Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر16

ساریسہ گھر پر نہیں تھی لیکن اس کا ڈر پوری حویلی میں پھیلا ہوا تھا سب لوگ سمجھتے تھے کہ وہ مہر کے علاوہ اس وقت اور کسی کی دشمنی نہیں اور یہی چیز شہریار برداشت نہیں کر پا رہا تھا اسے سمجھ آ چکا تھا کہ وہ مہر کو نہیں چھوڑے گی کسی بھی حال میں مہر کو نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرے گی اسی لئے صبح ہوتے ہی وہ وہ مہر کو یہاں سے نکال دینا چاہتا تھا وہ مہر کو کینیڈا بیج رہا تھا لیکن وہ خود ابھی نہیں جا رہا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو اس مسئلے میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا اس کے ماں باپ اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے لیکنیہ کوئی چھوٹی سی بات نہ تھی ان سات دنوں میں شہریار نے اس سے جو کچھ بھی کہا تھا ساریسہ نے وہ سب کچھ کیا یہاں تک کہ اپنے شوہر کے حکم پر وہ قید بھی ہوگی 22 سال سے اس کے لئے تڑپ رہی تھی اب اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک پری ذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا ایک انسان کے بس سے باہر تھا کسی نے سچ ہی کہا تھا پر یاں صرف کتابوں کی حد تک ہی اچھی لگتی ہیں اگر یہ آپ کی اصل زندگی میں شامل ہو جائیں آپ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتے اور شہر یار ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا تھا وہ کوئی فیری ٹیل کہانی کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا ❤ میں کہیں نہیں جاؤں گی شہریار جب تک تم یہاں پہ ہو میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی اور ماما بابا اگر ساریسا نے کچھ کر دیا تو ۔۔۔۔۔۔؟ میں تم لوگوں کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گی میں اگر کینیڈا جاوں گی تو تم میرے ساتھ چلو گے مہر نے انکار کرتے ہوئے کہا کل تک اسے پریاں بہت اچھی لگتی تھی پریوں کی کہانیاں پڑھنا اس کا سب سے فیورٹ کام تھا لیکن اپنی زندگی میں اس پری کی خواہش کر کے پچھتا رہی تھی کتنی مختلف تھی کتابوں کی کہانی اور زندگی کی کہانی ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اگر اس دنیا میں اچھی پریاں ہیں تو کچھ ساریسہ جیسی بھی ہے جو صرف اور صرف اپنی ضد کے لئے کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں پریام کے والد نے سکندر سے بدلہ لینے کے لیے ساریسا کا نکاح شہریار سے کروا دیا اور ہر پریزاد کی طرح ساریسہ کے لئے اس کا شوہر اس کا "عشق " تھا جسے نبھانا وہ اپنا فرض سمجھتی تھی لیکن پریام کے والد نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ساریسا اپنی ضد میں اس حد تک آگے بڑھ جائے گی کہ انسانی زندگیوں کی جان لینے لگے گی شہریار کے دادا نے صرف اسے بچی سمجھ کر ڈانٹا تھا اور عابد کی بیوی صرف فطرتا مسکرائی تھی
چھوٹی سی بچی پر ہاتھ اٹھانے کے جرم میں کوئی کسی کا قتل نہیں کرتا شہریار نے اپنے اپنے کھوئے تھے وہ مانتا تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں غلطی سکندر کی ہے ۔