Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر5

پہلی دو کہانیوں کی طرح اس بار بھی میرے کانوں میں آواز پڑی۔میں نے فوراً گردن اٹھا کر دیکھا۔میرے سامنے ایک بار پھر ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ لمبا سا قد اور گوری چٹی۔ "میرا نام عائشہ ہے۔۔۔۔ ابا جی کا تبادلہ شہر سے دور ایک قصبے میں ہوا تھا۔ابا جی کو اس قصبے میں رہائش کے لیے ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ ملا تھا۔ دو کمروں، کچن اور ملحقہ واش رومز پر مشتمل یہ اپارٹمنٹ شایدچند سال پہلے ہی تعمیر کیا گیا۔ہمارا خاندان بھی اس اپارٹمنٹ کی طرح چھوٹا سا تھا۔ میں،میری چھوٹی بہن اور اماں، ابا۔ ہم سب بہت اچھی اور خوش و خرم ذندگی گزار رہے تھے۔ابا جی نے ہم بہنوں کو کبھی کوئی کمی نہ ہونے دی۔ میں اس وقت اپنی گریجویشن مکمل کرچکی تھی جبکہ ہانیہ ابھی فرسٹ ائیر میں تھی۔ خیر ہم سب ابا جی کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے۔ شروع کے چند دن آرام سے گزرے۔ہانیہ کا قصبے سے کچھ دور ایک نسبتاً اچھے کالج میں داخلہ کرادیا گیا۔میں ماسٹرز میں ایڈمیشن کے لیے کوشش میں لگ گئی۔ابا جی دن کو ڈیوٹی پہ چلے جاتے۔اماں گھر کے کاموں میں مشغول ہو جاتیں۔ اس طرح ہم رفتہ رفتہ اس نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے لگے۔چند دن میں ہمسائیوں کے ہاں بھی آنا جانا لگ گیا۔اسی وقت ہمیں ایک ہمسائی نے خبردار کیا کہ یہ اپارٹمنٹ انتہائی پراسرار ہے۔جو بھی یہاں آتا ٹِک کر نہ رہ سکتا۔ مگر ہمیں ان باتوں پہ زیادہ یقین نہ تھااسلیے ہنس کر ٹال گئے۔" اس کی آواز میں ایک جادو تھا۔وہ بہت اطمینان سے ٹہر ٹہر کر بات کر رہی تھی۔وہ کسی کو بھی اپنے اس لہجے کی بنیاد پر اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ "اس رات میں اپنے کمرے میں بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی۔ہانیہ میرے ساتھ ہی سوئی ہوئی تھی۔ رات کے تقریباً 12بج چکے تھے۔میری عادت تھی کہ 12 تک بیٹھ کر مطالعہ کرتی اور پھر سوجاتی۔اپنی روٹین کے مطابق میں نے ناول سائیڈ پر رکھا اور بتی بجھانے کے لیے اٹھی۔ جونہی میں لائٹ آف کر کے مڑی میرے سامنے انتہائی خوفناک منظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ میری جگہ پر سفید لباس میں ملبوس کوئی عورت ہانیہ کو دیکھے جارہی تھی۔اس کا قد لمبا، بال انتہائی باریک اور چہرہ ایسے تھا جیسے ہڈیوں کے اوپر مصنوعی جِلد لگا دی گئی ہو۔میں خوف کے مارے زور سے چِلائی اور واپس سوئچ کی جانب مڑی۔ جیسے ہی لائٹ دوبارہ آن کی اور مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔میں نے لائٹ یونہی جلی رہنے دی اور ڈرتے ڈرتے اپنی جگہ پر لیٹ گئی۔شکر کہ ابا یا اماں نے میری چیخ نہیں سنی۔ورنہ میں انہیں کیا بتاتی اور کیسے یقین دِلاتی۔ وہ رات میں نے جاگ کر گزاری۔" وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگئی۔میں اس کی آواز کے خمار میں تھا۔دِل چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے۔ "دوسرے دِن میں نے کسی سے اُس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔دِن بھر میں کچھ خوفزدہ کچھ حیران رات والے واقعے بارے سوچتی رہی۔ شام ہوئی ابا واپس آگئے۔کھانا وغیرہ کھا کر کچھ دیر باتیں ہوئیں۔پھر ابا باہر چلے گئے۔اماں اور ہانیہ ڈرامہ دیکھنے لگ گئیں۔ میں کچن میں برتن وغیرہ سمیٹنے لگی۔ کام مکمل کرنے کے بعد میں ہاتھ دھو کر جونہی مڑی میرے اوسان خطا ہوگئے۔ وہیں عورت کچن کے دروازے پر کھڑی تھی۔پہلے کی طرح اُس نے ایک لمبا سا گاون نما سفید لباس پہن رکھا تھا۔اُس کے چہرے پر سوائے مردگی کے کوئی تاثر نہ تھا۔وہ اپنی خوفناک نگاہوں سے مجھے گھورے جا رہی تھی۔ "کککک۔۔کون ہیں۔۔آآآ۔۔آپ؟؟؟؟" میں چِلائی۔ "کیا ہوا عائشے؟؟؟؟" شاید اِس بار اماں تک میری آواز پہنچ چکی تھی۔ جونہی اماں نے آواز لگائی وہ عورت پہلے کی طرح غیب ہوگئی۔میں نے تھوڑی دیر اپنے خوف پر قابو پایا اور پھر کہا "کچھ نہیں اماں۔۔۔چچ۔۔چوہا تھا چوہا" اُدھر سے امی اور ہانیہ کے مشترکہ قہقہوں کی آواز آئی۔مگر میری توجہ ان قہقہوں پر نہیں بلکہ اس تیسری آواز پر تھی جوان کے قہقہوں کے ساتھ گونج رہی تھی۔ جیسے کوئی زور زور سے رو رہاہو۔ میں فوراً امی اور ہانیہ کی طرف کی دوڑی۔مجھے یوں ہانپتا کانپتا دیکھ ہانیہ ایک بار پھر ہنسی "کیا آپی اتنی بڑی ہوکر اتنے چھوٹے چوہے سے ڈر گئی ہو" میں نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور اماں کے ساتھ دُبک کر بیٹھ گئی۔انہوں نے پیار سے میری گال تھپتھپائی اور پھر ڈرامے میں مشغول ہوگئیں۔ میرا دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔" نجانے کیوں اسکے ہر جملے کے ساتھ میری اس کی طرف کشش بڑھتی جاتی تھی۔میں نے اپنی توجہ بٹانے کے لیے سگریٹ سلگالی۔ "اس رات میں دیر تک جاگتی رہی۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ صبح ہوئی اور سب اپنی روٹین پر لگ گئے۔ شام تک میں اسی تذبذب میں رہی کہ اماں کو بتاوں یا نا۔ بلآخر میں نے فیصلہ کیا کہ اگر آج رات پھر کوئی ایسا واقع پیش آتا ہے تو صبح ہوتے ہی میں اماں کو بتا دوں گی۔ابا جی کی اس رات نائٹ ڈیوٹی تھی۔کھانا کھا کر ہانیہ ٹی۔وی دیکھتے دیکھتے اُدھر ہی اماں کے ساتھ سو گئی۔ جس رات ابا ڈیوٹی پہ ہوتے ہانیہ ایسا ہی کرتی ۔ مطلب اُس رات مجھے اکیلے سونا تھا۔ذندگی میں پہلی بار مجھے اکیلے سونے سے اس قدر خوف آرہا تھا۔مگر سونا تو اکیلے ہی تھا۔رات 12 بجے تک معمول کے مطابق میں ناول پڑھتی رہی مگر میراذہن منتشر رہا۔میں خوفزدہ کسی خوفناک واقع کے انتظار میں تھی مگر کچھ نہ ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے لائٹ آف کی اور فوراً لیٹ کر اپنے اوپر چادر لے لی۔