Orhan

Add To collaction

کتاب

کتاب از سید حیدر ذیشان قسط نمبر12 آخری قسط

"المظ" پہلی چھ کہانیاں ختم ہوچکی تھیں۔آخری باب میرے سامنے کھلا پڑا تھا۔مگر نجانے کیوں نیچے دیکھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔یہ سب لوگ جو اس کتاب کا کردار بنے تھے۔یہ کون تھے؟؟؟ کہیں انہوں نے بھی یہ کتاب تو نہیں پڑھی تھی؟کہیں کتاب پڑھنے کے بعد وہ اس کا حصہ تو نہیں بنے تھے؟ کہیں میرا حال بھی ان جیسا تو نہ ہوگا؟؟ نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔میں ان میں نہیں ٹہرایا جاوں گا۔۔۔میں نے تو آج تک ایسا کوئی کام نہ کیا تھا۔نہ ہی عائشہ کی طرح مجھ میں اچھائی تھی۔۔۔نہ ہی باقیوں کی طرح میں نے کسی سے اس قدر برائی کی تھی۔میں تو ایک بنجارہ۔۔۔صدیوں کا بھٹکا ہوا۔۔۔اپنے آپ سے بھی دور تھا۔ میں نے کسی سے کیا اچھائی۔۔۔کیا برائی کرنی تھی؟؟؟ مجھے تو خود وقت نے اٹھا اٹھا کہ ایسا پٹخا کہ جسم کا رواں رواں درد کرتا تھا۔میں خود کا محاسبہ کرنے کی سوچتا۔مگر محاسبہ؟؟؟ کہاں کا محاسبہ؟؟؟ کیسا محاسبہ؟؟؟ محاسبہ تو اس کا ہوتا ہے جس نے اپنی زندگی خود جی ہو۔۔۔میں توعام انسان کی طرح ذندگی بھر دوسروں کی ذندگیاں جیتا آیا تھا۔ذندگی میری تھی ہی کب؟؟؟ جو میں نے جی ہی نہیں اس کو ذندگی کہہ کر اسی کا محاسبہ؟؟؟ نہیں نہیں۔۔۔ہرگز نہیں۔میں اس کتاب میں کہیں فِٹ نہیں آتا۔۔۔ پھر مجھے رفتہ رفتہ گزشتہ واقعات یاد آنے لگے۔۔۔کس کے ساتھ میں نے برا کیا۔۔۔کس نے میرے ساتھ برا کیا۔۔۔مگر مجھ میں شاید ہمت ہی نہ تھی محاسبے کی۔۔۔تبھی۔۔۔ایک جانی پہچانی نسوانی آواز میرے کانوں میں پڑی۔۔۔ "کیسے ہو شاہ میر؟؟؟" میں نے چونک کر اوپر دیکھا۔۔۔۔ویسا ناقابل یقین لمحہ شاید میری ذندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔میں نے آنکھیں رگڑنا شروع کردیں۔کہیں میرا لاشعور میرے محاسبے پر نا تل گیا ہو۔ "مجھے دیکھ کر حیران ہورہے ہو شامی؟کیوں؟ سوچا نہیں تھا نہ کہ کبھی ایسا بھی ہوگا؟" ہاں وہ ہی تھی۔۔۔وہیں شیریں لہجہ۔۔۔لہجے کا ٹہراو۔۔۔میں کچھ بولنے کی حالت میں نہ تھا۔۔۔ "میں تو سمجھی تھی کہ ذندگی عجیب ہے۔۔۔موت تو اس سے بڑھ کر کٹھن ہے شامی" وہ مجھ سے مخاطب تھی۔بالکل ویسے جیسے آج سے برسوں پہلے۔۔۔کوئی گہری بات کرتے ہوئے۔۔۔ آسمانوں کی طرف تکنا۔۔۔جیسے وہاں جواب لکھا ہو۔۔۔مگر۔۔۔اسے کبھی جواب ملا ہی نہ تھا۔یہیں تو ہوتا آیا ہے۔ہم جیسوں کے ساتھ۔ہمارے سوالوں کا جواب ہی نہیں ہوتا۔ "شامی۔۔۔۔کیوں کیا تھا ایسا؟ مجھے جاننے کے دعویٰ کرتے تھے تم۔۔۔اتنا بھی نہ جان پائے کہ میری آخری امید تم تھے۔انسان امید کے سہارے جیتا ہے۔تم ہی کہتے تھے نا؟