیچھے ٹخنوں کے ساتھ ہی۔۔۔میں نے آری چلادی۔۔۔۔ آری میری ہڈی کو چیرتی جاتی۔۔۔خون کے فوارے پورے چہرے تک پہنچتے جاتے۔۔۔ میں مارے درد کے چیختا جاتا۔۔۔گورکن ہنستا جاتا" کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر میرے اپنے جسم پر کپکہاٹ تاری ہوگئی۔میں نے آہستہ آہستہ اس کی ٹانگوں کی طرف دیکھنا شروع کیا۔وہ منظر انتہائی درد ناک تھا۔ اس کی ٹانگ سے چیتھڑوں اور خون کی جیسے بارش ہورہی تھی۔جیسے بِنا آری کے میرے سامنے ہی ٹانگ کاٹی جارہی ہو۔میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔ "بالآخر وہ انتہائی عزیت ناک لمحات میرے پاوں کے ٹانگ سے الگ ہوتے ہی ختم ہوگئے۔مگر وہ درد۔۔۔آہ۔۔۔کبھی کوئی اپنے ہاتھ سے اپنا ہی پاوں نہ کاٹے۔جیسے ہی پاوں کٹا۔میں بڑی مشکل سے اپنے باقی مانندہ پاوں پر کھڑا ہوا۔ اور جمپ لگانا شروع کردیے۔دوسری ٹانگ سے خون مسلسل بہے جا رہا تھا۔میرا سر چکراتا جارہا تھا۔میں انتہائی کمزور پڑتا جارہا تھا۔مگر مجھے اپنی سانسوں کی بقاء کیلیے اسی ایک ٹانگ پر چلتے رہنا تھا۔گورکن ان چاروں سمیت ویسے ہی قہقہے لگاتا میرے پیچھے آہستہ آہستہ چلتا آرہا تھا۔" مجھے سگریٹ کی طلب محسوس ہوئی۔جونہی میں نے پیک کی طرف ہاتھ بڑھایا وہ خاموش ہوگیا۔میرے سگریٹ سلگانے تک وہ یونہی چپ چاپ کرب بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔ "کچھ لمحات چھپن چھپائی کا یہ کھیل جاری رہا۔ تب میری ہمت جواب دے گئی۔دلدل نے میرا ایک پاوں پر لڑکھڑا کر چلنا محال کردیا۔ میں نے خود کو نیچے جانے دیا۔اب میں کہنیوں کے بل رینگ رہا تھا۔یوں ہی رینگتے رینگتے اچانک مجھے نیچے سے کسی مخلوق نے آن گھیرا۔وہ جو چیز بھی تھی مجھے زمین کے اندر ہی اندر دھنساتی جا رہی تھی۔میرے حواس اب مکمل طور پر جواب دینے لگے۔ میرا دم گھٹنے لگا۔اسی لمحے اس مخلوق نے مجھے چھوڑ دیا۔میں بڑی مشکل سے پیٹ کے بل رینگتا ہوا ایک نسبتاً اونچی اور خشک جگہ پر پہنچ گیا۔اب میری طاقت جواب دے چکی تھی۔ میں وہیں پڑا رہا۔کچھ ہی دیر بعد گورکن اپنے ان "دوستوں" سمیت میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔۔ "چچ چچ چچ۔۔۔۔ کیا ہوا صاحب؟؟؟ بس؟؟؟ اتنے میں ہی تھک گئے؟؟؟ مطلب اب تمہاری ذندگی ہماری " میں نے آنکھوں میں آئے کیچڑ کے ذرات صاف کرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔مجھ سے کچھ بولا نہ جا رہا تھا۔بس اس کے سامنے ہاتھ باندھ دیے۔۔۔" اب کبیر نامی اس تاجر کی حالت لمحہ بالمحہ غیر ہونے لگی۔ میرے لیے بھی وقت وہیں رک چکا تھا۔ میں اسے تسلی دینا چاہتا تھا۔۔۔تسلی؟؟؟ مگر کس کو؟؟؟ "میرے جڑے ہاتھ خوف،درد اور کمزوری کے مارے مسلسل کانپ رہے تھے۔ گورکن نے انتہائی سنجیدگی سے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور پھر ایک خوفناک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا "نا صاحب نااب بس۔تجھے بہت مواقع دیے۔اب وقت آگیا ہے کہ تیرے گناہوں کا ازالہ ہو۔ان تمام مظلوموں کے بدلے کا وقت۔۔۔ جن کا حق مار کے تم آج ایک نامی گرامی تاجر بنے ہو۔" اتنا کہہ کر اس نے ان چاروں کو اشارہ کیا۔وہ میری طرف بڑھے۔میں ایک آدھ فٹ رینگنے میں کامیاب ہوا ہی تھا کہ ایک نے میری گردن آن دبوچی۔ انہوں نے مجھے ایک نسبتاً چھوٹے درخت سے الٹا لٹکا دیا۔ اور پھر۔۔۔ایک بندہ ٹوکہ لے کر میری طرف بڑھا۔دوسرے نے میرا ایک ہاتھ کھینچا اور تیسرے نے دوسرا۔ٹوکہ بردار نے ٹوکہ فضاء میں بلند کیا۔۔۔یوں میرے دونوں ہاتھ میری آنکھوں کے سامنے لمحوں میں ہی کٹ کر زمین پر جاگرے۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اب میری موت بہت قریب پہنچ چکی تھی" میرے لیے وہ منظر انتہائی اذیت ناک تھا۔اس کے دونوں ہاتھ کٹ کر میرے سامنے فرش پر پڑے تھے۔فرش اب خونی سیلاب کا منظر پیش کررہا تھا۔ہر طرف خون ہی خون۔کٹے ہوئے ہاتھ،کٹا پاوں۔۔۔نجانے آج قدرت مجھے مزید کیا کیا دیکھانا چاہتی تھی۔۔۔ کبیر کی کہانی اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی۔ "جب انہیں لگا کہ میں آخری سانسیں لے رہا ہوں۔انہوں نے اپنا آخری وار کیا۔میری آنکھوں نے آخری منظر دیکھا۔ایک تلوار فضاء میں بلند ہوئی۔میری گردن ہوا میں اڑتی ہوئی گورکن کی گود میں جا گری" اتنا کہنا تھا کہ کبیر کے دھڑ سے اس کا سر جدا ہوا اور اڑ کر میرے قدموں میں آپڑا۔میں ایک زوردار چیخ کے ساتھ اپنی جگہ سے اچھلا۔ مارے خوف کے میرے جسم پر کپکپکی طاری ہوگئی۔اس کا دھڑ اب مہرین کی لاش کے ساتھ پڑاتھا۔ کافی وقت لگا مجھے اپنی حالت سنبھالنے میں۔اور پھر وہیں سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔تیسری کہانی کا ٹائٹل میرے سامنے تھا "اپارٹمنٹ" " میرا نام عائشہ ہے۔۔۔"

   0
0 Comments