Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر8

تم نے ٹھیک نہیں کیا سکندر میرے ساتھ میں تمہیں اس کے لئے کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں کتنی محبت کتنی چاہت سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا اور تم نے یہ کیا میں اس تکلیف کے لئے کبھی معاف نہیں کروں گی وہ پہاڑی کی چوٹی پہ کھڑی آنسو بہاتی زاروقطار روتے ہوئے بول رہی تھی اس کے آنسو سکندر کے دل پر گر رہے تھے لیکن وہ مجبور تھا اس کا دل دکھانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ یہ بھی نہیں کر سکتا تھا پھر وہ اچانک پہاڑی سے غائب ہو گئی سکندر اس کے سائے کے پیچھے بھاگا جب اچانک اس کی آنکھ کھل گئی اس نےاپنے تیز تیز دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا اور پھر بنا کچھ بولے خاموشی سے لیٹ گیا مجھے معاف کر دو پریام لیکن میں مجبور ہوں ۔ ❤ ہرگز نہیں بابا جان میں یہ نکاح نہیں کر سکتا پلیز میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں سکندر نے ایک نظر سر پر سفید دوپٹہ سجائے اس نازک سی لڑکی کو دیکھا نہیں سکندرہم پوری برادری کے سامنے وعدہ کرکے آئے ہیں کہ ہم اپنی یتیم بانجی نکاح تم سے کروائیں گے اب ہم اپنی بات سے مکر نہیں سکتے آخر بلادری اور خاندان میں ہماری عزت کا سوال ہے ہم نے اس یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ہے نہیں بابا میں نہیں کر سکتا یہ نکاح آپ کو اس طرح کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا میں کسی اور لڑکی سے محبت کرتا ہوں یہ لڑکی میری پسند بھی نہیں ہے ۔ ہم نے جو کہا ہے وہ تمہیں کرنا ہوگا آج تک ہم نے تمہاری چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو پورا کیا ہے اب اگر تم نے ہماری بات سے انکار کیا تو ہم بھول جائیں گے کہ تم ہمارے بیٹے ہو یہ ہماری عزت کا سوال ہے سکندر تو میں آ کر ہماری عزت کا مان رکھنا ہو گا آج ہی اس لڑکی کے ساتھ دوبارہ نکاح ہے اور یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے میں آپ کے کسی فیصلے کو نہیں مانتا میں نہیں کرونگا یہ شادی میں کہہ رہا ہوں بابا خبردار جو آپ نے میرے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی کرنے کی کوشش کی اگر آپ بچپن سے میری ہر بات پہ میری ہر خواہش پوری کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجھ سے اپنی محبتوں اتنی بڑی قربانی مانگیں میں یہ نہیں کہ نہیں کروں گا سکندر صدی انداز میں بولا اور اگر تم یہ نکاح نہیں کرو گے تو ہم سے تمہاری ماں سے تمہارا ہر رشتہ ختم ہم بھول جائیں گے کہ تم ہماری اولاد ہو بابا غصے سے بولے نہیں بابا آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے آپ لوگ جانتے ہیں میں آپ سے بے انتہا محبت کرتا ہوں سکندر بے بسی سے بولا تو یہی سمجھ لو کہ یہ تمہاری محبتوں کا امتحان ہے مولوی کا انتظام کرو وہ ملازم کو حکم دیتے زینے چڑھ گئے جب کسی بندے نے بے بسی سے بھرپور نظر سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھا یہ نکاح میری مجبوری ہے لیکن اسے نبھانا میری مجبوری نہیں ہے یہ بات یاد رکھنا وہ غصے سے اس لڑکی سے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا اور پھر اسی تاریخ میں سکندر کا نکاح اس لڑکی کے ساتھ ہوگیا۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ معصوم سی لڑکی اس کی نفرت کا شکار ہوئی سکندر کا نکاح کو نبھانے کا کوئی ارادہ نہ تھا وہ رات اندھیرا ہونے سے پہلے ہی یہاں سے ہمیشہ کے لئے کہیں جانے والا تھا ❤ شہریار ساری رات نہ سویا تھا ساری رات عجیب سسکیوں کی آواز آتی رہی اور پھر وہی سارے جملے جو وہ پچھلے 22 سال سے سنتا آیا تھا لیکن آج بے چینی روز کی بانسبت تھوڑی زیادہ تھی آج ان سسکیوں میں عجیب سی تڑپ تھی شہر یار کو بھی بے چین کر رہی تھی نہ جانے کیوں ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی اسے پکار رہا ہے وہ دو بار کمرے سے باہر نکلا اور اس دروازے کی طرف گیا شاید بچپن میں یہ اسی کا کمرہ تھا ۔ اس کمرے میں تالے کیوں لگے تھے وہ سمجھ نہ پایا وہ صبح اٹھ کر اپنی ماں سے اس بارے میں پوچھنا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ زیادہ دیر وہاں نہ روکا ہو اس وقت مہر کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا ساری رات ایک پل کو بھی اسکی آنکھ نہ لگی لیکن اس سب سے زیادہ خوشی سے صبح مہر کے گھر جانے کی تھی جہاں زیان ان لوگوں کو شہریار کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرچکا تھا وہ لوگ بزنس کے تھروانہیں کچھ حد تک جانتے بھی تھے ۔ اور یہی بات شہریار کو اور زیادہ پر امید کر گئی تھی ❤ علی وہ کہاں چلا گیا ہے بتاؤ مجھے اس طرح سے ایک رات کی دلہن کو چھوڑ کر کوئی اس طرح سے گھر سے غائب ہوتا ہے کیا بابا غصے سے علی سے پوچھ رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سکندر لاعلی کے علاوہ اور کوئی دوست نہیں ہے اور علی اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے مجھے نہیں پتا انکل اس نے اس بارے میں مجھ سے کچھ بھی نہیں کہا اور نہ ہی اس نے مجھے کچھ بتایا ہے میں تو خود سوچ رہا ہوں کہ اچانک وہ کہاں چلا گیا ابھی کل ہی تو اس کا نکاح ہوا ہے علی اس کے نکاح کو سوچ کر کتنا خوش تھا کہ اب شاید وہ اس پری کو بھول جائے گا اس کے غائب ہونےنے اسے اتنا ہی بے چین کر دیا تھا علی تمہیں اندازہ تو ہو گا کہ وہ کہاں جا سکتا ہے آج ولیمہ ہے اس کا پوری برادری میں ہماری ناک کٹ جائے گی پلیز کچھ کرو اس سے واپس لے کے آؤ آخر وہ کہاں جاسکتا ہے بابا نے بے چینی سے پوچھا انکل مجھے لگتا ہے کہ وہ واپس میرے آبائی علاقے میں چلا گیا ہے انکل وہاں ایک بہت پرسرار پہاڑی ہے جہاں کے واقعہ مشہور ہے کہ وہاں پر یاں رہتی ہیں۔ بہت سارے لوگ تو وہ راستہ بھی چھوڑ چکے ہیں لیکن سکندر وہاں گھومنے گیا تھا اس نے کہا تھا کہ اسے وہاں کوئی لڑکی ملی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے اسی سب چیزوں سے ڈر کر میں اسے یہاں واپس لے آیا تھا ۔ علی سمجھ چکا تھا کہ سکندر اگر شادی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گیا ہے تو یہ واپس وہیں گیا ہوگا اور وہ اسے مزید مصیبت میں نہیں ڈال سکتا تھا اب چھپانے کا کوئی فائدہ نہ تھا علی نے سب کچھ بتا دیا اب کیا ہوگا کیا وہ پری اس کا پیچھا چھوڑ دیں گی بابا نے پریشانی سے پوچھا انکل میں بس اتنا جانتا ہوں کہ اگر ایک پری زاد کسی انسان سے عشق کر بیٹھے تو نسلوں تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی علی نے بناکچھ بھی چھپائے سچائی بیان کی ❤ دیکھو پریام میں سب کچھ چھوڑ آیا ہوں صرف تمہارے لیے میں تمہیں بے تحاشہ چاہتا ہوں میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں پریام کیا تم مجھ سے نکاح کرو گی ةپہاڑی کے ایک درخت کی طرف بیٹھا تھا جبکہ اس کی دوسری طرف وہ شرابہ حسن بیٹھی اس کی باتیں سن رہی تھی میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی سکندر تمہارے اس وعدے پر کہ تم واپس آؤ گے دیکھو میرا یقین کتنا سچا تھا تم واپس آگئے ہو میرے لیے میں تم سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں میں نے اپنے سارے گھر والوں کو تمہارے بارے میں بتا دیا ہے پریام نے مسکراتے ہوئے کہا تم سے نکاح کرکے میں تمہیں اپنے گھر لے جاؤں گا اور