وصلت
وصلت کا بھی سکھاتا رہا عشق ڈھب مجھے
نظریں اٹھا کے دیکھنا ہے بے ادب مجھے
دیدِ لبِ مسیحا بہت جاں ستان ہے
اعجاز کب ہے دیکھنا یوں جا بلب مجھے
برعکس ہی ملا ہے زبوں بخت کو سدا
مرنے کی آرزو پہ ہے بے حد عجب مجھے
خوں پر دھیاں کا وقت نہیں شکوہ ہو کدھر
فرصت ہے شکرِ زخمِ تمنا سے کب مجھے
یادِ صنم کی آگ نے تن من جلا دیا
ہائے ملی سزائے محبت غضب مجھے
نازِ ستم اٹھانے کو حاضر ہوں ہر نفس
زنہار چھوڑ جانا نہ تم بے سبب مجھے
اس سنگ دل سے عشق کیا جان کر سبھی
مجرم ہوں سنگسار کرو مل کے سب مجھے
ہے آبیاری عشق کی اشکِ ہوائے دید
فرقت کا کام اس میں سمجھ آیا اب مجھے
دستِ کرم کو جتنا بھی تم دور کھینچنا
پامال کرنے واسطے کر منتخب مجھے
ہم نے اے *رند* تھوڑی محبت جو مانگ لی
غم دے گیا وہ نازِ جفا بے طلب مجھے