Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر7

میں بس چپ چاپ اسے دیکھنے لگا۔ "ہم تینوں مضطرب دروازے کی جانب دیکھنے لگے۔ابا اس وقت تک کسی کو فون کر چکے تھے۔میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ولی شاہ ہوں گے۔جب یہ خاموشی طویل ہونے لگی تو اماں دروازہ پیٹنے لگیں۔۔ "کون ہو تم؟؟؟ ہم نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟؟؟ کیوں میری معصوم بچی کے پیچھے پڑ گئے ہو؟" اتنا کہنا تھا کہ اماں کو ایک زوردار دھچکہ لگا۔جیسے کسی نادیدہ قوت نے انہیں ہوا میں اچھالا ہو۔اماں سیدھا پچھلی دیوار پر جالگیں۔ان کا سر شاید پھٹ گیا تھا۔خون ان کے چہرے سے ہوتا ہوا ٹپ ٹپ زمین پر گرنے لگا۔ میں اور ابا اماں کی طرف دوڑے۔ ابھی اماں کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ کمرے سے ہانیہ کی ایک زوردار چیخ سنائی دی۔ اماں کی طرف دوڑتے دوڑتے ہم دونوں واپس کمرے کی طرف پلٹے۔دروازہ شاید کھل چکا تھا۔جیسے ہی ہم کمرے میں داخل ہوئےمیرے ہاتھ پاوں پھول گئے۔ ہانیہ دیوانہ وار اپنا سر دیوار پر مار ے جارہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی ان دیکھی طاقت اس کا سر پکڑ کر دیوار سے ضربیں لگا رہی ہے۔ ابا جیسے ہی اس کے نزدیک گئے ہانیہ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا۔ ابا کے سینے سے ٹکرایا۔اور ابا کئی فٹ پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ اتنے میں دروازے کی بیل بجی۔ابا چلائے "عائشہ دروازہ کھولو شاہ صاحب ہوں گے" میں شاید ذندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ اتنا تیز دوڑی تھی۔ جونہی دروازہ کھولا ولی شاہ سامنے کھڑے تھے۔مجھ سے ہمکلام ہوئے بغیر ہی گھر میں داخل ہوگئے۔ اماں کے سر سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا۔ "آپ آنٹی کو دوسرے کمرے میں لے جائیں اور ان کی مرہم پٹی کریں۔میں سنبھالتا ہوں یہ سب" ولی شاہ نے مڑ کر مجھے کہا۔ میں روبوٹک انداز میں ان کے کہتے ہی اماں کی جانب دوڑی۔اماں ہانیہ کے پاس جانے کے لیے ضد کرنے لگیں تو ولی شاہ نے سختی سے انہیں مخاطب کیا "دیکھیں اگر آپ اس طرح ضد کرتی رہیں تو میں ہانیہ کو نہیں بچا پاوں گا۔" یہ سنتے ہی اماں جلدی سے اٹھیں اور میرے ساتھ چل دیں۔میں نے ایک لمحے کو مڑ کر دیکھا۔ولی شاہ کمرے میں داخل ہوچکے تھے۔ میں نے اماں کو بیڈ پر بٹھایا۔وہ روئے جا رہی تھیں۔ میرے پاس ان کی تسلی کے لیے الفاظ نہ تھے۔میں نے اپنا دوپٹہ پھاڑا اور اس کا ایک حصہ اماں کے زخم والے حصے پر باندھ دیا۔ "عائشے خدا کے لیے جااندر۔میری ہانی کی خبر لا" اماں نے روتے ہوئے کہا۔میں خود بھی یہیں چاہ رہی تھی۔ فوراً اپنے کمرے کی جانب دوڑی۔" میری نبض جیسے اب اس کی آواز کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ یہ کیا چیز تھی؟؟ یہ کیسی قوت تھی؟؟؟ وہ آواز جیسے میرے لیے گریویٹی بن گئی تھی۔جو مجھے اپنی طرف کھینچے جارہی تھی۔ "اندر کا ماحول ہی کچھ اور تھا۔