Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از اریج شاہ
قسط نمبر1

شہریار میں آجاؤں ۔۔۔۔۔۔۔؟
شہریار مجھے بلا لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہریار مجھے اجازت دیں ۔۔۔۔۔۔۔
شہریار مجھے باہر بلالیں۔ ۔۔۔۔۔۔
شہریار میں باہر آجاؤں۔ ۔۔۔۔۔۔۔؟
ہر ایک پکار کے ساتھ وہ کروٹ بدل رہا تھا ۔
لیکن یہ آواز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔آج سے نہیں بلکہ برسوں سے یہ آواز پل پل اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔
آج سارا دن ٹف روٹین کی وجہ سے وہ بہت تھک گیا تھا اس وقت اسے آرام کی شدید ضرورت تھی ۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی کہ ایک بار پھر سے ان آوازوں نے اسے بے بس کردیا ۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور کمرے کی لائٹ اون کی ۔
اب اسے ان آوازوں سے ڈر نہیں لگتا تھا اسے عادت ہوچکی تھی ۔
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آوازیں اسے کب سے آرہی ہیں ۔
جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ زندگی کی کسی بھی رات پرسکون ہو کر نہیں سویا تھا ۔
بچپن میں ہی اسے اپنے ملک اور اپنےاپنوں سے دور کینیڈا آنا پڑا ۔
شاید وہ آٹھ سال کا تھا جب یہاں آیا اور تب سے بس یہی تھا بالکل تنہا ۔
اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔اس نے زندگی میں ایسی کوئی رات نہیں کاٹی تھی جب اس نے یہ آواز نہ سنی ہو اسے عجیب سی نفرت تھی اس خوبصورت  آواز سے ۔جس نے اس کی زندگی کےہر پل کا سکون چین کر رکھا تھا ۔
وہ اٹھ کر واشروم میں آیا ۔ اس نے منہ دھونے کے لئے نل کھولا ہی تھا کہ آوازیں ایک بار پھر سے آنے لگی۔ 
 اس نے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور اپنا جیکٹ اٹھا کر باہر نکل آیا ۔
ہر روز کی طرح آج بھی اس کا ارادہ  کلب جانے کا تھا ۔ شاید شور شرابے میں کہیں یہ آواز دب جائیں وہ اکثر راتیں  اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے کلب جایا کرتا تھا ۔
لیکن پھر بھی آوازیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔
ہاں لیکن کم ضرور ہو جاتی تھی ۔
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔لوگوں کے شورشرابے میں اسے وہ آواز بہت دور سے سنائی دیتی تھی ۔اس وقت وہ پرسکون تھا ۔
بچپن میں یہ آواز کسی بچی کی ہوا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ کسی کمسن لڑکی سے وہ آواز آج ایک نسوانی آواز بن گئی تھی ۔
وہ کون تھی۔۔۔۔۔۔؟
 اس کا نام کیسے جانتی تھی۔۔۔۔۔۔؟
 اسے کیوں پکارتی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟
 اس کے ساتھ اس کا کیا رشتہ تھا۔۔۔۔۔۔۔؟
 وہ اس سے باہر آنے کی اجازت کیوں مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔؟
وہ کہاں تھی۔۔۔۔۔۔؟
 کیا وہ کہیں قید تھی۔۔۔۔۔؟
 شہریار کچھ نہیں جانتا تھا ۔اسے پتہ تھا تو بس اتنا کہ اس کی ماں نے اس بارے میں اس سے کوئی بھی سوال پوچھنے سے منع کیا ہے اسے اپنی قسم دی ہے کہ وہ کبھی بھی اس بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھے گا اور نہ ہی کبھی کسی کو کچھ بتائے گا ۔
