Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر10

سکندر کے ڈر مارے وہاں سے نکل تو آیا لیکن جیسے جیسے وہ پہاڑی اتر رہا تھا ویسے ویسے ہی اس کا دھیان ان بزرگ کی باتوں پر گیا جو کہہ رہے تھے کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو وہ ہمیشہ کے لئے پریام کو قید کر دیں گے اس سے جینے کا حق ہی لے لیا جائے گا اسے انسان سے عشق کرنے کی سزا دی جائے گی سکندر بھی تو محبت کرتا تھا وہ اسے عام انسان سمجھتا تھا لیکن پھر بھی پریام نے تو اسے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ ایک عام انسان ہے اگر پریام نے اس سے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا تو سکندر نے بھی تو کبھی اس سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا کہ وہ اس ویران پہاڑی پر اکیلی کیا کر رہی ہے ۔ کیسے وہ اس کی ایک پکار پر دوڑتی چلی آتی ہے ۔ وہ پہار سے اتر کر سڑک پر پہنچ چکا تھا نہیں پریام کو خود سے محبت کرنے کی سزا نہیں دے سکتا مجھے اس سے جینے کا حق چھینے کا کوئی حق نہیں ہے وہ کون سا مجھ سے کوئی حق مانگ رہی ہے صرف نکاح کے لئے ہی تو کہہ رہی ہے اس نکاح سے جینے کا حق ملے گا مجھے پریام سے نکاح کر لینا چاہئے وہ مجھ سے کچھ نہیں مانگ رہی سوائے نکاح کے ہاں مجھے اس سے نکاح کر لینا چاہیے سکندر نے سوچتے ہوئے اپنے قدموں ہی روک لیے اور تیزی سے سڑک پار کرتے واپس پہاڑی کی طرف جانا چاہا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس سے پہلے کہ وہ سرحد پار کرتا ایک تیز رفتار گاڑی اس سے آکر ٹکرائی اور کے چند ہی منٹ میں وہ اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا ❤ شہریار اور اس کی فیملی نکاح کے لیے رحمان صاحب کے گھر آ چکے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں نکاح ہونے والا تھا شہریار نے جو یہاں آکر سب سے زیادہ نوٹ کیا تھا وہ تھا زیان جو اس کے ساتھ نہیں بلکہ منال کی مدد کرنے کے چکر میں لگا تھا زیان صاحب اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میری مدد کریں گے تو میں اپنا نیگ نہیں لوں گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے منال نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ارے منال میڈم آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپ کے نیگ مطلب کہ آپ کے حق پر کچھ گڑبڑ کرنے کی کوشش کروں گا ارے میں تو خود لڑوں گا آپ کے لیے آپ کو جینا نیگ چاہے بس منہ سے آواز نکالیں ان شاء اللہ آپ کو ضرور ملے گا زیان نے سے پچکارتے کراتے ہوئے کہا بہت شکریہ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مجھے یہاں جنگ لڑنے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ شہریار بھائی ماشاءاللہ سے اتنے بڑے بزنس مین ہیں اب نیگ دینے میں تو کچھ گڑبڑ کر بھی نہیں سکتے آخر ان کی عزت کا سوال ہے وہ شہریار کے سامنے جوس کا گلاس رکھتے ہوئے مسکرا کر جتلانے والے انداز میں بولی جبکہ شہریار اس کے بات پر مسکرا دیا تھا وہ تو صرف مہر کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا اس وقت سے سوائے مہر کے دیدار کے اور کچھ بھی نہیں چاہیے تھا اور یہاں پے یہ ظالم سماج جو صاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ جب تک نکاح نہیں ہو جاتا تب تک مہر باہر نہیں آئے گی اسی لئے اب وہ بیچینی سے نکاح کا انتظار کر رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد اس کی یہ خواہش بھی پوری ہوگی جب سامنے والے کمرے سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی مہر سرخ دوپٹے میں باہر آئی دلہن کے حسین جوڑے میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی یہ وہ واحد لڑکی تھی جس نے پہلی ہی ملاقات میں شہریار کے دل کے تار چھیڑ دیے تھے اسے شہریار کے سامنے بٹھایا گیا اور بیچ میں ایک جالی کا کپڑا لگایا گیا اور پھر مولوی صاحب نے نکاح کی رسم شروع کی پہلے انہوں نے شہریار سے نکاح کی رضامندی جانی چاہیے وہ تو دل و جان سے نکاح کے لئے راضی تھا لیکن ناجانے کیوں نکاح نامہ سائن کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپنے لگے دل ایک بار پھر سے زور زور سے دھڑکنے لگا عجیب سا خوف اس کے چاروں طرف سے جا چکا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ویرانے میں بالکل اکیلا بیٹھا ہے اور کوئی بہت بڑا