ہانیہ اب ہانیہ نہ تھی۔اس کے چہرے پر بڑی بڑی دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ منہ سے کوئی کالا مائع بہہ رہا تھا۔اس کا دودھیا چہرہ اب سیاہ ہوچکا تھا۔کنپٹیوں پر رگیں ایسے پھولی ہوئی تھیں جیسے ابھی پھٹیں۔ وہ ایک کونے پر دبکی بیٹھی تھی۔چہرے پر عجیب سی طنزیہ مسکان تھی۔اسے دیکھنا ہی اذیت تھی۔میں نے سختی سے اپنی آنکھیں بھینچ لیں۔ ولی شاہ کی مٹھی میں کچھ تھا۔جس پر وہ وقفے وقفے سےکچھ پڑھ کر پھونک مارتے جاتے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مٹھی کھولی۔ شاید کوئی سرمائی رنگ کا سفوف تھا۔ جو انہوں نے ہانیہ کی طرف اچھالا۔پورا گھر خوفناک چیخوں سے گونج اٹھا۔رونے،دھاڑنے،بین کرنے کی آوازیں۔جیسا ایک پورا خاندان مل کر ماتم زدہ ہو۔ میں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ یہ سلسلہ چند منٹ چلتا رہا۔پھر ایک دم سناٹا چھا گیا۔ میں نے ہانیہ کی طرف دیکھا۔وہ اوندھے منہ فرش پر پڑی تھی۔دوڑ کر اس کے پاس گئی۔کانپتے ہاتھوں اس کا چہرہ سیدھا کیا۔۔۔۔" مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سب عائشہ کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ ہوا ہو۔ میں اس کا غم اپنے اندر جزب ہوتا محسوس کرنے لگا تھا۔اسی لیے مجھے نکوٹین کی طلب ہوئی۔۔۔سیگریٹ کی۔۔۔۔ جو نجانے کتنے سالوں سے ایسے موقعوں پر میرا خوب ساتھ نبھاتی تھی۔بعض اوقات تو یہ سیگریٹ مجھے اپنی محبوبہ لگنے لگ جاتی۔میرے سیگریٹ سلگاتے ہی اس نے اپنی کہانی جاری رکھی "وہ ہماری ہانیہ ہی تھی۔ مگر اس کے چہرے کی وہ سرخی پیلاہٹ میں بدل چکی تھی۔ اس کے ہونٹ جو مسلسل مسکراتے رہتے آج بھنچے ہوئے تھے۔اپنی معصوم بہن کو اس حالت میں دیکھ میری آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ "یہ اب کل تک اسی حالت میں رہیں گی۔ آپ انہیں بیڈ پر لِٹا دیں۔ فکر نہ کریں باقی رات اب کچھ نہیں ہوگا" اتنا کہہ کر ولی شاہ باہر چلے گئے۔میں نے ابا کی مدد سے ہانیہ کو بیڈ پر لٹایا۔اس کا جسم سرد پڑ چکا تھا۔اماں اب کمرے میں آچکی تھیں۔ ایک چادر اس کے اوپر جوڑ کر میں ابا کے ساتھ باہر چلی آئی۔اماں وہیں ہانیہ کے سرہانے بیٹھ کر تلاوت کرنے لگ گئیں۔ ان کے چہرے پر کمزوری کے آثار نمایاں تھے۔ولی شاہ باہر ٹہل رہے تھے۔ "امجد صاحب مجھے آپ دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔" ابا مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ پچھلے دو ایک گھنٹے میں جو مصیبت ہم پر گزری تھی ابا اس کے حصار سے باہر آچکے تھے۔۔۔۔یا شاید ایکٹنگ کر رہے تھے۔۔۔کیونکہ والد ہمیشہ مضبوط ہونے کی ایکٹنگ ہی تو کرتا ہے۔۔۔۔ "جی بولیں شاہ صاحب کیا بات ہے؟" "امجد صاحب میری عادت ہے کہ میں بغیر کسی لگی لپٹی کے بات کرتا ہوں۔" ولی شاہ نے بیٹھتے ہوئے کہا "میں نے اس سے پہلے ایسی قوتوں کا کسی پر اتنا شدید اثر نہیں دیکھا۔عام طور پراتنی جلدی اس طرح کا اثر وہ مخلوق ہی رکھتی ہے جو ہمارے بس سے باہر ہو۔