شہریارنے اس بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا وہ کوئی ڈرپوک انسان نہ تھا ۔اور نہ ہی اسے آوازوں سے  خوف آتا تھا مگر تجسس ضرور تھا اس کے بارے میں جاننے کا لیکن اس کی ماں نے اسے یہ بتایا تھا ۔
یہ آواز محبت کیے جانے کے قابل نہیں ہے اگر تم نے اس آواز کی طرف دھیان دیا تو تم ہم سے دور چلے جاؤ گے بہت دور اور وہ دور ہی تو تھا ۔
کتنا دور تھا اپنے ماں باپ سے اپنے ملک سے نجانے کونسے خوف کے تحت اس کے والدین نے اسے خود سے اتنا دور رکھا تھا ۔
چار بجے کے بعد وہ آوازیں اسے پکار پکار کر دم توڑ دیتی اور آج بھی یہی ہوا تھا دو گھنٹے کلب میں رہنے کے بعد وہ واپس اپنے گھر آیا تھا اسے آرام کی ضرورت تھی صبح 11 بجے کے قریب اس کی ایک میٹنگ تھی ۔
•••••••••••••
وہ اپنا سارا کام وقت پر ختم کر دیتا تھا لیکن آج اسے بہت وقت لگ گیا ۔
مہمانوں کی وجہ سے سارا کام ختم کرتے کرتے رات 12 بجے سے وقت اوپر جا چکا تھا ۔
سارے برتن صاف کرکے اس نے کچن کا دروازہ بند کیا ۔
اور سرونٹ کوارٹر کی طرف جانے لگا ۔
جب اسے دبی دبی سسکیوں کی آواز سنائی دی ۔
اس نے ہر طرف دھیان دیا لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے ۔
لیکن غور سے سننے پر اس نے محسوس کیا کہ آواز اوپر کی طرف سے آرہی ہے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اوپر کی طرف جانے لگا ۔یہاں تو کوئی لڑکی نہیں رہتی تھی تو یہ روکون رہا ہے 
اوپر کی طرف جاتے ہوئے آواز تیز ہونے لگی ۔
آواز کسی لڑکی کی لگ رہی تھی ۔جو بہت بری طرح سے رو رہی تھی 
جیسے کہ بہت خوف زدہ ہو اس نے اپنی رفتار تیز کر لی 
تیز تیز چلتے اچانک وہ ایک کمرے کے سامنے آکر کا جوتالوں اور بیڑیوں سے جھکڑا گیا تھا ۔
وہ ڈیڑھ مہینے سے اس گھر میں ملازم کے طور پر کام کر رہا تھا اس کمرے کو اس نے کہیں بار دیکھا تھا ۔
ایک بار اس نے پرانے ملازم سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ اپنے کام سے مطلب رکھو ہر چیز میں ٹانگ نہ اڑاؤ ۔
اس دروازے کو دیکھ کر ہی  آسیب زدہ لگنے لگا وہ فورا ہی پلٹ آیا ۔اس کے اندر عجیب سا خوف پیدا ہوچکا تھا ۔
اسے یقین تھا کہ اس کمرے میں کچھ تو گڑبڑہے ۔
وہ جب تک حویلی سے باہر نہ نکل گیا اسی پیچھے سے رونے کی آواز سنائی دیتی رہی ۔
وہ جلدی سے کمرے میں آیا تو طاہر گہری نیند سو چکا تھا ۔
وہ اس کے ساتھ ہی اپنا بستر بچھا کر لیٹ گیا ۔
جبکہ سارا دھیان صرف اور صرف اس آواز پر تھا 
••••••••••••
سنو طاہر یار رات کو ایک بہت عجیب واقعہ ہوا ۔
وہ دراصل میں اس تالوں والے  کمرے کے باہر سے نکل رہا تھا کہ وہاں سے مجھے کسی لڑکی کے رونے کی آواز آئی ۔
یار میں تو اتنا خوفزدہ ہوگیا تھا کہ انتہا نہیں ۔
ابھی بھی سوچتا ہوں تو ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ۔عاقب نے طاہر کو بتایا 
اچھا تو تیرا مطلب ہے اس کمرے میں چڑیل ہے طاہر کا انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا ۔