اس لڑکی کو بھی چھوڑ دوں گا اس کے ساتھ بابا نے زبردستی میرا نکاح کروایا ہے سکندر نے اس کی حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا نہیں سکندر تمہیں اسے چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنا دل بڑا کر لونگی تم بے شک اسے اپنے نکاح میں رکھو بس میرے حصے کی محبت مجھے دیتے رہنا میں تمہارے لئے کسی بھی حالات میں گزارا کر لوں گی وہ اس کے سینے پر سر رکھ تے ہوئے بولی جبکہ وہ گھر سے ہی فیصلہ کر کے آیا تھا پریام سے نکاح کے فورا بعد ہی وہ اسے طلاق دے دے گا لیکن پھر بھی پریام اس کی محبت میں کتنی بڑی قربانی دینے کو تیار تھی یہاں تک کہ سوتن کے ساتھ ساری زندگی رہنے کو تیار تھی ❤ رحمان صاحب نے بہت اچھے سے ان کا ویلکم کیا تھا شہریار کو امید نہ تھی تو وہ اتنے اچھے سے ان سے بات کریں گے جبکہ دوسرارشتہ تو نہیں کے خاندان کا تھا ہم آئے دن اخباروں میں آپ کا ذکر پرھتے رہتے ہیں راحیل صاحب اتنا کامیاب بزنس اور اس کے بعد اتنے اچھے اخلاق کے مالک ہیں آپ یقین کریں آپ سے مل کر مجھے بے تحاشا خوشی ہوئی ہے رحمان صاحب ان کے سامنے بیٹھے بول رہے تھے۔ ہمیں بھی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے ویسے زیان نے آپ کو ہمارے یہاں آنے کی وجہ بتاہی دی ہوگی لیکن پھر بھی ہم آپ کی بیٹی کو اپنے گھر کی بیٹی بنانے کی عرضی لیے آپ گھر میں آئے ہیں ۔ یہ میرا بیٹا ہے شہریار کینیڈا میں اس نے ہمارے بزنس کو چار چاند لگا دیے ہیں ابھی اسی ہفتے یہ واپس جانے والا ہے لیکن اس کے جانے سے پہلے ہم اس حسین بندھن میں باندھنا چاہتے ہیں ۔ اور آپ کے گھر کا راستہ بھی ہمیں اسی نہیں دکھایا ہے ۔ اگر آپ کو مناسب لگے تو ہم مہراور شہریار کی شادی کی بات آگے بڑھانا چاہیں گے راحیل صاحب نے ایک نظر شہریار کو دیکھا اور میں بات کی راحیل صاحب اتنی جلد بازی میں اتنا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتا میں آپ نے کہا کہ شہریار کینیڈا واپس جانے والا ہے واپس آنے دیں ہم ان شاءاللہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے رحمان صاحب نے جلد بازی نہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا نہیں رحمان صاحب وہ دراصل شہریار اس بار کینیڈا جائے گا تو سات سال تک واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے آپ سمجھتے ہیں بزنس کے داو پیچ جب تک اسے پورا وقت نہ دیا جائے تب تک بزنس سنھبل نہیں سکتا اسی لئے شہریار کی جلد واپسی ممکن نہیں ہے اوریہ مہر کو بہت پسند کرنے لگا ہے آپ ایک بار پھر سوچ لے راحیل صاحب نے شہریار کا مایوس چہرہ دیکھتے ہوئے پھر سے کہا ہم اپنی بیٹی مہر سے بات کرکے آپ کو جواب دیں گے رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا بالکل ٹھیک ہے انکل آپ مہر سے بات کرلیں لیکن میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کو اس کے باپ جتنی محبت کرنے والا شوہر ملے میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ایک باپ اپنی بیٹی سے کتنی محبت کرتا ہے انکل میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں مہر کو اتنی محبت دوں گا کے اسے آپ کی محبت کی کمی محسوس نہیں ہوگی مہر بہت خوبصورت لڑکی ہے اسے بہت چاہنے والے مل جائیں گے لیکن مجھ سے زیادہ محبت کرنے والا اسے کہیں نہیں ملے گا فیصلہ کرتے ہوئے ایک بار ضرور سوچیئے کے آپ کا انکار میری پسند ہی نہیں بلکہ میری محبت کو بے مول کر دے گا شہریار ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ‏چلے ماما بابا ہم آپ کے جواب کا انتظار کریں گے انکل شہریارنے ایک آخری نظرہ رحمان صاحب کو دیکھا اور پھر گھر سے باہر نکل گئے

   0
0 Comments