آپ کا یہ اپارٹمنٹ شاید کسی زمانے میں شیطانی سرگرمیوں کی آماجگاہ رہا ہے۔یہ سب انہی سرگرمیوں کی دین ہے۔" ولی شاہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ "آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اس مخلوق سے نہیں لڑ سکتے؟" ابا ولی شاہ کی بات سن کر پریشان ہوگئے۔ "میں کوشش تو کر سکتا ہوں مگر گارنٹی نہیں دے سکتا۔آپ کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس لیے آپ کی آخری امید میں ہی ہوں۔ باقی ماندہ رات اپنے کام پر لگ جاوں گا۔کل مغرب سے پہلے ہی واپس آجاوں گا۔اگر کل کی رات کسی طرح ہم نے کاٹ لی تو پھر خیر ہی خیر ہے۔آپ سب بس خدا کے سامنے سربسجود ہو کے میری کامیابی کی دعا کریں۔" ولی شاہ اتنا کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ "میں آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں شاہ صاحب" ابا نے احسان مندانہ کہا۔ "یہ میرا کام ہے امجد صاحب۔ اپنا کام کر کے میں کسی پر احسان نہیں کر رہا۔آپ بس اپنی بچیوں کے لیے دعا کریں" ولی شاہ یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔میں نے اور ابا نے ان کی آخری بات پر شاید پوری طرح دھیان نہ دیا تھا۔وہ "بچیوں" کہہ کر گئے تھے۔مطلب خطرے میں صرف ہانیہ نہ تھی۔" میں اس کی بات پر چونکا۔کیونکہ اب تک جو بھی واقعات بیان کیے گئے ان سے واضح تھا کہ اس مخلوق کا نشانہ ہانیہ ہی تھی۔ "اماں کو کسی طرح کچھ ادویات کھلا کر سلا دیا۔میں اور ابا رات بھر جاگتے رہے۔صبح ہوتے ہی ابا اماں کو ہسپتال لے گئے۔ہانیہ دوپہر تک ویسے ہی سوئی رہی۔جب اٹھی تو کافی ہلکان ہوچکی تھی۔ اپنے کہے مطابق ولی شاہ سرشام ہی پہنچ گئے۔ سب نے کسی طرح کھانا زہر مار کیا۔ پھر ولی شاہ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا "آج رات آپ سب ایک ہی کمرے میں رہیں گے جبکہ میں بچیوں کے کمرے میں رہوں گا۔کچھ بھی ہوجائے آپ میں سے کوئی بھی اس کمرے میں نہیں آئے گا۔" ہم نے ان کی بات من وعن قبول کر لی۔ عشاء کی نماز پڑھتے ہی ولی شاہ ہمارے کمرے میں چلے گئے اور اندر سے کنڈی لگا دی۔ ہم لوگ ابا اماں کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ایک گھمبیر سناٹا تھا۔سب اپنی اپنی جگہ پر خاموش بیٹھے دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ دو تین گھنٹے یونہی گزر گئے۔پھر ایک دم عجیب سا شور شرابہ شروع ہو گیا۔ دروازے اور کھڑکیاں اس طرح بجنے لگے جیسے کوئی بہت بڑا طوفان آگیا ہو۔ زمین لرزنا شروع ہوگئی۔ہم سب سہم کر ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔اماں زور زور سے کلمہٰ پڑھنے لگ گئیں۔ابا نے مجھے اور ہانیہ کو اپنے قریب کر لیا۔جیسے کوئی بچہ اپنا کھلونا چھن جانے کے ڈر سے اسے سینے سے لگائے پھرتا ہے۔ ہمارے کمرے سے عجیب و غریب آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ہزاروں مرد و زن مل کر بین کر رہے ہوں۔ اور پھر۔۔۔۔" وہ خاموش ہوگئی۔