Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر10

ماں۔۔۔ ٹیچر کی کہانی مکمل ہوچکی تھی۔ مگر ابھی تک عائشہ کی داستان میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی۔ آج پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ ایک اچھائی کس طرح ہزار برائیوں پر حاوی ہوتی ہے۔ اپنوں کے لیے دی گئی قربانی کیسے انسان کو امر کر جاتی ہے۔ جب انسان "مجھ" کو چھوڑ "اُن" کو اپنا لیتا ہے تو وہ کس طرح اپنوں کے لیے کڑکتی دھوپ میں چھاوں بن جاتا ہے۔ جیسے عائشہ نے کیا تھا۔ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔پانچویں کہانی کا ٹائٹل میری نظروں کے سامنے تھا۔۔۔۔"ماں"۔۔۔ میں نے پہلے کی طرح کہانی شروع کرنے میں پہل کی۔۔۔ "میرا نام روزینہ ہے۔۔۔۔" ایک نسوانی آوز میرے کانوں میں گونجی۔میں نے فوراً کتاب سے نظریں اٹھائیں اور سامنے کرسی کی طرف دیکھا۔وہ25-30 سال کی ایک خاتون تھیں۔ہشاش بشاش اور بارعب چہرہ۔۔۔لمبا قد۔۔ خاتون شکل و صورت سے خاصی معقول نظر آتی تھیں۔۔۔ "چند سال پہلے ہی میری ڈولی ارحم کے گھر پہنچی تھی۔ارحم اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔باپ یعنی میرے سسر ارحم کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ماں نے اکیلے ہی اپنے اکلوتے بچے کی پرورش کی۔لہزا اس گھر میں صرف میں،ارحم اور میری بوڑھی ساس ہی رہتے تھے۔شادی کے چند دنوں میں ہی میں نے بھانپ لیا کہ ارحم لکیر کا فقیر تھا۔اسے جو جس طرف لگاناچاہتا لگا سکتا تھا۔چند ماہ تو آرام سے گزر گئے۔میرا شوہر اور ساس دونوں ہی میرے ساتھ بہت اچھے تھے۔مگر پھر رفتہ رفتہ ارحم کا ماں کی طرف جھکاو مجھے کھٹکنے لگا۔گھر کا سارا نظم ونسق اپنی ساس کے ہاتھ دیکھ مجھے چِڑ ہونے لگی۔میں اس گھر پر اپنی حکمرانی چاہتی تھی۔میں چاہتی تھی کہ ارحم ہر مہینے تنخواہ اپنی ماں کی جھولی میں ڈالنے کی بجائے میرے ہاتھ دے۔ مگر اس بڑھیا کے ہوتے ایسا ناممکن تھا۔لہزا اس سے جان چھڑانے کو میں نے منصوبہ بندی شروع کردی۔ارحم کے دل میں جگہ تو میں پہلے ہی بنا چکی تھی۔اسے اپنا گرویدہ کر چکی تھی۔اب آہستہ آہستہ میں اس کے کان بھرنے لگی۔شروع میں وہ نظر انداز کر جاتا۔پھر اس نے مجھے سمجھانا شروع کردیا۔مگر میں آئے دن اپنی مظلومیت کے قصے سنا سنا کر اس کے دل میں ذہر بھرتی گئی۔پھر ارحم کو ماں پر شک پڑنے لگا۔وہ سمجھنے لگا کہ اس کی ماں واقعی میرے ساتھ ناانصافی کرتی ہے۔اسے لگنے لگا کہ اس کے جاتے ہی میری ساس مجھے تنگ کرنے لگ جاتی ہے۔بات بڑھتی گئی۔آئے دن گھر میں دنگا فساد رہنے لگا۔وہ کبھی مجھے تو کبھی اپنی ماں کو سمجھاتا۔لیکن جب کئی مہنیوں تک حالات نہ سدھرے تو میں نے اسے وہ فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا۔ہمارے شہر میں ایک اولڈ ہوم تھا۔ارحم نے اپنی ماں کے پاوں پکڑ اسے اولڈ ہوم جانے پر راضی کر لیا۔بالآخر ایک دن وہ اسے اولڈ ہوم چھوڑ آیا۔اپنے سامان کی گھٹڑی باندھ بڑھیا ایسے اس گھر سے نکلی جیسے ایک شکست خوردہ بادشاہ اپنی سلطنت سے نکلتا ہے۔ایک نظر پورے گھر پر ڈالی۔۔۔مجھے شکوہ کناں آنکھوں سے دیکھا۔۔۔