Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر6

پہلے کرداروں کی طرح اس نے بھی میری بات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔نجانے کیوں مجھے سخت مایوسی ہوئی۔ میں اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا۔میں اس سے ہمکلام ہونا چاہتا تھا۔میں چاہتا تھا کہ اسے بھی میرے "ہونے" کا ادراک ہو۔ مگر میرے چاہنے سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔۔۔۔!!! "میں لائٹ کا سوئچ آن کر کے جیسے ہی مڑی وہاں پر کوئی نہ تھا۔خوف سے میری ٹانگیں اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔میں وہیں سے الٹے قدموں مڑی اور گرتے پڑتے اماں کے کمرے تک پہنچی۔ میں نے دیوانہ وار کمرے کا دروازہ بجانا شروع کر دیا۔تھوڑی ہی دیر میں اماں اور ہانیہ حیران پریشان دروازے پر موجود تھیں۔۔۔ "کیا ہوا ہے عائشے؟؟؟ میری جان کیوں اتنی گھبرائی ہو؟؟؟؟" اماں کے لہجے میں اضطراب تھا۔مگر میں اس وقت کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہ تھی۔ ہانیہ نے مجھے شانوں سے پکڑا اور بیڈ تک لے گئی۔ "آپی تم بیٹھو یہاں۔میں پانی لاتی ہوں۔" اس نے نرمی سے کہا۔ میں بس نیچے منہ کیے ہانپتی کانپتی جارہی تھی۔ اماں نے میرا سر پکڑا اور اپنی گود میں رکھ لیا۔ "کیا ہوا میری بیٹی کو؟؟ کوئی ڈراونا خواب دیکھ لیا ہے کیا؟؟؟" اماں کی گود میں آ کر میرا کچھ حوصلہ بحال ہوا۔اتنے میں ہانیہ پانی لے آئی۔پانی پی کر کچھ حواس بحال ہوئے۔۔۔ "اب بتاو کیا ہوا ہے؟ میری بہادر بچی اتنی کیوں ڈری ہوئی ہے؟؟" اماں نے میرے سر پر اپنا نرم ساہاتھ پھیرا۔ میں نے ایک نظر اماں اور دوسری ہانیہ پر ڈالی۔پھر من وعن انہیں تمام واقعات بتا دیے۔ میری بات سن کر اماں کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ہانیہ نے ڈرتے ہوئے مجھے دیکھا۔ جیسے وہ کچھ بولنا چاہتی ہو۔ پھر کچھ لمحے سوچنے کے بعد گویا ہوئی۔۔۔ " کل آدھی رات پیاس کی وجہ سے میری آنکھ کھلی۔میں پانی لینے کچن میں پہنچی۔ وہاں میں نے کرسی پر آپی کو بیٹھے دیکھا۔ وہ انتہائی غصے میں مجھے گھورے جارہی تھیں۔ میں نے جب پوچھا کہ کیا ہوا تو ایک دم سے کرسی سے کھڑی ہوئیں اور میرے سامنے آگئیں۔ میں کافی سہم گئی۔آپی کی آنکھیں لال ہورہی تھیں۔انہوں نے سختی سے مجھے شانوں سے پکڑا۔اور کہا کہ ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔ اس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ آپی کی آواز نہیں ہوسکتی۔اتنا کہتے ہی آپی فوراً کچن سے نکل گئیں۔ جب میں بھاگ کر واپس کمرے میں پہنچی تو آپی سکون سے وہاں سوئی پڑی تھیں۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید آپی نیند میں چل رہی ہو چپ ہوگئی" ہانیہ کا اتنا کہنا تھا کہ میں اور اماں حیرانگی سے اسے دیکھنے لگے۔کیونکہ میں تو ذندگی میں کبھی نیند میں چلی ہی نہ تھی۔ پھر اماں نے ہم دونوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا "اچھا تم دونوں ڈرو نہیں۔میں صبح جیسے ہی تمہارے ابا آتے ہیں ان سے بات کرتی ہوں۔ ابھی تم دونوں میرے پاس سو جاو" میں اور ہانیہ وہیں اماں کے پاس سو گئے۔صبح ہانیہ کالج چلی گئی۔ابا آتے ہی سو گئے تھے۔میں اور اماں ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے۔جیسے ہی ابا جاگے انہیں ناشتہ دیا۔ ناشتے کے دوران ہی ابا نے میری اور اماں کی پریشانی بھا نپ لی۔۔ "کیا ہوا آج دونوں ماں بیٹی پریشان کیوں ہیں؟" ابا کے یہ کہتے ہی اماں نے میرے اور ہانیہ کے ساتھ ہونے والے تمام واقعات بیان کردیے۔ ابا نے ساری بات غور سے سنی اور گویا ہوئے۔۔۔ "اچھا تو یہ بات ہے۔ چلو تم لوگ پریشان نہ ہو۔ میں کچھ کرتا ہوں۔" ناشتہ کرنے کے بعد ابا باہر چلے گئے۔" وہ بولتے بولتے رک گئی۔ "بولتی رہو۔۔۔تم چپ ہوتی ہو تو دنیا بھر کی مصیبتیں یاد آجاتی ہیں۔تم بولتی رہو" میں اسے کہنا چاہتا تھا۔مگر چپ رہا۔اس کا وہ نرم اور شیریں لہجہ مجھے پاگل کیے جا رہا تھا۔وہ جب بولتی مجھے لگتا جیسے آبشار بہہ رہی ہو۔جیسے اس آبشار کے ساتھ بیٹھے سازندے ساز چھیڑ رہے ہوں۔جیسے انہیں سازوں کے بیچ کوئل کو کو کر رہی ہو۔اس کی آواز مجھے کالا جادو لگنے لگی۔جو تیزی سے مجھے اپنے گھمبیر سایوں میں لپیٹ رہا ہو۔میں نے مضطرب پہلو بدلا اور اس کی طرف دیکھا۔ وہ موم کا مجسمہ مجھے دیکھے جارہی تھی۔مگر ان آنکھوں میں کوئی تاثر نہ تھا۔ "دوپہر کو ابا واپس آئے تو ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔شکل سے وہ 30 سے زیادہ کا نہ تھا۔اماں اور میں نے سوالیہ نظروں سے ابا کی طرف دیکھا تو وہ بولے "یہ ولی شاہ ہیں۔ایک دوست نے میری ملاقات ان سے کروائی۔شاہ صاحب کافی علم و عمل والے بندے ہیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ یہ معاملہ حل کردیں گے" میں نے اور اماں نے حیران ہوکر اوپر سے نیچے ولی شاہ کو دیکھا۔وہ کسی بھی زاویے سے کوئی پیر یا بزرگ نہ لگتے تھے۔ چہرے پر انتہائی ہلکی سی برائے نام داڑھی۔ بلیک ٹی۔شرٹ اور جینز میں ملبوس وہ تو کسی یونیورسٹی کے طالبعلم ہی لگتے تھے۔ اسی حیرت میں میں یااماں انہیں بیٹھنے کے لیے بھی نہ کہہ پائے۔ "میں آپ کی پریشانی سمجھ گیا ہوں۔مگر آپ میرے حلیے پر نہ جائیں۔میں کوئی روایتی پیر یا بزرگ نہیں ہوں۔" ولی شاہ نے ہماری پریشانی بھانپتے ہوئے کہا۔پھر اچانک اماں کو انہیں بیٹھانے کا خیال آیا۔ چائے وغیرہ پینے کے بعد انہوں نے سارے گھر کا چکر لگانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ابا ساتھ جانے لگے تو انہوں نے ابا کو روک دیا۔ "میں اکیلا جاوں گا۔" یہ کہہ کر انہوں نے ہم سب کو باہر انتظار کرنے کا کہا اور خود اندر چل دیے۔کچھ دیر بعد وہ واپس آئے۔انہوں نے ہم سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور گویا ہوئے "عام طور پر میرے پاس جب بھی ایسا کوئی معاملہ آتا ہے تو میں سب سے پہلے متعلقہ شخص کی سائیکی چیک کرتا ہوں۔مگر آپ لوگوں کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔پہلی بات تو یہ کہ آپ سب باشعور اور پڑھے لکھے ہیں۔اور دوسرا میں نے جیسے ہی آپ کی دہلیز پر قدم رکھا مجھے محسوس ہوا جیسے مجھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک قسم کی نیگیٹو انرجی تھی۔باتوں کے دوران کئی بار محسوس ہوا کہ عائشہ کے ساتھ کوئی دوسری مخلوق بھی موجود ہے۔ لیکن جب میں اندر داخل ہوا تو ساری بات مجھ پر واضح ہوگئی۔" ولی شاہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوگئے جیسے وہ بولنے کے لیے الفاظ کے تانے بانے بن رہے ہوں۔ پھر انہوں نے ہم تینوں کی طرف دیکھا اور محتاط انداز میں بولےولی شاہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوگئے جیسے وہ بولنے کے لیے الفاظ کے تانے بانے بن رہے ہوں۔ پھر انہوں نے ہم تینوں کی طرف دیکھا اور محتاط انداز میں بولے "مجھے خدا نے یہ صلاحیت دی ہے کہ میں پوشیدہ چیزوں کو بھی دیکھ سکتا ہوں۔لیکن ایسا صرف اس جگہ پر ہوسکتا ہے جہاں ایسی مخلوق وافر مقدار میں ہو۔اور بہت شدت کے ساتھ ہو۔ میں جیسے ہی عائشہ اور ہانیہ کے کمرے میں داخل ہوا وہاں میں نے کچھ عجیب سے مناظر دیکھے۔ انکے بیڈ پر ایک کفن پوش عورت بیٹھی تھی۔ بیڈ کے ارد گرد تین چار بچے بیٹھے تھے۔ان کی آنکھوں کی جگی پر کالے گڑھے اور چہرے پر کہیں کہیں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ ان سب کے چہرے مجھ پر تھے۔