جیسے "اور پھر" سے آگے اس کی ہمت جواب دے گئی ہو۔میں نے بے چینی سے اپنا پہلو بدلا۔۔۔ "اور پھر ایک دم ہمارے کمرے کا دروازہ کھلنے کی ایک زور دار آواز آئی۔اس کے ساتھ ہی ولی شاہ کی چیخیں سنائی دیں۔ابا بھاگ کر دروازے تک پہنچے۔ نامعلوم انہوں نے کو نسا منظر دیکھا کہ سکتے کی حالت میں بت بن گئے۔ان کی حالت دیکھ میں جب وہاں پہنچی تو ایک لمحے کو میں بھی جیسے کومے میں چلی گئی۔ ہمارے سامنے دیوار کے ساتھ ولی شاہ پڑے تھے۔ان کا جسم رفتہ رفتہ دو ٹکڑے ہو رہا تھا۔ان کا چہرہ مسخ ہوچکا تھا۔ کچھ لمحوں میں ولی شاہ کی جگہ جسم کے دوٹکڑے پڑے تھے۔ابا نے بھاگ کر ہانیہ کو سینے سے لگایا۔میں نے اماں کو پکڑا۔ہم باہر کی طرف بھاگے۔ مگر جیسے ہمارے فرار کے تمام راستے بند ہوگئے۔اب وہاں دروازے نہیں ہر طرف دیواریں ہی دیواریں تھیں۔ہانیہ ابا کے ہاتھ سے نکلتی جارہی تھی۔اس کی فلک شگاف چیخیں ہم سب کا سینہ چھلنی کیے جارہی تھیں۔تب ہی مجھے ولی شاہ کی گزشتہ رات والی بات یاد آئی۔میں نے چِلا کر کہا "میری بہن کو چھوڑ دو۔خدا کے لیے اسے چھوڑ دو۔تمہیں قربانی چاہیے نا؟؟؟؟؟ مجھے لے لو۔میں خود کو اپنی بہن کی جگہ پیش کرتی ہوں۔۔۔" اتنا کہنا تھا کہ ہانیہ یک دم زمین پر گری۔وہ بے ہوش ہوچکی تھی شاید۔ تھوڑی دیر سناٹا رہا۔۔۔پھر۔۔۔ مجھے اپنا جسم ٹوٹتاہوا محسوس ہوا۔میں نے مڑ کر بے بسی سے ابا کو دیکھا۔ابا میری جانب دوڑے۔اس سے پہلے کہ وہ مجھ تک پہنچتے میں ہوا میں معلق ہوچکی تھی۔مجھے لگا جیسے میں اپنی دنیا سے نکل کر اندھیروں کی دنیا میں آچکی تھی۔مجھے اپنے ارد گرد ہزاروں ہاتھ نظر آنے لگے۔جیسے وہ مجھے نوچنا چاہتے ہوں۔ پھر میری نظراس عورت پر پڑی۔وہ اپنا مکروہ چہرہ لیے رفتہ رفتہ میری طرف بڑھ رہی تھی۔اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔میں جان چکی تھی کہ یہ میرا آخری وقت ہے۔میں ابا،اماں اور اپنی ہانی کو ایک بار دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔مگر جیسے میرے جسم کی حرکات وسکنات بند ہوچکی تھیں۔ آخری آواز جو میرے کانوں میں پڑی وہ ابا کی چیخ تھی۔۔۔ان کی ایک بیٹی تو بچ چکی تھی۔۔۔مگر دوسری ان شیطانی قوتوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔۔میں اپنی قربانی دے کر اپنی ہانی کو بچانے میں کامیاب ہو گئی۔۔۔ میں امر ہوگئی۔۔۔۔" وہ خاموش ہوچکی تھی۔پہلے کرداروں کی طرح وہ نہ تبدیل ہوئی نہ گری۔بلکہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ روشنی میں بدل گئی۔نور میں بدل گئی۔وہ نور میرے پورے گھر کو روشن کیے جا رہا تھا۔مجھے سمجھ آچکی تھی کہ میں کیوں اس کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔میں سمجھ چکا تھا کہ وہ محض ایک انسانی وجود نہ تھی۔وہ انسانیت تھی۔وہ پیار اور قربانی کا مجسمہ تھی۔ اس دنیا کی وہ واحد اچھائی تھی جس کی بنا پر یہ دنیا قائم تھی۔۔۔میں اپنے آنسووں کی گرمائش اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

   0
0 Comments