Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر11

شہریار سو رہا تھا جب اسے اپنے آس پاس کوئی محسوس ہوا ۔۔ کسی احساس کے تحت اس کی آنکھ کھل گئی اس نے اپنے کمرے کے چاروں اور دیکھا لیکن کوئی نہ تھا آج پھر اسے وہی خوف محسوس ہوا جو پاکستان آنے پر پہلی رات ہوا تھا جب کسی نے اس پر حملہ کیا تھا اور سینے کے بیچوں بیچ کسی کے ہاتھ کا نشان تھا کمرے میں کسی کو بھی نہ دے کر وہ کسی کو محسوس کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کمرے میں ضرور کوئی ہے اور وہ اس کا وہم نہیں ہے وہ آہستہ سے اپنے بیڈ سے اٹھا اور لائٹ آن کی ۔ کون ہو تم ۔۔۔۔؟ دیکھو میں جانتا ہوں یہاں کوئی تو ہے ۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تو مجھے ڈرانا چاہتے ہو ۔۔۔ کون ہو تم اور کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو مجھ سے کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔۔؟ شہریار نے نیچی آواز میں کہا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کوئی بھی ڈسٹرب ہو دیکھو تمہیں جو چاہیے تو مجھے صاف صاف بتا دو اس طرح سے چھپ کر حملہ بند کرو کس نے بھیجا ہے تمھیں اور کیوں میرے پیچھے پڑے ہو اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم چھپ کر مجھ پر وار کرو گے تو میں یہ سوچوں گا کہ تم کوئی اور مخلوق ہو تو میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں تم مجھے ڈرانے میں نا کامیاب ہوچکے ہوں اس لیے بہتر ہوگا کہ سامنے آ جاؤ شہریار نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا ۔ جب اچانک ہی کمرے کے بیچ میں چھت پر لگا فانوس چھت سے ٹوٹ کر اس کے اوپر گرا وقت پر دور ہو جانے کی وجہ سے اس سے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی اس کے بازو پر کافی چوٹ لگی تھی ۔ شور کی آواز سن کر ماما اور بابا فورا اس کے کمرے کی طرف بھاگ گئے اور ان کے پیچھے عابد بھی آیا شہر یار میرا بچا تم ٹھیک تو ہو تمہیں کچھ ہوا تو نہیں یہ چوٹ کیسے لگی یہ فانوس کیسے گرا ماما سے دیکھتے ہوئے پریشانی سے بولی جبکہ راحیل صاحب کا سارا دھیان کمرے کے چاروں طرف گھوم رہا تھا ۔ آپ کمرے کو کیا دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر کو بلائیں دیکھیں اسے کتنی چوٹ لگی ہے ۔ آسیہ بیگم نے راحیل صاحب کو کمرے کو دیکھتے ہوئے جھنجلا کر کہا ۔ جب کہ عابد کو اشارہ ملتے ہی وہ ڈاکٹر کو کال کرنے چلا گیا کچھ نہیں ماما میں واشروم جا رہا تھا کہ یہ ٹوٹ کر گر گیا شاید کافی عرصہ لگا ہے اس لیے اس نے ماما کو مطمئن کرتے ہوئے کہا ۔ اور انہیں بازو کے گھیرے میں لئے کمرے سے باہر نکل آیا ۔ ❤ سکندر سب کی مخالفت کے باوجود بھی اس علاقے میں واپس جا چکا تھا لیکن اب وہاں نہ تو کوئی محل تھا اور نہ ہی کوئی خوبصورت نگری وہاں پر صرف پنجارو کا علاقہ نظر آتا تھا سکندر مایوسی سے واپس لوٹ کر آنے لگا جب اس کی نظر کو انہیں گلابی پھولوں پر پڑی جو پوری طرح سے مرجائے ہوئے تھے اس کے کانوں میں پریام کی آواز گونجی جس نے کہا تھا یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب یہ پھول کھلتے ہیں ۔ وہ عشق کی گلیوں سے واپس لوٹ آیا جہاں آنے کے بعد وہ کہیں مہینوں تک پریام کی یادوں میں ڈوب رہا وہ اپنے آپ کو پریام کا گنہگار سمجھتا تھا اور وہ گناہ گار تھا بھی اس کی وجہ سے ایک پری اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی ❤ آج مہر کی رخصتی تھی منال کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کیونکہ وہ ہر بات میں نیگ وصول کر رہی تھی جب کہ اس کے اس نیگ میں سب سے زیادہ اس کا ساتھ زیان دے رہا تھا وہ تو کہہ رہا تھا کہ سالیوں کا حق ہوتا ہے اور اس کو اس کا حق نبھانا ہے جبکہ مہرماہ تھوڑی شرمیلی تھی وہ نیگ کے معاملے میں زیادہ حصہ نہیں لے رہی تھی تو اس کے لیے وہ جو بھی منال کہتی وہی سہی تھا ۔ اور منال تو ہر بات میں دابنگ تھی اور اس کے اس دابنگ انداز زیان جانثار ہوتا جا رہا تھا ❤ رخصت دھوم دھام سے ہوئی ۔ مہر اپنے گھر والوں سے بچھڑتے ہوئے بہت روئی کیوں کہ وہ صرف اپنے سسرال نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوسرے ملک جا رہی تھی جہاں سے واپس جلدی آنا ممکن نہ تھا شاید اب اس کے اپنے گھر والوں سے ملاقات سات آٹھ سال بعد ہوتی یہ بات الگ تھی کہ کل ہی واپسی کی رسم کرنے والی تھی لیکن ماں باپ سے دور ہونے کا دکھ تو ہوتا ہی ہے اپنی شادی پہ مہر کی دور کی چاچی دیکھ کر شہریار اور زیان دونوں بے اختیار مسکرا دیئے وہ بھی انہیں پہچان چکی تھی لیکن کچھ بھی نہ بولیں بلکہ شادی میں بہت خوشی سے شرکت کی تھی سب کچھ بہت اچھے سے ہوا تھا اور اب مہر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی لیکن آنے والا وقت ان کے لیے کیا لا رہا تھا اس سے وہ دونوں انجان تھے ❤ شادی بہت اچھے سے ہو گئی تھی سب کچھ بہت اچھے سے ہوا تھا مہر ہمیشہ کے لئے اس کے گھر آ چکی تھی ان کی طرف سے زیادہ مہمان شادی میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی آسیہ بیگم نے سب کچھ بہت اچھے سے سنوارا تھا اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کے سارے ارمان نکالے تھے راحیل صاحب خوش ہونے کے باوجود بھی خوش نہیں ہو پا رہے تھے بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اپنی سوچوں کو جٹلا نہیں پا رہے تھے ۔ عابد بھی ان کی پریشانی کی وجہ اچھے سے سمجھتا تھا لیکن اب جو خبر عابد نے انہیں سنائی تھی اسے سوچ کر وہ اور پریشان ہو چکے تھے اور وہ خبر یہ تھی کہ آج سے 24 سال پہلے جن پیر صاحب نے ساریسہ کو قید کیا تھا وہ وفات پا چکے تھے اب ان کے پاس ان کی طاقت کا سہارا نہیں تھا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کل ہی شہریار کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر دیا ❤ اس نے آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے میں قدم رکھا وہ سراپا حسن بنی اس کا انتظار کر رہی تھی کتنی دیر دروازے پر کھڑا اسے دیکھتا رہا اب کیا اندر آنے کے لئے انویٹیشن کارڈ بھیجوں دولہن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شہریار کا قہقہ بلند ہوا اس رات میں لڑکیاں شرمآتی ہے گھبراتی ہیں اور تم ہو کے اس طرح دابنگ ہو کے بیٹھی ہو ایسے نہیں چلے گا مجھے تو شرمانے اور گھبرانے والی لڑکی اچھی لگتی ہے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آ بیٹھا تو تم دوسری شادی کر لو کیوں کہ مجھ سے اس طرح کی کوئی امید رکھنا سوائے بے وقوفی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ دنیا میں ایک انسان ہوتا ہے جیسے ہم اپنا کہہ سکتے ہیں جس کے ساتھ اپنا دکھ شیئر کرسکتے ہیں اور اگر اس سے ہی شرماتتے رہیں گھبراتے رہیں گے تو ہم اسے کیسے اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے ۔ جیسے اب تم مجھے یہ کہو گے میری ماں کا خیال رکھنا ان کا ہر حکم ماننا میرے بابا کے سامنے زبان میں چلانا اور میں جی حضور جی کروں گی میں تمہیں ایک بات کہوں گی کہ میری لائف کے بھی کچھ رولز ہیں جن کو تمہیں فولو کرنا ہے سنو پہلے تم میرے رول سنو پھر میں تمہارے رولز سنتی ہوں میرے ماما بابا میں لائف میں بہت امپورٹیڈ ہیں میں تمہارے ماما کو بہت پیار دوں گی ان کی عزت کروں گی ان کے ساتھ اچھے سے رہوں گی لیکن یہی رولز تم پر بھی لاگو ہوتے ہیں جس طرح سے میں تمہارے بابا کو اپنے بابا مانوں گی اسی طرح سے تمہیں بھی میرے بابا کو اپنے بابا ماننا پڑے گا لیکن تمہاری کوئی بہن نہیں ہے نہ میں بول رہی ہوں تمہیں میری بہن کو بھی بہت پیار دینا ہوگا مجھے وہ مرد اچھے نہیں لگتے جو پہلی رات عورت پر اس بات کا روعب جماتے ہیں کہ میں تمہارا شوہر ہوں تمہیں بیا کر لآیا ہوں اور اب میں جو کہوں گا تمھیں وہ کرنا ہوگا مجھے اس طرح کے مرد اچھے لگتے ہیں جو کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہم دونوں برابر ہیں جس طرح سے میرے ماں باپ کا خیال رکھنا تم پر فرض ہے تمہارے ماں باپ کا خیال رکھنا مجھ پر فرض ہے تمہارے بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنایا ہے تمہیں تو داماد بننے نہیں والا میں تو ان کا بیٹا ہی بنوں گا اور جہاں تک تمہاری بہن کا سوال ہے تو وہ میری بہن ہے اس بارے میں تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ۔شہریار نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولنا شروع کیا مجھے بھی وہ مرد ہی نہیں لگتے جو پہلی رات بیوی نیچا دکھاتے ہیں اور الٹی سیدھی باتیں بتاتے ہیں کہ یہ تم پر فرض ہے وہ تم پر فرض ہے میں جانتا ہوں تمہاری تربیت ایسی ہے کہ تم خود ہی سمجھ جاؤ گی کہ تمہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ میں تمہیں کیوں بتاؤں کہ تمہیں میرے ماں باپ کی عزت کرنی ہے ان سے پیار کرنا ہے یہ سب کچھ تو تم بچپن سے کر رہی ہو اپنے ماں باپ کو کون پیار نہیں کرتا بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سسر اور ساس بھی ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔ اور گھبرانے والی لڑکی مجھے اچھی لگتی ہیں لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ شادی کی پہلی رات لڑکی شرماتی اور گھبر آی رہے تم اپنی لائف کے رولز کبھی اپنے شوہر پر لاگو نہیں کر سکتی اسی لیے تمہارا یہ انداز مجھے قبول ہے اس نے مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا لیکن اگر تم تھوڑا شرما تو مجھے بہت خوشی ہوگی وہ اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے بولا جب مہر نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کردیا کچھ زیادہ جلدی نہیں ہے جناب کو پہلے منہ دکھائی نکالے میری اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے وہ حق سے بولی ظالم لڑکی ہو شہریار مسکرایا اور اپنی جیب سے ایک ڈبی نکالیں ۔جسے کھولتے ہوئے ایک نظر اس نے اسے دیکھا تھا جو ایکسائٹڈ انداز میں ڈبی کو دیکھ رہی تھی شہریار نے ہیرو سے جگمگاتے ہوئے دو خوبصورت کنگن نکالے اور اس کی خوبصورت کلائی میں پہنانے لگا یہ میری پردادی کے ہیں انہوں نے دادی کو دیے دادی نے ماما کو دیے اور ماما نے تمہارے لئے سنبھال کے رکھے تھے ۔ شہریار نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ چومنا چلو یہ تو ہو گیا ماں کی طرف سے گفٹ اب تم دو وہ اسے گزرتے ہوئے بولی یہ میں نے ہی دیا ہے جان من شہریار نے بتانا ضروری سمجھا یہ خاندانی ہے جناب آپ نے ابھی تک کوئی تحفہ نہیں دیا یہ تو ویسے بھی مجھے ملنے ہی تھے اس میں نیو کیا ہے اس کے انداز نے شہریارکو مسکرانے پر مجبور کر دیا میں تمہیں صبح دوں گا شہریار نے ٹالنا چاہا قریب بھی صبح ہی آئیے گا ۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولی لیکن یہ گنگوتیلی تو ابھی ہی پاس آئے گا تمہارا تحفہ مجھ پر ادھار رہا وہ مسکراتے ہوئے اس کے لبوں جھکا اور اس سے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر چکا تھا چاند خوبصورت رات کی چاندنی میں مہک رہا تھا تو کوئی دور ویرانے میں سسکیاں لے کر رو رہا تھا

   0
0 Comments