جب امید ہی ختم ہوگئی میری تو میں کیسے جی پاتی بھلا؟" میرا دل چاہ رہا تھا وہاں سے بھاگ جاوں۔اس کی پرچھائی سے کہیں دور۔کیونکہ ایسا ہی تو کرتا آیا تھا میں۔ذندگی بھر اس سے بھاگتا رہا تھا۔ "جانتے ہو جس وقت تم چپ چاپ چلے گئے تھے۔۔۔تب مجھ پر ذندگی کس قدر بھاری پڑ گئی تھی۔۔۔۔ جانتے ہو تمہارے جانے کے بعد میں بھی چلی گئی تھی۔۔۔ یونیورسٹی سے نہیں۔۔۔دنیا سے۔۔۔خیر تم کیا جانو۔۔۔تم تو محض بھاگنا جانتے ہو۔ہے ناں؟؟؟" میرے سامنے آج سے پانچ برس پہلے کے وہ تمام مناظر فلم کی مانند چلنے لگے۔۔۔۔یونیورسٹی کی چہل پہل۔۔۔وہ پہلا دن۔۔۔انٹروڈکشن۔۔۔جب اس نے اپنا نام لیا تھا۔۔۔ "میرا نام المظ ہے" شاید ہم سب وہ نام پہلی بار سن رہے تھے۔مگر اس نے مطلب بتانے سے انکار کردیا تھا۔کیونکہ اس کے خیال میں وہ "المظ" نہ تھی۔نجانے کیوں وہ المظ ہوتے بھی "المظ" نہ تھی۔۔۔؟ پھر وقت گزرتا گیا۔اس کے اور میرے نظریات میں مماثلت ہم دونوں کو قریب لاتی گئی۔جلد ہی ہم دونوں ہر جگہ ساتھ دیکھے جانے لگے۔لوگ نجانے کیا کیا سمجھنے لگے۔مگر حقیقت تو یہ تھی کہ نا اسے میرے چہرے سے کوئی غرض تھی نا مجھے اس کی خوبصورتی سے۔ہم تو بس اپنے اپنے افکار کی وجہ سے ساتھ چلتے تھے۔وہ دنیا میں سرحدوں کا خاتمہ چاہتی تھی۔۔۔میں بھی۔۔۔۔وہ تمام انسانوں کو ایک دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔میں بھی۔۔۔وہ ذات،پات،رنگ،نسل،زبان،مزہب،فرقوں کی بنا پر انسانی تقسیم کے خلاف تھی۔۔۔میں بھی۔۔۔غرض ہم دونوں خوابوں کی دنیا کے باسی تھے۔ہمیں ایک دوسرے کی عادت ہوگئی تھی۔۔۔اور عادتیں کبھی نہیں بدلتیں۔۔۔جان لے کر ہی چھوڑتی ہیں۔۔۔!!! پھر مجھ سے جڑے ہر انسان کی ذندگی میں ایک طوفان آیا۔اس طوفان کی وجہ کوئی اور نہیں میں خود تھا۔جزباتی طبیعت کی وجہ سے یونیورسٹی سیاست میں مٙیں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ واپسی کا راستہ نہ رہا۔تنظیموں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔دو سٹوڈنٹس مارے گئے۔کئی زخمی ہوئے۔املاک کو نقصان پہنچا۔میرے خلاف مقدمات بنے۔ جیل پہنچا۔طاقتور سیاسی قوتوں نے میرے والدین کو تھانے کچہری کے چکر لگوائے۔ ان تمام معاملات کے دوران وہ ہر قدم پہ میرے ساتھ رہی۔ اور جب طوفان تھما تو میں ہمت ہار چکا تھا۔والدین کے تھانے کچہری کے چکروں نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ان کا سامنا میں کر نہیں سکتا تھا۔یونیورسٹی سے ایکسپیل کروا دیا گیا۔المظ سے میری آخری ملاقات تھانے کے باہر ہوئی۔جب وہ میری رہائی پر جوش و خروش سے مجھے لینے آئی۔۔۔ "شامی۔۔۔پریشان مت ہونا۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔میں نے بابا سے بات کر لی ہے۔وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں گے اس سلسلے میں" وہ انتہائی فکرمندانہ انداز میں مجھے تسلیاں دیتی جا رہی تھی۔اور میں بس سر ہلاتا جا رہا تھا۔ "اچھا اب جا کے سکون سے سو جانا۔زیادہ مت سوچنا۔اور ہاں صبح ہوتے ہی میں کال کروں گی اٹینڈ لازمی کرنا۔او۔کے؟" اس نے نصیحت کی۔ "او۔کے!" یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔مگر یہ بات صرف میں جانتا تھا۔اسی رات ہاسٹل سے اپنا سامان منگوایا اور چپکے سے اس شہر اور المظ کو غائبانہ طور پر الوداع کیا۔۔۔۔! ماضی کی تلخ یادیں ایک بار پھر ماحول میں تلخی گھولنے لگیں۔۔۔میں مزید کچھ نہیں سوچ سکتا تھا۔چپ چاپ اسے دیکھتا جارہا تھا۔۔۔ "شامی۔۔۔جانتے ہو مجھ پر سب سے بڑا الزام کیا لگا تمہارے جانے کے بعد؟؟؟ یہ کہ میں نے خودکشی کی تھی۔۔۔وہ خودکشی تو نہ تھی۔۔۔ وہ تو ہارٹ اٹیک تھا۔۔۔وہ تو قتل تھا۔۔۔میرا۔۔۔میری امیدوں کا۔۔۔میرے خوابوں کا اور میرے حوصلوں کا۔۔۔" اس کی ہر بات میرے ضمیر،میرے دل پر ایک چوٹ تھی۔۔۔میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔معافی مانگنا چاہتا تھا۔مگر۔۔۔شاید وقت گزرچکا تھا۔۔۔۔یہ سزا جو پچھلے پانچ سال سے میں بھگت رہا تھا۔۔۔۔ذندگی بھر بھگتنی تھی۔۔۔۔ "آہ!!!! تم مرد ہوکر بھی ہمت ہارگئے تھے،میں تو پھر ایک لڑکی تھی۔۔۔ٹوٹی بکھری۔۔۔حساس۔۔۔۔میں کب تک برداشت کرتی؟۔۔۔۔تم نے پل بھر نہ سوچا۔۔۔؟ تم بھاگ گئے۔۔۔میں پیچھے رہ گئی۔۔۔میری ساری دعائیں،ساری محنتیں،ساری تہجدیں رائیگاں گئیں۔۔۔۔" میں چہرہ ہاتھوں پہ ٹکائے بیٹھا رہا۔میری آنکھوں سے آنسو برس برس کے ہاتھوں کو گیلا کر رہے تھے۔ "کاش المظ میں کچھ کہہ پاتا۔۔۔کچھ بول پاتا!!!!!" "شامی جاو معاف کیا تمہیں۔۔۔اب فیصلہ کرنا کہ تمہاری کہانی ماضی کی محتاج رہے گی۔۔۔۔یا پھر تعمیرِ نٙو کی نوید ہوگی۔۔۔۔ جاو۔۔۔ اپنے ٹوٹے بکھرے نامکمل خوابوں کی کرچیوں پر کھڑی المظ تمہیں معاف کرتی ہے۔۔۔" نہیں۔۔۔۔۔مجھے معاف مت کرو۔۔۔۔ "جانتے ہو میں المظ ہوتے بھی "المظ" کیوں نہ تھی؟؟؟کیونکہ المظ کا مطلب ہے خوشنما۔۔۔۔دیدہ زیب۔۔۔نہ تو میں کبھی خوشنما رہی۔۔۔نہ ہی دیدہ زیب۔۔۔۔۔اس لیے میں المظ نہ تھی۔۔۔۔" اس کے یہ الفاظ بجلی بن کر مجھ پہ گرے۔۔۔میں نے چونک کر اوپر دیکھا۔۔۔۔وہ جاچکی تھی۔۔۔۔دیدہ زیب،خوشنما۔۔۔المظ جاچکی تھی۔۔۔۔میں اس کا مجرم تھا۔۔۔۔کافی دیر یونہی چپ چاپ رونے کے بعد میں نے بالآخر کتاب کی طرف نظر دوڑائی۔۔۔۔ٹائٹل۔۔۔"المظ"۔۔۔لیکن صفحے خالی تھے۔۔۔میں سمجھ گیا کہ اب مجھے دوسروں کی ذندگی کو "المظ" بنانا ہے۔۔۔میں نے فون اٹھایا اور برسوں بعد گھر کا نمبر ملایا۔۔۔۔۔! 🍁ختم شد۔۔۔۔۔!!!!!!!!🍁

   0
0 Comments