Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر11

پیر صاحب۔۔۔ میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ اس کتاب کو لے کر میں نے اچھا کیا ہے یا برا۔اب تک پانچ کہانیاں میرے سامنے آچکی تھیں۔ان پانچ کرداروں کو سننے کے بعد نجانے کیوں دل ہی دل میں میں اپنا محاسبہ کررہا تھا۔ان کرداروں نے مجھے اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔یہ محاسبہ میرے لیے بےچینی کا سبب بن رہا تھا۔ایک بار پھر کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔چھٹی کہانی کا عنوان "پیر صاحب" تھا۔ میں نے کہانی شروع کی۔۔۔ "میرا نام سیدحبیب اللہ شاہ ہے۔۔۔۔" ایک بھاری بھرکم آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میں نے گردن اٹھا کر سامنے دیکھا۔سفید شلوار قمیض،سر پر پگڑی اور چہرے پرلمبی داڑھی کے ساتھ وہ شخص سامنے بیٹھا تھا۔اس کے لہجے اور چہرے سے رعب جھلک رہا تھا۔۔۔ "میں سید گھرانے میں پیدا ہوا۔شروع سے ہی میرے ذہن میں ایک بات بیٹھ گئی کہ میرے خاندان کے علاوہ تمام لوگ کمی ہیں۔کیونکہ ماحول ہی ایسا تھا۔بچپن سے ہی میں اپنے والد کے مریدین کی جی حضوری دیکھتا آیا تھا۔چھوٹے،بڑے،بزرگ،عورتیں سبھی ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے۔بعض اوقات والد صاحب مجھے مخاطب کر کے کہتے "حبیب پتر تو انہاں دا سردار تیں اے تیرے کمی نیں" سو میں نے بھی اپنے ذہن میں یہ بات بیٹھا لی۔ روایات کے مطابق بابا جان کی فوتگی کے بعد پیری کی پگ میرے سر آگئی۔میں اکثر سوچتا کہ کیسے بے وقوف لوگ ہیں جو مجھے اپنا پیر مانتے ہیں۔لیکن ظاہر ہے ان کی بے وقوفی ہی میری روزی روٹی اور حکمرانی کا ذریعہ تھی۔بابا جان سے تھوڑے بہت پینترے تعویزگنڈے کے سیکھ لیے تھے۔اس لیے کاروبار چل پڑا۔ صبح صبح میں اپنے حجرے میں بیٹھ جاتا۔شام کو جب واپس گھر پہنچتا تو سازوسامان سے لدا ہوتا۔پیسے،دانے،چاول،شہد،دودھ،مال مویشی غرض دنیا جہاں کی ہر چیز مریدین میرے قدموں میں ڈال جاتے۔ کسی کو شفاء ملتی یا نا ملتی،کسی کا کام ہوتا یا نا ہوتا۔۔۔میرا دھندا آرام سے چل رہا تھا۔" وہ خاموش ہوگیا۔اس کی بات سن کر میں سوچنے لگا کہ کیسے بے عقل لوگ ہوتے ہیں جو صرف ذات برادری کی بنا پر کسی کو سر پہ بیٹھا لیتے ہیں۔میں خود اگرچہ سید تھا۔مگر بچپن سے ہی میں اس ذات پات کے چکر سے آزاد تھا۔اور مجھے سخت چڑ ہوتی ان لوگوں سے جو میرے آگے جھک جھک جاتے۔ "ایک دن کسی دور پرے کے علاقے سے میرے مریدین آئے۔ان کے ساتھ ان کی ایک بیٹی تھی۔وہ انتہائی خوبصورت لڑکی تھی۔اسے دیکھتے ہی میرے ہوش اڑ گئے۔اس کے خاندان والوں کو لگتا تھا کہ اس لڑکی،جس کا نام زینب تھا، پر جنات ہیں۔میری نیت میں کھوٹ تو پہلے سے ہی تھی۔سو شیطانی دماغ نے ایک ترکیب سوجھی۔