گناہ کرنے جا رہا ہے لیکن شاید محبت کی طاقت اس خوف پرحاوی ہو گئی اور شہریار نے نکاح نامے پر سائن کر دیے مہر خان آفریدی ولد رحمان خان آفریدی آپ کا نکاح شہریار شاہ ولد راحیل شاہ کے ساتھ پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے مولوی صاحب کی آواز کمرے میں گونجی رہی تھی شہریار کا سارا دھیان سرخ دوپٹے میں بیٹھی اپنی دلہن پر تھا خدا سے مانگا تھا شہزادہ مل گیا گنگوتیلی چلیں کوئی بات نہیں زندگی گزارنی ہے نا قبول ہے مہر ٹھیڑے میڑے منہ بناتی ہوئی بولی جہاں شہریار اس کا بے باک انداز دیکھ کر اسے گھورنے لگا تھا وہی زیان کا قہقہ ہے ساختہ تھا رخصتی کی رسم کل ادا ہونی تھی ورنہ وہ آج ہی خود کو گنگوتیلی کہنے کا حساب ضرور بےباک کرتا ❤ دن گزرتے جا رہے تھے اسے کوما میں گئے تین مہینے گزر چکے تھے کومہ کے دوران بھی اسے صرف اور صرف پریام کا خیال آرہا تھا اس کی وجہ سے پریاں کی زندگی چھین سکتی تھی وہ ہر ممکن طریقے سے واپس دنیا میں لوٹنے کی کوشش کر رہا تھا ڈاکٹر اس کی کنڈیشن پر پُرامید تھے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ جینا چاہتا ہے اس کے اندر جینے کی خواہشیں ابھی زندہ ہے اس کے بابا اور ماما ٹوٹ کر رہ گئے اپنے جوان بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر جب کہ وہ معصوم لڑکی ہر ممکن طریقے سے اپنے شوہر کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی اس کی ساری ذمہ داری اس نے اپنے سر اٹھا لی تھی کومہ کے تین ماہ کے دوران سکندر کو دوبار ہوش آیا اور اس نے ہر بارپریام کا نام لیا پریام کون ہے کہاں ہے کیسی ہے کوئی نہیں جانتا تھا ان سب کے لیے تو یہ نام بھی نیا تھا جس سے وہ واقفیت ہی نہیں رکھتے تھے تین مہینے گزر جانے کے بعد بھی جب سکندر کو ہوش نہیں آیا تو بابا نے اسے امریکا بھیج کر اس کا علاج کروانا چاھا جس سے علاج سے انہیں کافی فائدہ ہوا تھا ڈاکٹر نے انہیں اچھی امی دلوائی تھی ❤ نکاح کے بعد وہ بہت پر سکون تھا شام ہوتے ہی وہ گھر واپس آ گئے اس کی خوشی کا اندازہ لگانا اس کے چہرے سے ہی بہت آسان لگ رہا تھا ماما تو بار بار اس کی بلائیں لیتی جبکہ بابا بھی اسے دیکھ کر خوش تھے آخر انہوں نے اپنے بیٹے کی یہ خواہش بھی پوری کر دی تھی کل رخصتی ہے اور پرسوں تمہاری اور مہر کی کینیڈا کی فلائٹ ولیمہ کے فورا بعد تم کینیڈا کے لیے نکل جاؤ گے بابا نے اسے اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے بتایا کیا مطلب ہم واپس کراچی نہیں جائیں گے اور آپ نے ولیمے کا انتظام یہاں کیوں کر آیا ہے یہاں ہمہیں لوگ جانتے ہی کتنے ہیں ہم اپنی حویلی میں کروائیں گے کوئی بڑی محفل شہریار کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا آخر اس کے ماں باپ اسے یہاں سے بھگانا کیوں چاہتے تھے دیکھو شہری تم نے جو کہا ہم نے وہ کر دیا تم مہر شادی کرنا چاہتے تھے اور اب ہم نے تمہاری یہ خواہش پوری کر دی ہے اب تم مہر کو ہمیشہ کے لئے یہاں سے لے جاؤ میں اور تمہاری ماما جلد ہی تم سے ملنے آئیں گے اور تم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تمہاری شادی مہر سے ہوگئی تو مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھو گے اب تم اپنا وعدے سے پھر نہیں سکتے بابا نے اس کا وعدہ یاد دلایا اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی شادی مہر سے کروا دی گئی تو وہ اس بارے میں ان سے کچھ نہیں پوچھے گا وہ اسے نہیں پوچھے گا کہ وہ اسے اتنی جلدی واپس کیوں بھیجنا چاہتے ہیں ❤ اسے ہوش آیا تو اس کا پہلا ارادہ ہی واپس اس علاقے میں جانے کا تھا لیکن بابا جان اسے واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے وہ یہی چاہتے تھے کہ وہ سب کچھ بھلا کر ایک نئی زندگی کی شروعات کریں لیکن سکندر تو ایک نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتا جب تک کہ اپنی غلطی کو سدھارنا لے اسے پریام کے پاس واپس جانا تھا اسے ایک نئی زندگی دینی تھی چاہے وہ اسے اپنا نہ سکتا ہے وہ اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا لیکن اسے اپنا نام تو دے سکتا تھا اس سے آزادی تو دے سکتا تھا اسی لیے کسی کی بھی بات نہ مانتے ہوئے جیسے ہی اسے ہوش آیا اس نے پاکستان واپس آیا اور پاکستان سے سیدھا اس کا ارادہ واپس اسی علاقے میں جانے کا تھا جہاں اس کی پریاں رہتی تھیں

   0
0 Comments