Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر2

ارے یہ تو بہت اچھی خبر ہے ۔پاکستان بہت خوبصورت ہے تم ایک بار وہاں جاؤ گے تو تمہارا واپس آنے کا دل ہی نہیں کرے گا ۔ زیان نے اسے ابھی آکر بتایا تھا کہ وہ پاکستان جا رہا ہے ۔زیان کی بہت امپورٹینٹ میٹنگ تھی جو پاکستان میں فکس کی گئی تھی ۔ جس کی وجہ سے کل صبح ان کو یہاں سے پاکستان کے لیے نکلنا تھا لیکن وہ پہلی بار پاکستان جا رہا تھا اسی لیے کافی کنفیوزن ہو رہا تھا ۔ اسے بس اپنا کام ختم کر کے واپس آ جانا تھا لیکن وہاں اسے تین دن کا اسٹے کرنا تھا وہ تین دن میں کیا کرے گا یہی سوچ کے کنفیوز ہو رہا تھا ۔ یار میں وہاں کیسی کو جانتا ہی نہیں ۔اوپر سے پہلی بار جا رہا ہوں مینیجر کو کہا تھا کہ ایک ہی دن میں ہماری واپسی ہوگی کہ اس نے تین دن کااسٹے رکھ لیا ۔ اب 3 دن میں ہوٹل کی خاک چھانوں گاکیا زیان نے اسے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی ارے پاگل بتا تو رہا ہوں کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے تو گھومنے جانا پاکستان میں ہر شہر میں کوئی نہ کوئی تاریخی مقامات موجود ہیں تو وہاں بور نہیں ہوگا ۔ اور وہاں پر مجھے گھمانے کے لیے کوئی تو ساتھ ہونا چاہیے میں کیسے جاؤں گا یار کہیں۔ میں تو کسی کو جانتا تک نہیں ہوں ۔میں نے مینیجر کو بولا کہ کچھ اوپر نیچے کر کے ایک ہی دن کا اسٹے کر لے تو وہ کہتا ہے کہ سر اب کچھ نہیں ہوسکتا اور اوپر سے الو کا پٹھا خود بھی کچھ نہیں جانتا انڈیا سے ہے ۔ زیان نے ایک اور مسئلہ اسے بتایا ۔ اس سے بات کر رہا تھا تو وہ کہتا ہے سر پاکستان میں کچھ دیکھنے کے لائق نہیں ۔ چھوڑ نہ یار ہمارے پاکستان کی خوبصورتی سے جلتا ہے سالہ ایسا کر اپنے ساتھ راتیش کی جگہ کسی اور کو لے جا جو پاکستان کے بارے میں کچھ جانتا ہوں ۔ یار تو بھی حد کرتا ہے یہاں کون جانتا ہوگا پاکستان کے بارے میں یہاں تو پاکستان کا ایک ہی عاشق ہے اور وہ ہے تو جو خود22 سال سے پاکستان نہیں گیا ۔زیان نے اپنا مسئلہ بتاتے ہوئے اسے بھی یاد دلایا کہ وہ بھی اب پاکستانی ہرگز نہیں ہے تجھے کس نے کہا کہ میں پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا مجھے سب پتہ ہے ۔دن رات انٹرنیٹ پر پاکستان کا چپا چپا دیکھتا ہوں میں ۔وہاں رہنے والے بھی پاکستان کے بارے میں اتنا نہیں جانتے ہوں گے جتنے میں یہاں رہ کے جانتا ہوں ہم بے شک اپنے ملک سے دور چلے جائیں لیکن اسے بھلا تو نہیں سکتے ۔ میں دن رات اپنے ملک کی کامیابیاں دیکھ کر فخر محسوس کرتا ہوں ۔ہم پاکستانی چاہیے دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ آجائیں مگر اس دل سے پاکستان کبھی نہیں نکلتا میں اس سرزمین کا پیدا ہوا سچا پاکستانی ہوں ۔شہریار نے دل سے کہا تو پھر ٹھیک ہے تو میرے ساتھ چل تین دن بہت انجوائے کریں گے صرف ایک گھنٹے کی تو میٹنگ ہے فٹافٹ ختم ہو جائے گی پھر گھومنے چلیں گے بہت مزہ آئے گا ویسے بھی تو تُو بالکل فری ہے آجکل کچھ زیادہ کام بھی نہیں ہے زیان نے آئیڈیا دیا ۔ نہیں یار میں نہیں آسکتا اسے اچانک ہی اپنے والدین یاد آگئیں جو اسے کسی قیمت پر پاکستان نہیں آنے دے رہے تھے ۔ تو اپنے موم ڈیڈ کی وجہ سے کہہ رہا ہے ڈونٹ وری یاران لوگوں کو کچھ بھی پتا نہیں چلے گا تو اپنا واٹس ایپ نمبر اون رکھنا وہ لوگ وہاں پر تجھ سے اسی نمبر پر کنٹیکٹ کرلیں گے باقی ہم لوگوں نے کونسا ان لوگوں کو پتہ چلنے دینا ہے تین دن کے بات ہے خوب انجوائے کر کے واپس آجائیں گے زیان اس کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا ۔ سوائے اس کے کہ پاکستان نہ بلانے کی کیا وجہ ہے ۔ وہ اپنے ماں باپ سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا لیکن پاکستان جانا اس کی خواہش تھی وہ اپنےملک کی سرزمین پر قدم رکھنا چاہتا تھا اس کی مٹی کو محسوس کرنا چاہتا تھا وہ تو کالج اور یونیورسٹی میں دوسرے ملکوں کے لڑکوں سے لڑتا تھا یہ کہہ کر کے اسکا پاکستان بیسٹ ہے وہ اپنے اس بیسٹ پاکستان میں جانا چاہتا تھا ۔ یار مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا شہریارنے اپنا دل مارتے ہوئے کہا ۔ صبح دس بجے کا وقت ہے صبح دس بجے سے پہلے میں تیرے گھر آؤں گا اگر تیرا دل راضی ہو تو میں تیری ٹکٹ بک کروا دوں گا ورنہ تیری مرضی زیان اس کی رگ رگ سے واقف تھا ۔ اسی لیے اسے ایک آفر دیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ 💕 حویلی بالکل سنسان پڑی تھی۔دن کے اجالے میں بھی یہاں بالکل خاموشی ہوا کرتی تھی یہاں پر شورشرابہ صرف اس وقت ہوتا تھا جب شہریار کا فون آتا تھا ۔ وہ جو سارا دن خاموشی سے ادھر سے ادھر ٹہلتے رہتے تھے اپنے بچے کے فون آنے پر خوشی سے چہکے تھے ۔ آسیہ بیگم کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی ان کے چہرے پر ہمیشہ ہی اپنے بیٹے کے دور ہونے کا افسوس نظر آتا تھا ۔ جبکہ راحیل صاحب نے اپنا سب سے بڑا سہارا ہی خود سے دور کر رکھا تھا ۔ وہ تو دن رات اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے تڑپتا تھا ۔ناجانے کیا وجہ تھی جو اس کا یہاں آنا منع تھا وہ بس اتنا ہی جانتا تھا کہ شہریار کا اس حویلی میں آنا منع ہے آہستہ آہستہ فرش صاف کرتا ہوا وہ اسی کمرے کے قریب آ روکا ۔ اور بہت غور سے اس دروازے کو دیکھنے لگا اس وقت اس دروازے سے کسی قسم کے کوئی آواز نہیں آرہی تھی بالکل پر سکون سا ماحول تھا وہ بہت غور سے اس دروازہ کو دیکھ رہا تھا جب اچانک ہی گھر کا پرانا ملازم اس کے قریب روکا یہاں کیا کر رہے ہو تمہیں منع کیا تھا میں نے اس طرف آنے سے وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا ۔ میں صفائی کر رہا تھا عاقب نے فوراً جواب دیا جاؤ یہاں سے پرانا ملازم سرد لہجے میں بولا یقینا وہ کسی نہ کسی راز سے واقف تھا شاید وہ جانتا تھا کہ اس کے کمرے میں کیا ہے ۔ عاقب بنا کچھ بولے وہاں سے نکلتا چلا گیا 💕 وہ کب سے سوچ رہا تھا کہ اسے پاکستان جانا چاہیے یا نہیں 3 ماہ پہلے اس کے والدین اس سے مل کر یہاں گئے تھے ۔ ان کے ساتھ رہنے کو اس کا بہت دل کرتا تھا اپنی 26 سالہ زندگی میں بہت کم وقت اس نے اپنے والدین کے ساتھ گزارہ تھا ۔ اگر وہ پاکستان جاتا بھی تو بھی کبھی اپنے والدین سے نہیں مل پاتا ہاں لیکن وہ پاکستان جاسکتا تھا اپنے ماں باپ سے چھپ کر اور زیان نے تو اسے کنٹیکٹ کا بھی راستہ دکھا دیا تھا وہ وائی فائی سے کنیکٹ کر کے اپنا واٹس ایپ نمبر بھی اون رکھ سکتا تھا ۔ اس کا دل کبھی ہاں تو کبھی نہ کر رہا تھا فلحال ہو بہت کنفیوز تھا ۔وہ کالج اور یونیورسٹی میں کہیں بار اپنے ماں باپ سے چھپ کر گھومنے کہنے کیا تھا آٹھ بجے گھر آنے کے بعد اسے نیند آنے لگی وہ رات 2 بجے سے پہلے جاگ جاتا تھا وہ جانتا تھا کہ انہیں آوازوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا جو اسے کبھی سونے نہیں دیتی تھی ۔ اسی لیے کھانا کھا کر وہ فورا ہی سونے کو لیٹ گیا تھا کہ اس کی نیند پوری ہوسکے ۔ سونے سے پہلے اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ سے جھوٹ بول کر پاکستان ہرگز نہیں جائے گا ۔اگر وہ لوگ اسے اپنے قریب نہیں بھلا رہے تو کوئی وجہ ہی ہے ۔ •••••••••••••• شہریار میں آجاؤں ۔۔۔۔۔؟ میں باہر آجاؤں شہریار ۔۔۔۔۔؟ آپ نے کہا تھا آپ مجھے بلا لیں گے ۔آپ جانتے ہیں نا آپ کی اجازت کے بغیر میں باہر نہیں آسکتی ہر جملے کے ساتھ شہریار کی نیند میں خلل پیدا ہو رہا تھا ۔ وہ کبھی ایک طرف کروٹ بدلتا تو کبھی دوسری طرف ۔ شہریار میں نہیں آ سکتی آپ کے پاس آپ تو ہو سکتے ہیں نہ ۔ آ جائیں خدا کے لئے آ جائیں آپ کی ساریسہ ساتھ آپ کے بنا ادھوری ہے ۔ آپ کی ساریسہ آپ کو پکار رہی ہے ۔ آجائیں میں آپ کا انتظار کر رہی ہوں ۔ شہریار کی نیند اچانک ٹوٹی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔ اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا ۔ وہ جلدی سے اٹھا ھاتھ منہ دھو کر اپنا جیکٹ اٹھا کر باہر نکل آیا اس آواز کو برداشت کرنا اس کے بس سے باہر تھا لیکن کلب پہنچتے پہنچتے اس نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان ضرور جائے گا کیوں یہ وجہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا

   0
0 Comments