میں ان کے سامنے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور پھر زینب کے والد کو مخاطب کیا۔۔ "دیکھ اللہ یار بیٹی پر سایہ انتہائی خطرناک ہے۔کم ازکم 15دن لگاتار عمل کرنا پڑے گا اس پر۔ورنہ اس کی جان چلی جائے گی" اللہ یار کچھ پریشان ہوا۔۔۔ "پیرصاحب اپنی فصلیں پڑی ہیں۔مال مویشی بھی ہیں۔اتنے دن تو نہیں رک سکتے۔" میں اس سے اسی جواب کی توقع کررہا تھا۔فوراً بولا "دھی رانی کو پھر میرے زنان خانے چھوڑ جا۔ٹھیک 15دن بعد آکے لے جانا۔اللہ خیر کرے گا" یہ سنتے ہی اللہ یار کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی۔ "مولاآپکو سلامت رکھے پیرصاحب۔سید کے گھر میں رہے گی اس کی نوکری کرے گی اس سے بڑھ کے کیا چاہیے" اس نے میرا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتے ہوئے کہا۔پھر اللہ یار اپنی بیوی کو لے کر چلا گیا۔زینب کو ناچاہتے ہوئے بھی زبردستی زنان خانے بھیج دیا گیا۔جیسے ہی شام ڈھلی میں گھر پہنچ گیا۔تھوڑی دیر آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد میں نے اپنے رازدار ملازم بخشو کو بلایا۔ "بخشو جا اس نئی کڑی نوں لے کے آ" بخشو حکم کی تعمیل کرنے فوراً زنانے خانے پہنچ گیا۔جب واپس آیا تو زینب اس کے ساتھ تھی۔اچھی طرح چادر میں لپٹی،شرماتی اور سہمی ہوئی۔اسے دیکھتے ہی میرے اندرکی شیطانیت جاگ اٹھی۔بخشو اسے کمرے میں چھوڑ کر پلٹ چکا تھا۔ "آ لڑکی ادھر میرے سامنے بیٹھ جا۔کچھ عمل کرنا ہے۔" وہ ڈری سہمی میرے سامنے آ کے بیٹھ گئی۔ "گھبرا نا۔تجھے کچھ نہیں ہوگا۔میں تیرے اوپر سے سایہ ختم کردوں گا" وہ میری نظروں کا زاویہ سمجھ کر مزید سٹپٹا گئی۔چادر جو پہلے سے ہی ٹھیک تھی اسے مزید جوڑنے لگ گئی۔میں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور کچھ پڑھنے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔وہ بے حد ڈری بیٹھی تھی۔پڑھتےپڑھتے میں نے جونہی اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔وہ ایک دم سے میرا ہاتھ جھٹک کر پیچھے کی جانب اچھلی۔میں نے غصے سے اسے دیکھا۔۔۔ "کیا کر رہی ہے لڑکی۔۔۔۔ادھر آ جاسامنے میرے۔" وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔بلکہ آہستہ آہستہ پیچھے کی جانب جانے لگی۔ مجھے شک پڑگیا کہ یہ بھاگنا چاہتی ہے۔میں یہ موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔اس لیے فوراً اس کی طرف بھاگا۔مجھے اپنی طرف آتا دیکھ وہ ایک دم پلٹی اور کمرے سے باہر بھاگی۔اسی بھاگم بھاگ میں میرا پاوں کرسی سے ٹکرایا اور میں نیچے گر گیا۔تب تک وہ گھر کی دہلیز پار کرچکی تھی۔بخشو نجانے کہاں مر گیا تھا۔میں گلا پھاڑ کر اسے بلانے لگا۔کچھ ہی دیر میں وہ ہانپتا ہوا گھر کے پچھلے حصے سے نمودارہوا۔۔۔ "کہاں مر گیا تھا بدذات۔