اور ارحم کے پیچھے چل دی۔ ارحم ہفتے میں دو بار اس کے پاس چکر لگا آتا۔مجھے خدشہ ہونے لگا کہ اگر وہ اس طرح وہاں جاتا رہا تو کہیں اس کا دل ماں کے لیے موم نہ ہوجائے۔سو میں ہر روز اس معاملے پر اس سے جھگڑنے لگی۔یوں رفتہ رفتہ اس نے ماں کی طرف جانا کم کردیا۔ہفتے میں ایک بار۔۔۔پھر مہینے میں ایک بار۔۔۔وقت گزرتا گیا۔اور ایک دن اولڈ ہاوس سے بڑھیا کے مرنے کی خبر آگئی۔ماں کی موت پر ارحم پچھتاوے کے بوجھ تلے دب گیا۔میں نے بھی مگر مچھ کے آنسو بہائے۔۔۔" وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگئی۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس طرح بھی عورت عورت کی دشمن ہوسکتی ہے۔اور ارحم۔۔۔۔وہ کیسا مرد تھا جس نے کل کی آئی بیوی کے پیچھے اپنی ماں کی ذندگی بھر کی قربانیوں کو فراموش کردیا۔ "خیر وقت کے ساتھ ساتھ ارحم کا پچھتاوا بھی ہوا ہونے لگا۔ چند ماہ یونہی گزر گئے۔پھر میرے ساتھ عجیب و غریب واقعات ہونے لگے۔ میں خوابوں میں ساس کو دیکھنے لگی۔وہ کفن میں ملبوس سسکیاں لیتی دیکھائی دیتی۔اس خواب نےلگاتار ایک ہفتہ مجھے پریشان کیا۔پھر مجھے سونے سے بھی خوف آنے لگا۔میں رات کو جاگتی رہتی اس خواب کے ڈر سے۔ اور پھر۔۔۔ایک رات ارحم کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔میں اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی ٹی۔وی دیکھ رہی تھی۔یہ کوئی 10بجے کا وقت تھا۔اچانک ٹی۔وی خودبخود بند ہوگئی۔پہلے تو میں سمجھی کہ بجلی چلی گئی ہے۔لیکن کمرے کی لائٹ آن دیکھ میں خوفزدہ ہوگئی۔اٹھ کر چیک کیا تو ٹی۔وی کا پلگ نکلا ہوا تھا۔میں وہ پلگ واپس لگا کر بیٹھی ہی تھی کہ ایک بار پھر ویسا ہوا۔میرے خوف سے پسنے چھوٹنے لگے۔تیسری بار میں پلگ لگا کر بیٹھی تو ٹی۔وی سکرین پر منظر دیکھ میرے ہوش اڑگئے۔وہی خواب اب سکرین پہ چل رہا تھا۔میری ساس کفن میں ملبوس سسکیاں لے رہی تھی۔میں نے جمپ لگا کر پلگ کھینچا مگر منظر نہ بدلا۔میں فوراً کمرے سے باہر نکل گئی۔ میرے ہاتھ پاوں پھولے ہوئے تھے۔دعا کر رہی تھی کہ یہ میرا وہم ہو۔میرا گلا خشک ہونے لگا۔پانی پینے جونہی کچن میں داخل ہوئی میری نظر ایک عورت پر پڑی۔وہ واش بیسن پر جھکی ہوئی تھی۔میں سکتے کے عالم میں دروازے پر ہی رک گئی۔۔۔۔ "کک۔۔۔کون ہو تتت۔۔۔تم؟؟؟؟" میں نے پوچھا۔اس عورت نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میں حواس باختہ ہوگئی۔وہ میری ساس تھی۔میں ایک دم پیچھے مڑی اور باہر کی طرف بھاگی۔لیکن کہیں بھی جائے اماں نہ تھی۔چہار طرف مجھے میری ساس نظر آنے لگی۔میرا دماغ چکرانے لگا۔میں وہیں فرش پہ گری۔ معلوم نہیں کتنی دیر میں بے ہوش رہی۔جب ہوش آیا ہسپتال تھی۔ارحم ساتھ ہی کھڑا تھا۔" وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوئی۔میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔وقت وہیں رکا ہوا تھا۔نجانے یہ کیسا گورکھ دھندا تھا۔میں کتاب لینے پر پچھتا رہا تھا۔۔۔ "ارحم کے پوچھنے پر میں نے اسے ساری روداد سنائی۔مگر وہ اسے میرا وہم کہہ کر ٹال گیا۔اب مجھے دن میں بھی گھر رہتے ڈر لگتا تھا۔ گھر میں عجیب و غریب واقعات ہونے لگے۔ کبھی ساس کے کمرے سے رونے کی آوازیں آتیں۔کبھی ایسے لگتا جیسے سارا گھر بلیوں سے بھرا پڑا ہو۔کبھی برتنوں میں چوہے مرے ہوئے ملتے۔لیکن یہ سب واقعات ارحم کی غیر موجودگی میں ہوتے۔ میں ان واقعات سے بے حد خوفزدہ ہوچکی تھی۔ارحم کو باربار بتاتی مگر وہ یقین نہ کرتا۔ میرا گمان سمجھ کر وہ مجھے تسلیاں دینے لگ جاتا۔میں چڑچڑی ہوتی گئی۔پھر ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ارحم ڈیوٹی سے واپس آکر سورہا تھا۔میں باہر گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔کچھ کام پڑنے پر میں بے خیالی میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔جونہی میری نظر سامنے پڑی میرے ہوش اڑ گئے۔ایک عورت ہاتھ میں خنجر پکڑے ارحم کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔میں چیختے ہوئے فوراً ارحم کی جانب دوڑی۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔ "ارحم۔۔۔ارحم اٹھو۔۔۔یہ عورت تمہیں مار ڈالے گی۔اٹھو جلدی" میں چلانے لگی۔ارحم حیران پریشان کبھی مجھے دیکھتا کبھی اِدھر اُدھر۔۔ "کیا ہواروزی؟؟؟؟؟؟ کیا کہہ رہی ہوتم؟؟؟ کون سی عورت؟؟؟؟؟" ارحم مجھے شانوں سے پکڑ کر چیخا۔۔۔ "یییہ۔۔۔یییہ عورت۔۔۔" میں نے اس طرف دیکھے بغیر اشارہ کیا۔ "کو ن سی عورت؟؟ مجھے تو کوئی عورت نظر نہیں آرہی" ارحم کی بات پر چونک کے میں نے اس طرف دیکھا تو واقعی وہاں کوئی نہ تھا۔ "ارحم خدا کی قسم وہ ابھی۔۔۔ابھی یہیں تھی۔۔۔اس کے۔۔۔اس کے ۔۔۔ہاتھ میں خنجر۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔۔وہ ۔۔تتت۔۔تم پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔" مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کہوں۔ارحم نے مجھے بیڈ پر بٹھایا اور پانی کا گلاس میرے ہاتھ میں تھمادیا۔میں نے ایک دو گھونٹ پانی پیا۔اور لاچارگی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ "بس بہت ہوگیا روزی۔۔۔ہم کل ہی کسی اچھے سائکیٹریسٹ کے پاس چلیں گے۔اماں والے واقع کو تم نے سر پہ سوار کرلیا ہے۔جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔اب پچھتاوے سے کیا حاصل" میں ایک دم اپنی جگہ سے اچھلی۔ "کیامطلب ہے تمہارا؟؟؟؟ میں ذہنی مریض ہوں؟؟؟؟ میں پاگل ہوں؟؟؟" میں نے چیختے ہوئے کہا۔۔ "نہیں میں یہ نہیں کہہ رہا۔تم بس سٹریسڈ ہو۔اور یہ سٹریس تمہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔اس لیے تمہیں کبھی اماں نظر آتی ہے تو کبھی کچھ اور" ارحم میری بات پر یقین کرنے والا نہ تھا۔اس لیے محض اس کی تسلی کے لیے میں تیار ہوگئی۔سائکیٹریسٹ نے ابتدائی معائنہ اور چند سوالات کیے۔کچھ ادویات اور آرام کا مشورہ دے کر ہمیں روانہ کردیا۔ارحم چپ چاپ ڈرائیونگ کررہاتھا۔ میری تمام تر توجہ ان واقعات کی طرف تھی۔رات کا وقت تھا۔ اچانک میری نظر بیک ویو مرر پہ پڑی۔میرے اندر خوف کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔بیک سیٹ پر وہیں عورت سرخ انگارہ آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔بدحواس ہوکر میں ارحم کی طرف اچھلی۔