Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر15

نہ جانے وہ کہاں جا چکی تھی شہریار کو اکیلے کمرے میں دیکھ کر آسیہ کر دل چاہا کہ وہ اس کے پاس چلی جائے لیکن اندر خوف بھی تھا کچھ کر نہ دے وہ ان کے معصوم بچے کو لیکن کچھ تو کرنا تھا اس کا کوئی حل نہیں نکالا تھا ایک راستہ پیر صاحب نے بتایا تھا اگر وہ کامیاب ہو جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگیوں سے بہت دور جا سکتی تھی اور یہی خطرناک زات کو اپنے پاس رکھنا بھی نہیں چاہتے تھے سچ کہتے ہیں لوگ پریاں جتنی خوبصورت ہوتی ہیں اتنی ہی خطرناک ہوتی ہیں ان کے گھر سے ایک فرد کی جان جا چکی تھی نہ جانے اس کا اگلا شکار کون تھا کہیں وہ شہریار کو ہی کچھ نہ کر دے یہی سوچتے ہوئے اسیہ دل بار بار گھبرا رہا تھا پھر اپنے دل سے ہارتے ہوئے وہ آخر اس کمرے میں جا چلی گئی جہاں شہریار تھا ۔ اپنی ماں کو دروازے کے پاس کھڑا دیکھتے ہیں وہ فوراً دور کا انسان سے آ کر لیٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا وہ اسے خاموش کرنے لگی اب اسے کسی بھی طرح سے بہلانا تھا پیر صاحب کی بات پر عمل کرنا تھا اگر وہ حل کامیاب ہو جاتا تو وہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگیوں سے چلی جاتی اور شہر یار بھی آزاد ہو جاتا ۔ اور شہریار کو اس ان چاہے رشتے سے آزاد کرنے کے لئے اس لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی سکندر کی جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ان کے لیے بہت غلط ثابت ہورہا تھا ساریسہ بہت ضدی اور خطرناک پری تھی جو اپنی پسند کی چیز کو اس طرح سے جانے نہیں دے سکتی تھی ❤ دیکھو شہریار بیٹا ہم جو کہہ رہے ہیں تمہیں وہی کرنا ہے میرے اچھے بچے تم کرو گے نا آسیہ نے اس کا چھوٹا سا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہوئے یقین کرنا چاہا ہاں مجھے آپ کے پاس رہنا ہے اس کے پاس نہیں بہت گندی ہے وہ میری دوست نہیں ہے مجھے ایسی فرینڈ نہیں چاہیے مجھے آپ کے پاس نہیں آنے دیتی شہریار رونے لگا دیکھو میرا بچہ میں جو کہوں گی تم ہو کرو گے تو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی ہم اس گندی بچی کو ہمیشہ کے لئے یہاں سے بھیج دیں گے وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی ٹھیک ہے ماما آپ جو کہیں گے میں کروں گا وہ ان کی بات ختم ہونے سے پہلے بولا تھا
آسیہ بیگم نے ایک نظر سکندر صاحب کو دیکھا اور یقین سے اثبات میں گردن ہلائی اور پھر اسے سمجھانے لگے کی آخر کرنا کیا ہے جبکہ سکندر صاحب دروازے پر کھڑے تھے کہیں وہ واپس نہ آ جائے ❤ شہریار کو واپس اسی کمرے میں چھوڑ کراس وہ باہر آئیں تو بابا جان کہیں نہیں مل رہے تھے نہ جانے وہ کہاں چلے گئے جب سے کہ پریوں کا معاملہ شروع ہوا تھا وہ گھر سے باہر نکلتے ہی نہیں تھے امی جان بھی بہت پریشان تھیں۔ کہیں ساریسہ نے تو کچھ۔ ۔۔۔۔ اگر وہ ایک نوکرانی کو صرف خود پر ہنسنے کی سزا دے سکتی ہے تو بابا نے تو اسے ڈانٹا تھا کہیں وہ ہونے کچھ کر نہ دے امی جان نہ جانے بابا جان کہاں چلے گئے ہیں میں پوری حویلی میں ڈھونڈ چکی ہوں کہیں نہیں مل رہے۔ گھبراؤ مت بیٹا یہی کہیں گے میں بھی انہیں کوڈھونڈ رہی ہو امی جان بھی انہیں ڈھونڈنے لگی لیکن بہت تلاش کے بعد بھی وہ کہیں نہ ملے جب ہم نے ساریسہ ۔ گھر کے اندر آتی دکھائی دی کھلے بال بڑی بڑی آنکھیں لیکن آج ہاتھ میں گلابی کے پھول کی جگہ لال بولتا تھا ۔ قریب سے دیکھنے پر احساس ہوا کہ وہ لال۔ لال نہیں ہے بلکہ اس پہ خون لگا ہوا ہے کس سے دیکھتے ہیں اماں سائیں نے اپنا دل تھام لیا ۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی خون کو دیکھتے ہوئے وہ دونوں گھبرا کر پیچھے ہٹی ساریسہ نے ایک خطرناک ترین نظر ان دونوں پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی ۔ ❤ سکندر ہر طرف جا کر بابا جان کو ڈھونڈ کر واپس آیا تھا لیکن وہ اسے کہیں نہیں مل رہے تھے اخر بابا گئے تو گئے کہا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا جب پولیس سٹیشن سے فون آیا کہ جنگل کے بیچوں بیچ آپ کے والد صاحب کی لاش ملی ہے ۔ اور یہ سنوتے ہی حویلی میں سناٹا چھا گیا ۔