میں وہاں سے نکل کر آپ لوگوں کے کمرے میں گیا۔ وہاں وہی عورت بیڈ کے سرہانے کھڑی تھی۔بیڈ پر ہانیہ سوئی تھی۔وہ عورت رفتہ رفتہ ہانیہ کے اوپر جھکتی جارہی تھی۔مگر مجھے دیکھتے ہی وہ سیدھی ہوئی اور مجھ پر غرائی۔میں فوراً باہر نکل آیا" ولی شاہ چپ ہوچکے تھے۔ ہم تینوں حیران پریشان ایک دوسرے کو تکے جارہے تھے۔کیونکہ ہانیہ تو ابھی کالج سے لوٹی ہی نہ تھی۔" وہ ایک بار پھر چپ ہوگئی۔ میں نے سگریٹ کا پیک اٹھایا اور ایک سگریٹ نکال کر سلگا لی۔ دھوئیں کے بیچ سے اس کا چہرہ مزید جازب نظر ہورہا تھا۔میرے لیے اس کے حصار سے نکلنے کے تمام راستے بند ہوتے جارہے تھے۔۔ "اب میں جو کہنے جا رہا ہوں اس بات کو حوصلے اور تسلی سے سنیے۔ یہ مخلوق انتہائی طاقتور ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کتنے عرصے سے یہاں رہ رہی ہے۔مگر اب یہ ہانیہ کو اپنی دنیا میں لے جانا چاہتی ہے۔ابھی میں یہ نہیں جان سکا کہ عائشہ کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔لیکن آپ سب کو محتاط رہنا ہوگا۔ یہ مخلوق تیزی سے ہانیہ پر اثر انداز ہورہی ہے۔ ابھی آپ نے ہانیہ سے بھی کچھ نہیں کہنا۔آج رات کسی طرح آپ لوگ گزار لیں۔ میں کل صبح کوئی نہ کوئی حل تلاش کر آجاوں۔" ولی شاہ تو یہ کہہ کر چلے گئے لیکن ہمیں شدید پریشانی اور الجھن میں ڈال گئے۔ میں ان کی بات کا ہرگز یقین نہ کرتی اگر یہ سب خود میں نے اپنی آنکھوں نہ دیکھا ہوتا۔ان کے بتائی گئیں کچھ آیات وغیرہ پڑھ کر ہم نے کمروں کے گرد حصار کھینچا۔ہانیہ ان کے جاتے ہی کالج سے واپس آچکی تھی۔اسے ہم نے سرسری سا بتایا کہ کوئی چھوٹا موٹا سایہ ہے مگر گھبرانے کی بات نہیں۔ابا نے آج چھٹی لے لی تھی۔انہوں نے ہم دونوں بہنوں کو اپنے اپنے بستر انہی کے کمرے میں لگانے کا کہا۔ رات کے کسی پہر ہانیہ کی خوفناک چیخوں سے ہم سب کی آنکھ کھل گئی۔میں نے اٹھتے ہی اپنے ساتھ دیکھا تو ہانیہ وہاں موجود نہ تھی۔اماں ابا بدحواس اوپر دیکھی جا رہے تھے۔میں نے انکی نظروں کا تعاقب کیا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ہانیہ کا جسم ہوا میں معلق تھا۔ اس کے بازو اور ٹانگیں پھیلی ہوئی تھیں۔اماں زور زور سے کلمہٰ پڑھنے لگ گئیں اور ابا ولی شاہ کی بتائی گئی آیات کا ورد کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد ہانیہ کا جسم دھڑام سے اپنی جگہ پر گرا۔مگر اس سے پہلے کہ ہم سمبھلتے پلک جھپکتے ہی کسی ان دیکھی طاقت نے اسے ٹانگ سے پکڑ کر کمرے سے باہر گھسیٹنا شروع کردیا۔ ہم تینوں دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگے۔ہانیہ کی دردناک چیخیں مجھے پاگل کیے جارہی تھیں۔وہ چلا رہی تھی۔۔۔"ابا مجھے بچا لو۔۔۔اماں۔۔۔آپی۔۔۔۔" اماں اب باقاعدہ رو رہی تھیں۔ وہ مخلوق ہانیہ کوہمارے کمرے میں لے گئی۔اس سے پہلے کہ ہم اندر جاتے دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔۔اندر سے مسلسل ہانیہ کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ابا نے پہلے تو دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر جب ناکام ہوئے تو دوڑ کر اپنا موبائل لے آئے اور کسی کا نمبر ملانے لگے۔ میں زور سے دروازہ بجانے لگی۔۔۔۔ "خدا کے لیے چھوڑ دو میری بہن کو۔ مجھے لے لو۔۔۔مگر میری بہن کو چھوڑ دو۔۔۔۔" میرا اتنا کہنا تھا کہ ایک دم سناٹا چھا گیا۔ ہانیہ کے چلانے کی آواز بھی بند ہوگئی۔" اس کی آخری بات سن کر میں سکتے میں آگیا۔ کہیں۔۔۔۔؟؟؟؟ میں اس "کہیں" سے آگے سوچنے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔

   0
0 Comments