ارحم یکدم بوکھلا گیا۔گاڑی بے قابو ہوکر سامنے آتے ٹرک سے جاٹکرائی۔زور دار دھماکہ ہوا۔بے ہوش ہونے سے پہلے مجھے لوگوں کے زور زور سے چلانے اور بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔" میں نے سگریٹ پیک اٹھایا۔سگریٹ سلگائی۔اور سوچنے لگا کہ مکافات عمل کس طرح لوگوں کو آن لیتا ہے۔انسان اپنی مستی میں دوسروں کا دل کھاتا رہتا ہے۔ان کا حق مارتا رہتا ہے۔لیکن اپنے انجام سے بے خبر ہوتا ہے۔ اس نے اپنی کہانی وہیں سے شروع کردی۔۔۔ "جب ہوش آیا تو میں ایمرجینسی روم میں تھی۔میرے جسم کے ذرے ذرے سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ہر طرف زخم ہی زخم تھے۔اچانک مجھے ارحم کا خیال آیا۔ساتھ کھڑی نرس کو میں نے مخاطب کیا اور نحیف سی آواز میں بولی۔۔۔ "میرے۔۔۔شوہر۔۔کہاں ہیں؟" اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا "ارے آپ ہوش میں آگئیں۔میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں" وہ میرے سوال کا جواب دیے بغیر فوراً باہر نکل گئی۔واپس آئی تو ڈاکٹر اس کے ساتھ تھا۔وہیں سوال میں نے ڈاکٹر سے کیا۔وہ بھی میری بات نظر انداز کر گیا۔یہ تو بہت دیر بعد پتہ چلا کہ ارحم اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔میں بیوہ ہوچکی تھی۔یہ خبر مجھ پر قیامت ڈھا گئی۔میری حالت دن بہ دن بگڑتی گئی۔اب مجھے کبھی ارحم نظر آتا کبھی اس کی ماں۔۔۔۔میں اپنا ذہنی توازن کھونے لگی تھی۔۔۔پھر ایک رات میں ارحم کی تصویر لیے کمرے میں بیٹھی تھی۔مجھے ایسے لگا جیسے باہر سے رونے اور بین کرنے کی آواز آرہی ہو۔ میں سہم گئی۔جب وہ آواز کافی دیر ویسے ہی رہی تو میری برداشت جواب دے گئی۔۔۔میں چیختے ہوئے باہر نکلی تو سامنے انتہائی خوفناک منظر تھا۔دس بارہ عورتیں کالے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑے سے دائرے میں بیٹھی تھیں۔جب میں نے قریب ہو کے دیکھا تو میرے ہاتھ پاوں پھول گئے۔دائرے کے مرکز میں کفن میں لپٹا میرا ہی وجود پڑا تھا۔وہ عورتیں اسی کے اوپر بین کر رہی تھیں۔میں خوف کے مارے چیخنے چلانے لگی۔میری آوز پر ان تمام عورتوں نے ایک ساتھ میری طرف دیکھا۔ان کی شکلیں انتہائی خوفناک اور آنکھیں مکمل طور پر سفید تھیں۔میں کمرے کی طرف بھاگی۔لیکن جونہی کمرے میں داخل ہوئی وہاں بھی یہیں منظر تھا۔غرض میں جس طرف بھی دوڑنے کی کوشش کرتی وہ منظر میرے سامنے آجاتا۔میں وہیں دیوار کے ساتھ سمٹ کے بیٹھ گئی۔گھٹنوں میں سر دے کے میں نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔تبھی کسی نے میرے میرے شانے پہ ہاتھ رکھا۔میں نے ڈر کے فوراً اوپر دیکھاتو وہ ارحم تھا۔۔۔ارحم۔۔۔لیکن شاید وہ ارحم نہیں تھا۔اس کی آنکھیں اوپر کی جانب اٹھی ہوئی اور چہرے کا گوشت جگہ جگہ سے لٹکا ہواتھا۔میں نے فوراً اٹھ کر دور بھاگنے کی کوشش کی۔جیسے ہی میں مڑی سامنے ہی میری ساس کھڑی تھی۔اس کے چہرے پہ کوئی تاثر نہ تھا۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری گردن کی طرف بڑھانے شروع کردیے" اتنا کہتےہی اس کی گردن ایک طرف لڑھکی۔پھر پورا وجود فرش پہ آرہا۔۔۔۔

   0
0 Comments