Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر8

وہ روشنی بن کر اس اندھیر نگری کو جگمگانے جا چکی تھی۔میرے حواس پر اپنی قربانی کی گہری چھاپ لگا گئی تھی۔میں مزید کوئی کہانی پڑھنے کے موڈ میں نہ تھا۔مگر پھر۔۔۔آج کی رات میں اپنے بس میں نہ تھا۔ میں کتاب کی گرفت میں تھا جو کہ میرے ہاتھ میں تھی۔نیا باب کھل چکا تھا۔۔۔ The Teacher۔۔۔ میں نے بے دلی سے کہانی شروع کی۔۔۔ "میرا نام شاہ زین ہے۔۔۔" میں نے اب ارادتاً ہی سامنے دیکھا۔سفید شرٹ اور بلیک پینٹ میں ایک 30-32 سال کا خوش شکل بندہ بیٹھا تھا۔اس نے سرخ ٹائی لگا رکھی تھی۔داڑھی شیوڈ اور ہلکی ہلکی مونچھیں۔۔ بظاہر معزز اور پروفیشنل لگتا تھا۔۔۔ "میں ایک مشہور نجی ادارے میں ٹیچر تھا۔ میرے نام کا ڈنکا دور دور تک بجتا تھا۔ بائیولوجی کے حوالے سے میرا نام سٹوڈنٹس کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ میرے کولیگز مجھ پر رشک کرتے تھے۔" میں یہ سب بے دلی سے سن رہا تھا۔ "اس رات بہترین رزلٹ کی خوشی میں ادارے میں اساتزہ کی ٹی پارٹی تھی۔گپ شپ میں کافی وقت گزر گیا۔تقریباً 8 بجے میں وہاں سے نکلا۔گھر کے راستے میں ایک سنسان گلی پڑتی تھی۔جیسے ہی میں وہ گلی مڑا۔یک دم میرے سامنے کوئی آگیا۔ میں ابھی سنبھلا نہ تھا کہ اس نے ایک رومال میرے منہ پر رکھا۔اس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔ نجانے کتنی دیر بعد میں ہوش میں آیا۔مجھے اپنے ہاتھ ایک کرسی سے بندھے محسوس ہوئے۔ میں نے جونہی ہاتھ ہلانے کی کوشش کی درد کی شدید لہریں میرے جسم میں سرایت کر گئیں۔ میں نے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ دونوں ہاتھ کرسی کے بازووں پر بڑے بڑے کیلوں کی مدد سے ٹھونکے ہوئے تھے۔مگر خون کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔جیسے کسی نے کمال مہارت سے یہ کام کرنے کے بعد میرے ہاتھ صاف کردیے ہوں۔ شدید درد کے باعث میں اب ہاتھ ہلانے سے قاصر تھا۔برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے ارد گرد دیکھا۔یہ کوئی کمرہ تھا۔جو مختلف کاٹھ کباڑ سے بھرا پڑا تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا بلب لٹکا ہوا تھا۔جس کی روشنی کافی مدہم تھی۔ غور کرنے پر ایک کونے میں کوئی شخص بیٹھا دیکھائی دیا۔ یقیناً وہیں تھا جو مجھے یہاں تک لایا تھا۔مجھے ہوش میں آتا دیکھ وہ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھنے لگا۔ قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اس نے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا۔" قدرتی طور پر اب میں اس شخص کی طرف متوجہ ہونے لگا۔یا شاید اسے میری مکمل توجہ کا مرکز بنایا جا رہا تھا۔ "میں سمجھا شاید یہ کوئی اغوا برائے تاوان کا معاملہ ہے۔ مگر پھر اس نے میرے ہاتھوں کا یہ حال کیوں کیا؟؟؟ کہیں کوئی ذاتی رنجش؟؟؟نہیں نہیں میری تو ہر ایک سے بنی ہوئی تھی۔مخالفت تو عام بات ہے مگر ایسا تو کوئی دشمنی میں ہی کرتا ہے۔تو پھر وہ کون تھا؟؟؟؟ اس سوال کا جواب وہ خود ہی دے سکتا تھا۔ "کون ہو تم؟؟؟؟؟ کیا چاہتے ہو مجھ سے؟؟؟؟" ماسک سے محض اس کی سرخ آنکھیں ہی دیکھائی دے رہی تھیں۔جو مجھ پر گڑی ہوئی تھیں۔میرے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ چپ چاپ کھڑا مجھے دیکھتا رہا۔ اس کا انداز بہت عجیب اور خوفناک تھا۔ میری بے بسی کہ میں خود کو آزاد کروانے کی کوشش سے بھی قاصر تھا۔ وہ مسلسل مجھے گھورے جارہا تھا۔اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے نگاہیں نیچی کر لیں۔اس نے اپنا ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھ کر میرا چہرہ اوپر اٹھایا۔دائیں بائیں موڑ کر دیکھا۔ جیسے اس کے لیے میں کوئی قربانی کا بکرا تھا۔ "تم بائیولوجی پڑھاتے ہو۔سنا ہے یگانہ روزگار ہو۔ یہ بتاو جسم کے کس حصے پر گولی لگنے سے درد بے انتہا ہوتا ہے؟؟" اس کی آواز خاصی مردانہ تھی۔سوال عجیب تھا۔میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ "اچھا چھوڑو یہ بتاو جب گھٹنے پر خاص کر قریب سے گولی لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟؟؟" ایک اور سوال۔۔۔مگر نجانے کیوں میں اسے جواب دینے سے گھبرا رہا تھا۔جب میں کچھ نہ بولا تو وہ خود گویا ہوا "چلو میں بتاتا ہوکہ گھٹنے پر جب ایک خاص نشانے سے گولی لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ گھٹنہ کارٹیلیج،لگامنٹ،مسلز اور نروز پر مشتمل انتہائی نازک نظام ہوتا ہے۔وہ گولی ارد گرد کے تمام ٹشوز کو چیرتی ہوئی گہرائی تک چلی جاتی ہے۔ اندرونی ساخت چورا بن جاتی ہے۔شروع میں ایک دھچکا محسوس ہوتا ہے۔پھر ایسے لگتا ہے جیسے پوری ٹانگ میں آگ لگ گئی ہو۔ کچھ ہی دیر بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر ذرا سی بھی ٹانگ ہلائی تو ٹوٹ کر جسم سے الگ ہو جائیگی۔پھر وہ ٹانگ شل پڑ جاتی ہے جیسے کبھی موجود ہی نہ تھی۔ ہاں مگرعموماً انسان مرتا نہیں ہے۔ بس ٹانگ کاٹنی پڑ جاتی ہے۔" وہ یہ سب کیوں بتا رہا تھا؟؟؟ کیا وہ مجھے ذہنی تشدد کا شکار بنانا چاہتا تھا؟؟؟ اگر ایسا تھا تو وہ کامیاب ہوچکا تھا۔ تب ہی میری نظر اس کے بائیں ہاتھ پر پڑی۔جس میں ایک چھوٹا سا پسٹل تھا۔میرا حلق خشک ہوگیا۔اس نے وہ پسٹل میرے بائیں گھٹنے پر پھیرنا شروع کردیا۔۔۔ "جانتے ہو ٹیچر۔۔۔ میں تمہیں اسی درد کا احساس دلانے جا رہا ہوں۔ اچھا ہے۔تمہارا تجربہ ہو جائے گا۔ویسے بھی تمہیں نت نئے تجربے کرنے کا شوق ہے نا" میں نے اپنی ٹانگ پیچھے کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔ "ہو کون تم؟؟؟؟؟؟؟ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟؟؟" اس نے میرے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا "ششششششش۔۔۔۔" اور پھر ۔۔۔"ٹھا"۔۔۔ایک زوردار آواز کمرے میں گونجی۔ مجھے شدید دھچکا لگا۔پھر ایسے لگا جیسے ٹانگ کے اندر ہی کسی نے پگھلا ہوا فولاد ڈال دیا ہو۔رفتہ رفتہ جلن کا یہ احساس ایک ناقابل بیان درد میں بدلنے لگا۔سب ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا اس نے بولا تھا" میں نے فوراً اس کی ٹانگ پر نظر دوڑائی۔خون کے فوارے بہہ رہے تھے۔اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔یہ سارا بیان سن کر ویسے ہی خود میرے جسم میں ایک سرد لہر اٹھ چکی تھی۔ "میں جتنی شدت سے چلا سکتا تھا چلایا۔وہ درد مجھ سے ہرگز برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ آرام سے کھڑا مجھے دیکھتا جارہا تھا۔جیسے میری دردناک چیخیں اس کے لیے باعثِ اطمینان ہو۔ "کککککک۔۔۔کون ہو تممم؟؟؟؟؟؟؟ ککک۔۔کیا۔۔۔کیا۔۔۔بگاڑا۔۔۔" مجھ سے مزید نہیں بولا جارہا تھا۔ "اتنی جلدی کیوں ہے ٹیچر؟؟؟؟ تعارف کو آخر پہ چھوڑ دو۔ابھی تم اس درد سے لطف اندوز ہو لو۔ تب تک کچھ باتیں کرلیتے ہیں۔" یہ کیسا انسان تھا؟؟؟ انسان تھا یا درندہ؟؟؟؟ "ٹیچر۔۔۔یہ بتاو کافی خوش شکل ہو تم۔ذہین ہو۔ ہر جگہ تمہارے ڈنکے بجتے ہیں۔کبھی ان سب باتوں کا فائدہ اٹھایا ہے؟؟؟ سمجھ رہے ہو نا میرا مطلب؟؟؟؟" میں اس کی بات پر چونکا۔۔۔۔کیا مطلب؟؟؟ کیسا فائدہ؟؟؟؟ وہ کیا کہہ رہا تھا؟؟؟ "اچھا چھوڑو۔۔۔یہ بتاو ایک استاد کا اپنے شاگرد کے ساتھ تعلق کیسا ہوتا ہے؟؟؟ روحانی باپ کا نا؟؟؟" وہ شخص مجھے ذہنی مریض لگنے لگا۔یہ کوئی ذاتی رنجش یا دشمنی نہ تھی۔وہ اذیت پسند ذہنی مریض تھا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چھوٹا پیچکس نکال لیا۔ "ٹیچر تم میری کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔کتنی بری بات ہے۔مجھے تمہیں سزا دینی ہوگی" اتنا کہتے ہی اس نے وہ ہاتھ بلند کیا۔۔۔پیچکس میرے گھٹنے سے اوپر مسلز میں سوراخ کرتے ہوئے نیچے تک چلا گیا۔میں جو پہلے ہی حواس باختہ ہوچکا تھا اس بار دیوانہ وار چیخنا شروع کر دیا۔اس نے وہ پیچکس نکالتے ہوئے کہا "اب بولو ٹیچر ۔۔۔روحانی باپ نا؟؟؟" میں نے کراہتے ہوئے فوراً اپنا سر اثبات میں ہلایا۔ "شاباش۔۔۔۔اب یہ بتاو۔۔۔کیا تم نے اس رشتے کا پاس رکھا؟" میں متذبذب تھا۔آخر وہ کیا کہلوانا چاہتا تھا مجھ سے۔۔۔ میں نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔ اس کا ہاتھ ایک بار پھر فضاء میں بلند ہوا۔اسی سوراخ کے ساتھ ایک اور سوراخ۔۔۔ایک اور دردناک چیخ۔۔۔ "جھوٹ۔۔۔۔۔جھوٹ۔۔۔۔جھوٹ نہیں ٹیچر۔۔۔جھوٹ نہیں۔۔۔" اس نے چیختے ہوئے کہا۔۔۔۔" گھٹنے سے اوپر اس کی ٹانگ پر پینٹ میں دو سوراخ ہوچکے تھے۔خون ان حصوں سے ایسے نکل رہا تھا جیسے پائپ سے پانی نکلتا ہے۔ "میں نے بے بسی سے اسے دیکھا۔تبھی اس نے اپنی دوسری جیب سے ایک تصویر نکالی۔اور میری آنکھوں کے نہایت نزدیک لا کر زور سے چلایا "پہچانتے ہو اسے ٹیچر؟؟؟؟؟؟؟؟ پہچانو اسے تم۔یا میں پہچان کرواوں؟؟؟؟؟؟" شروع میں مجھے وہ تصویر دھندلی دیکھائی دی۔۔۔پھر آہستہ آہستہ جیسے ہی منظر صاف ہوا۔۔۔۔ مجھے جیسے 220 وولٹ کا دھچکا لگا۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ "یییی۔۔۔یہ؟؟؟؟؟ " میری آنکھیں فرط حیرت سے پھیل گئیں۔ "ہاں۔۔۔یہ۔۔۔پہچانو اس معصوم ہنستے مسکراتے چہرے کو۔یہ علینہ ہے۔میری بہن۔۔۔" وہ واقعی علینہ تھی۔آج سے دو سال پہلے میری سٹوڈنٹ رہ چکی تھی۔مگر یہ شخص علینہ کا بھائی؟؟؟؟ میرے گلے میں کانٹے چھبنے لگے۔۔۔اب مجھے ساری بات سمجھ آنے لگی تھی۔۔۔"

   0
0 Comments