لڑکی بھاگ گئی ہے۔دوتین بندے لے اور اسے پکڑ کر لا۔اگر اس کے بغیر آیاتو تیری بوٹی بوٹی کردوں گا" بخشو اثبات میں سر ہلاتا ہوا باہر کی جانب دوڑا۔میں بے چینی سے صحن میں ٹہلنے لگا۔وقت گزرتا گیا لیکن کوئی خبر نہ آئی۔ٹھیک دو گھنٹے بعد بخشو حواس باختہ میرے سامنے آکھڑا۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ "کیاہوا؟؟؟؟ لڑکی کہاں ہے؟؟؟" میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ "مالک وہ۔۔۔وہ۔۔۔اس لڑ۔۔۔لڑکی۔۔۔۔" "آگے بھی بک کیا ہواہے؟؟؟" میں اس پر چلایا۔ "مالک لڑکی۔۔۔۔نے دریا میں چھلانگ لگا دی ہے" وہ جلدی سے بولا۔میراہاتھ فضاء میں بلند ہوا اور ایک سرخ چھاپ اس کے چہرے پر چھوڑگیا۔ "ہڈحرام ایک لڑکی نہیں سنبھالی گئی۔جا تیراک بلوا۔اور اس کوزندہ یامردہ ڈھونڈ کے لا" دوسرے دن زینب کی لاش مل گئی۔اس کے گھر والوں کواطلاع کی گئی۔اپنے خاص بندوں کے ذریعے لوگوں میں یہ بات پھیلادی کہ اس کوجنات وہاں لے گئے۔زینب کے ماں باپ نے بھی اس بات پر یقین کرلیا۔" وہ پھر خاموش ہوگیا۔میرا خون کھولنے لگا۔لوگوں کی جہالت اور پیر کی مکاری پر مجھے شدید غصہ آرہاتھا۔ "یوں زینب کے ماں باپ روتے دھوتے اپنی اکلوتی بچی کو وہیں دفنا کرچل دیے۔میں مطمئین تھا کہ سارا معاملہ خوش اسلوبی سے انجام کوپہنچا۔اس دن میں جلد ہی گھر واپس آگیا۔کھانا وغیرہ کھا کر سوگیا۔رات کے تقریباً 12-1بجے میرے کمرے کا دروازہ بجا۔میں نے حیران پریشان دروازہ کھولا تو سامنے بخشو کھڑا تھا۔ "مالک۔۔۔معافی چاہتا ہوں آرام میں خلل ڈالا۔لیکن ایمر جینسی ہے۔آپ کو ساتھ چلنا ہوگا" بخشو نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ "او!کیا آفت آگئی اس وقت حرام خور؟" میں نے جھلا کر کہا۔ "مالک آپ بس ساتھ چلو۔نہ گئے تو نقصان ہوجانا" میں کافی پریشان ہوگیا۔بخشو کو گالیاں بکتے اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ مجھے مختلف پگڈنڈیوں سے گزارتا ہوا دریا کے نزدیک جاپہنچا۔ہمارے درمیان کچھ فٹ کا فاصلہ تھا۔اندھیرے کے باعث مجھے بخشو کا بس ہیولہ ہی نظر آرہا تھا۔وہ دریا کنارے جا کرشاید رک گیا تھا۔میں پیچھے سے چلایا "بول کیا موت پڑ گئی ہے رات کے اس پہر" اس نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا میرے قدم وہیں رک گئے۔ میں آگے بڑھ سکتا تھا ناہی پیچھے ہٹ سکتا تھا۔وہ بخشو نہیں زینب تھی۔ "تتت۔۔تو ؟؟؟؟" "ہاں میں پیر صاحب۔کیوں حیران ہوگئے نا؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔میرے ہوش اڑچکے تھے۔کل ہی تو میں اسے دفنا کے آیا تھا۔ "پیر صاحب۔۔۔ذرا پیچھے تو دیکھیں۔دیکھیے کتنے لوگ آپ کو ملنے آئے ہیں" میں نے ڈرتے ڈرتے پیچھے دیکھا۔میرے پسینے چھوٹنے لگے۔