حویلی کے بچوں کے سر سے بزرگ کا سایہ اٹھ چکا تھا انہوں نے ایک نظراس کے کمرے کی طرف دیکھا سکندر یہی یہی رات کے وقت واپس آ رہی تھی ہاتھ میں خون سے بھرا ہوا پھول لے کر کہیں اس نے تو بابا جان کو۔ ۔اپنی بات کرتے ہوئے آسیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ وہ میرے شہر یار کو بھی مار دے گی وہ اسے بھی نہیں چھوڑے گی کل بابا نے دن میں اسے ڈانٹا تھا کل اس نے عابد کی بیوی کو مار ڈالا اس نے بابا جان کو مار ڈالا اب جانے آگے وہ کیا کرے گی کچھ کرے سکندر خدا کے لئے کچھ کرے مجھ میں اور کسی کو کھونے کی ہمت نہیں ہے ۔ آسیہ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ جب کہ اپنے شوہر کی موت پر نڈھال امی مجھ سے سیڑھیاں چڑھتی اس کمرے میں آگئی اور آگے پیچھے دیکھے بنا اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے لگی بتا میرے شوہر نے تیرا کیا بگاڑا تھا کیوں ان کی جان لی کیوں قتل کیا ان کا میں تجھے نہیں چھوڑوں گی تو نے میرے شوہر کی جان لی میں تیری جان لے لوں گی امی غصے سے بول رہی تھی ساریہ خاموشی سے کھڑی ان کے تھپپر کھائے جا رہی تھی جب سکندر نے انہیں آکر روکا ۔ بس کردے امی یہ کوئی انسان نہیں ہے جو انسانوں کے جذبات رکھے گی ۔وہ ایک پری ذات ہے اس کے لئے انسان کی جان لینا کوئی مشکل نہیں ۔ وہ کیا جانے محبت کیا ہوتی ہے سکندر نے نفرت سے دیکھا ّّ ہاں میں محبت کا مطلب نہیں جانتی کیونکہ میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی میں نے صرف عشق کیا ہے شہریار سے اور میں اپنا عشق اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی ۔ اور جو میرے راستے میں آئے گا اس کا میں یہ حال کروں گی ساریسہ نے کہتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے سب کے سامنے اپنا پھول اٹھا کر امی کے پیٹ میں دے مارا تھوڑی دیر میں زمین ان کے خون سے بھر چکی تھی اور تڑپتے تڑپتے ان کی روح پرواز کر گئی ۔ تم نے میری دادی کو مار ڈالا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ۔تم بہت بری ہوں ۔‏آی ہیٹ یو آی ہیٹ یو شہریار اپنے نازک ہاتھوں سے اسے مارنے لگا ۔ جبکہ اس دوران وہ خاموشی سے سر جھکائے شاید شہریار کے غصے کا احترام کر رہی تھی ۔ اپنے ماں باپ کو کھو کر سکندر ناھال ہو چکا تھا اب ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا انھوں نے شہریار کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا اور شہریار کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کچھ یہ تھے آج سے تم اسی کمرے میں رہوگی جب تک میں تمہیں حکم نہیں دیتا اس کمرے سے نکل نہیں آ سکتی۔ شہریار نےاسے حکم دیتے ہوئے بیڈ پر بیٹھنے کے لئے کہا توساریسہ غصے سے سکندر کو دیکھا جبکہ سکندر شہریار کا ہاتھ ہمیں سے باہر لے کے جا رہا تھا ان سات دنوں کے دوران اگر ایک پری ذات کو کوئی بھی حکم اس کے شوہر کی طرف سے ملے تو وہ اسے ساری زندگی نبھاتی ہے جب تک شوہر کا حکم نہ ہو ۔ اسی لیے یہ سات دن ایک پریزاد بہت احتیاط سے گزارتی ہے کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہو جائے لیکن ساریسہ سے بہت ساری غلطیاں ہو چکی تھی وہ تین قتل کر چکی تھی جس کی سزا یہ تھی کہ اب زندگی میں کوئی گناہ نہیں کر سکتی تھی اس کے ایک اور گناہ سے اس کی ساری جادوئی طاقتی اس کا ساتھ چھوڑ سکتی تھی لیکن شہریار نے میں باہر کب آؤں گی ساریسہ نے پوچھا جب میں کہوں گا تب ہی میرے علاوہ تم کسی کی اجازت سے اس کمرے سے باہر نہیں آ سکتی ۔ لیکن آپ کو پکار تو سکتی ہو نا اسے جیسے اجازت چاہی تھی شہریار نے اپنے باپ کو دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے اس سے اور اپنی ماں اور بیوی کو کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کر رہا تھا اس نے دروازے پر کوئی بڑا سا تالا لگایا اور پھر بھیڑیاں لا کر لگانے لگا ۔ تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے لیکن اس کمرے سے سسکیوں کی آواز پچھلے 22 سال سے آرہی تھی شہریار کے کانوں میں آوازیں پچھلے 22 سال سے اسے بے چین کیے ہوئے تھی اور اب 22 سال بعدوہ پورے روپ کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی

   0
0 Comments