جبکہ اس کا انداز دیکھ کر عاقب کو غصہ آگیا وہ اسے اتنی خاص بات بتا رہا تھا اور یہ تھا اس کا مذاق اڑانے میں مصروف تھا ۔
ہاں مجھے یہی لگا کہ اس کمرے میں کوئی چڑیل ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا نا تو بڑے صاحب اس کمرے کو اتنے تالے کیوں لگا کے رکھتے ۔
ارے اس طرح تو کسی جیل کے قیدی کو بیڑیاں نہیں ڈالتے جس طرح اس کھڑے دروازے کو ڈالیں رکھی ہے ۔
جیسے دروازہ کہیں بھاگنے والا ہے میں بول رہا ہوں اس کمرے میں کچھ تو ہے ۔
طاہر اور عاقب کو یہاں نوکری کرتے ہوئے ابھی مشکل سے ایک ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا ۔
عاقب نے ایک دو بار پہلے بھی یہاں کچھ محسوس کیا تھا لیکن نظر انداز کر  گیا لیکن کل رات اس نے واضح اس کمرے سے رونے کی آواز سنی تھی ۔
اور اب جب وہ اپنے دوست کو یہ بات بتانے لگا تو اس نے اس کا مذاق بنا دیا ۔
مرد بن مرد کیا ڈرپوک لڑکیوں کی طرح باتیں کر رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔
اور نہ ہی ایسا کچھ ہوگا چل جلدی سے کھانا بنا ابھی بڑی بی بی آتی ہوں گی ۔طاہر نے اسے کام کی طرف لگایا ۔
جبکہ عاقب کا  سارا دھیان اس وقت بھی صرف اور صرف اس کمرے کی طرف تھا 
•••••••••••••
السلام علیکم بابا جان کیسے ہیں آپ ۔آج تین دن کے بعد اس نے بابا جان کو فون کیا تھا ۔
آپ کے بابا بلکل ٹھیک ہیں میرے شیر تم سناو کیا چل رہا ہے آج کل بزنس کے علاوہ ۔اکبر تمہاری بہت تعریفیں کرتا ہے ۔
کہہ رہا تھا کہ تمہیں کچھ بھی سکھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔اتنے کم وقت میں تم نے بزنس کو اتنے اچھے طریقے سے سنبھالا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ تمہارے حوالے کرکے اپنے آرام کروں ۔
بابا جان نے خوش ہوتے ہوئے اس کی تعریف کی تو وہ بے اختیار مسکرا یا 
ہاں بالکل کیوں نہیں لیکن اس سے پہلے اگر آپ ایک بار مجھے پاکستان ۔۔۔۔۔
نہیں شہریار تم پاکستان نہیں آؤ گے ۔میرا مطلب ہے اب تو تم پر بزنس کی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں بیٹا اب تمہیں وہاں رہ کر سب کچھ سنبھالا ہوگا ۔
اب تو تم بہت بیزی رہنے لگے ہو اور میں نہیں چاہتا کہ تم بزنس میں لاپروائی سے کام لو ۔بابا جان نے ٹوٹی پھوٹی وجہ بنائی۔
پچھلے بائیس سالوں سے وہ ان کی وجہ ہی تو سنتا آ رہا تھا کبھی پرھائی تو کبھی پاکستان کا موسم ۔کبھی گرمی کا نام تو کبھی سردی  ۔ہر بار ہی اس کے والدین اسے کسی طرح سے ٹال دیتے تھے ۔
اب تو وہ اتنا عادی ہو چکا تھا ان لوگوں کے بہانوں کاکہ وہ کم ہی اس بارے میں بات کرتا ۔
ٹھیک ہے بابا میں نہیں آرہا اس کے موڈ آف ہونے کے بارے میں بابا جان چکے تھے لیکن وہ کیا کرتے وہ مجبور تھے ۔
وہ اپنی اکلوتی اولاد کو خود سے دور جاتا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔
وہ دنیا میں سب کچھ کھونے کو تیار تھے سوائے اپنی اولاد کے ۔
شہریار کے لیے ہی تو انہوں نے یہ سب کچھ کیا تھا بے اختیار ان کی نظر بند دروازے پر پڑی ۔
بیڑیوں سے جھکڑا تالوں سے بھرا ہوا دروازہ ۔

   1
0 Comments