وہ لوگ نہیں درخت تھے۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔کئی درخت میری طرف بڑھ رہے تھے۔میں بغیر مڑے الٹے قدموں پیچھے کی طرف چلا۔مگر کسی چیز سے ٹکرا کر نیچے گرا۔زینب خاموش کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی۔درخت جو مجھے چلتے نظر آرہے تھے اب رک چکے تھے۔میں وہیں زمین پہ بیٹھا رہا۔ "پیر صاحب ذرا سامنے تو دیکھئے" میں نے فوراً سر اٹھایا۔سامنے کا منظر دیکھ میں اچھل کےاس طرف دوڑا۔دو عجیب و غریب بندے میری بیٹی کو پکڑے ہوئے تھے۔ان کے سیاہ چہرےسپاٹ،آنکھیں سرخ اور بھاری بھرکم جسم تھے۔ "کون ہو تم؟؟؟؟چھوڑ دو میری بیٹی کو۔چھوڑو اسے" میں جیسے ہی ان کے نزدیک پہنچا سارا منظر غائب ہوگیا۔ "کیوں پیر صاحب؟اپنی بیٹی کے لیے معیارکچھ اور دوسروں کی بیٹی کے لیے کچھ۔؟ایساکیوں؟" اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔میرا سر جھکا رہا۔اچانک چہار طرف سے مجھ پر پتھروں کی بارش ہونے لگی۔میں جس طرف بھی بھاگتا وہیں سے پتھر آنا شروع ہوجاتے۔یہاں تک کہ میرا پورا جسم خون میں نہلا چکا تھا۔تب جا کے پتھر برسنا بند ہوگئے۔میں نڈھال رحم طلب نگاہوں سے زینب کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ "پیر صاحب ایک بات تو بتائیں۔سید کہلوانے کے باوجود میرے نام سے بھی شرم نہ آئی آپ کو؟" اس نے حقارت سے پوچھا۔میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔میں نے جونہی معافی مانگنے کا ارادہ کیا۔مجھے لگا جیسے کسی رسی سے میرے پاوں جکڑ دیے گئے ہوں۔میں نے نیچے دیکھا تو میرے حواس ہوا ہونے لگے۔کسی درخت کی جڑیں خودبخود میرے دونوں پاوں سے لپٹی جاتی تھیں۔اچانک مجھے دھچکا لگا اور منہ کے بل زمین پر آرہا۔وہ جڑیں مجھے اس کھردری زمین پر گھسیٹنے لگیں۔یہ سلسلہ کچھ دیر چلنے کے بعد رک گیا۔میں ہانپ رہا تھا۔ہمت جواب دے چکی تھی۔تبھی میں نے ایک خاصی چوڑی جڑ کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔اس سے پہلے کے میں سنبھلتا اس جڑ کے کچھ حصے میری دونوں آنکھوں میں پیوست ہوگئے۔درد کی شدت سے میں چیخنے لگاجبکہ زینب قہقہے لگا رہی تھی۔اب اس جڑ کو میں اپنی گردن کے گرد لپٹتا ہوا محسوس کرنے لگا۔تبھی مجھے اپنے جسم میں تناو محسوس ہوا۔جیسے گردن والی جڑ مجھے اپنی طرف جب کہ پاوں والی اپنی طرف کھینچنا چاہ رہی ہو۔یہ تناو بڑھنے لگا۔میری ہڈیاں چٹخنے لگیں۔میری چیخوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا۔لیکن ان سے بھی بلند زینب کے قہقہے تھے۔میری گردن لمبی ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔" اس کی گردن باقاعدہ چہرے سے اکھڑ کر نیچے لڑھک گئی۔اس کا خون میں ڈوبا جسم نیچے جا گرا۔۔۔یہ منظر خود میرے لیے کافی ہولناک تھا۔میں پیچھے کی طرف اچھلا۔۔۔

   0
0 Comments