جیسے کسی خطرے کی صورت میں وہ چادر ہی میرا واحد سہارہ تھی۔مختلف آیات کا ورد کرتے کرتے مجھے نیند نے آن لیا۔نجانے وہ کون سا پہر تھا جب کسی پائل کی چھنن چھنن سے میری آنکھ کھل گئی۔مجھے ایسے لگا جیسے کوئی پائل پہنے میرے بیڈ کے گرد چکر لگا رہا ہو۔ رفتہ رفتہ پائل کی آواز بڑھنے لگی۔پھر اس کے ساتھ ہی خوفناک قہقہوں کی آواز بھی میرے کانوں میں گونجنے لگی۔ میں نے چادر کو سختی سے اپنے اوپر لے لیا۔خوف کی وجہ سے میرے پسینے چھوٹنے لگے۔ میں چلانا چاہتی تھی مگر ڈر کی وجہ سے میری آواز بیٹھ گئی۔ یہ معاملہ کئی منٹوں تک چلتا رہا۔تب اچانک پائل اور ہنسنے کی آواز رک گئی۔ کچھ دیر تک ایک گھمبیر سناٹا چھایا رہا۔ پھر مجھے ایسے لگا جیسے پاوں کی طرف سے کوئی بیڈ پر بیٹھا ہو۔میں نے فوراً اپنے پاوں سمیٹ لیے۔اب کسی لڑکی کے رونے کی آواز آنے لگی۔پہلے پہل تو صرف سسکیاں تھیں۔مگرآہستہ آہستہ وہ سسکیاں باقائدہ رونے کی آواز میں ڈھل گئیں۔جیسے کوئی انتہائی کرب میں ہو۔رونے کی آواز اب بین میں تبدیل ہونے لگی۔ جیسےرونے والے کا کوئی مر گیا ہو۔۔۔۔ مارے خوف کے میری سانس اکھڑنے لگی۔میں آیت الکرسی پڑھنا چاہتی تھی۔مگر مجھے وہ یاد ہی نہ آرہی تھی۔۔۔" وہ بولتے بولتے رک گئی۔ اس کی آواز میں بے چینی اور خوف تھا۔ میرا دل چاہا کہ اس سے بات کروں۔اس کی ڈھارس بندھاوں۔مگر جانتا تھا کہ یہ سب لاحاصل ہے۔کبھی کبھی انسان اپنے جزبات محض اس "لاحاصل" کے ڈر سے مار ڈالتا ہے۔میرےساتھ بھی ویسا ہی کچھ ہو رہا تھا۔میں سوائے اسے سننے کے کچھ نہ کرسکتا تھا۔اس لیے چپ چاپ مگر بے چین اس کی طرف متوجہ رہا۔ "میں نے اس خوفناک آواز سے بچنے کے لیے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔مگر وہ آواز بدستور کرچیوں کی طرح میری سماعتوں کو گھائل کیے جا رہی تھی۔جب کافی وقت تک یہ سلسلہ نہ رکا تو میں نے اپنی جگہ سے اٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میرے لیے ایسا کرنا شاید ناممکن تھا۔مگر تب ہی مجھے ابا جی کی بات یاد آئی "میری عائشہ تو بہت ہی بہادر ہے"۔ اباجی ایسا تب کہتے جب میں کسی مشکل میں ہوتی۔ابا جی کی یہ بات یاد آتے ہی میری ہمت کچھ بحال ہوئی۔ میں نے فوراً اپنے بیڈ سے جست لگائی۔اور دوڑتے ہوئے بورڈ کی جانب بڑھی۔۔۔" میرا اضطراب اس کی آواز کی لرزش کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگا۔ کاش میں اس کے لیے کچھ کر سکتا۔۔۔ کاش میں اسے حوصلہ ہی دے پاتا۔بظاہر اِس لڑکی کی کہانی پچھلے دو کرداروں کی نسبت عام سی لگتی تھی۔ مگر اس کی آواز میں نرمی اور لہجے کی معصومیت مجھے اس کی طرف مسلسل مائل کیے جا رہی تھی۔ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔مگر جزبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں بول پڑا "پھر کیا ہوا؟؟؟"

   0
0 Comments