جو انجانے میں ایک لڑکی سے محبت کر بیٹھا اس کی حقیقت جان کر اس کا ساتھ نبھانے کے بجائے اسے چھوڑ دیا لیکن وہ ایک عام انسان تھا اس نے اپنی زندگی میں کسی پری کا تصور نہیں کیا تھا شہریار نے مہر کو بہت مشکل سے منایا وہ جاننے کے لئے ہرگز تیار نہ تھی لیکن شہریار سے جانے پر مجبور کر دیا اپنی قسم دے کر اور شہریار کی قسم پر مہر جانے کے لیے مجبور ہوگئی وہ زیان کے ساتھ کینیڈا جارہی تھی یہ بات مہر کے گھر والے بھی نہیں جانتے تھے اور نہ ہی شہر یار نے انہیں بتانے کے بارے میں سوچا تھا وہ اپنے مسئلے میں انہیں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے اور مہر بھی اس کے اس فیصلے میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی ❤ شہریار نے مہر جانے کا سارا انتظام کر لیا تھا مامابابا چاہتے تھے کہ شہریار بھی چلا جائے لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ ساریسہ سے بات کرے گا اسے سمجھائے گا کہ وہ ایک عام انسان ہے اور پریذاد کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا یہ سچ ہے کہ اب ساریسہ اس کے کسی حکم کی تکمیل نہیں کرنے والی تھی کیونکہ یہ کام اسے صرف سات دنوں میں کرنا تھا ۔ اب ساریسہ خود مختار ہیں وہ جو چاہے کر سکتی ہے لیکن وہ اس سے "عشق" کا دعوی کرتی تھی تو کیا اسی " عشق " کے ہاتھوں اس کی بات مان نہیں سکتی تھی جو کرنے جا رہا تھا وہ بہت مشکل تھا لیکن ایک کوشش کرنے میں کیا حرج ہے وہ اتنے سالوں سے اس لڑکی کے ساتھ ناانصافی کر رہا تھا اتنے برسوں سے جس سے نفرت کرتا تھا جس کے لیے وہ بے چین تھا اس کی حقیقت جان کر اسے تکلیف ہوئی تھی اس نے خود کسی انسان کے بارے میں برا نہیں سوچتا تھا نجانے 22 سال ساریسہ نے ایک ہی کمرے میں تنہائی میں کس طرح سے گزارے ہوں گے اس نے غلطی کی تھی اس نے تین لوگوں کا قتل کیا تھا لیکن قتل کی سزا 22 سالہ کمرے میں قید رہ کر کو کاٹ چکی تھی اپنی جادوئی طاقتوں کے بغیر اپنے پری زاد وجود کے بغیر بنا کسی سے بات کیے صرف شہریار کو 22 سال تک وہ پکارتی رہی ۔ تو کیا شہریار اس سے بات کر کے اسے سمجھا نہیں سکتا تھا ۔ مشکل تھا لیکن شہریار یہ مشکل کام کرنا چاہتا تھا دوپہر 2 بجے کی فلائٹ سے اس نے مہر کو بیجنے کا فیصلہ کیا گیا زیان کے ساتھ تھا اور اس کا انتظام اس نے بہت مشکل سے کیا تھا کیونکہ ان کی سیٹ ایک ہفتے کے بعد کنفرم ہوئی تھی ۔ لیکن اس وقت مہر کا جانا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کی جان خطرے میں تھی اور شہر یار اپنی جان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا ❤ تقریبا دو بجے کے بعد مہراپنا سارا سامان تیار کر چکی تھی وہ اپنے کمرے میں تھی جبکہ شہریار باہر بیٹھا ہوا تھا اپنے والدین کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا امل پیر صاحب نہ جانے کون کون آ رہے تھے ۔ لیکن اس طاقت کو یہاں سے نکالنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا وہ 22 سال سے اس گھر پہ قبضہ کیے ہوئے تھی۔ یہ گھر اب اسی کا تھا کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے بائیس سال اس گھر میں گزار لیے تھے سارا سامان پیک کر کے باہر جانے لگی جب اچانک دروازے بند ہوگئے مہر نے فورا دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن اسے ایسا محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی ہے ہر طرف نظر گھمانے کے بعد بھی اسے کوئی نظر نہ آیا وہ زور زور سے دروازہ پیٹتے لگی دروازے کی آواز سن کر سب دروازے کی طرف بھاگے لیکن دروازہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا جب ہوا میں مہر کو ایک زور دار تھپڑ مارا اور مہر دورجاگری اس نے جلدی سے اٹھ کر دوبارہ دروازے کی طرف لپکنے کی کوشش کی جب کسی نے اسے پاوں سے پکڑ کر زمین پر پٹکا ۔ مہر کی زوردار چیخ بلند ہوئی جب شہر یار اور دوز سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا مہر دروازہ کھولو یہ دروازہ کیسے بند ہو گیا باہر سے شہریار کی آواز آرہی تھی لیکن مہر کچھ بھی نہیں بول پا رہی تھی اس کی زبان تالو جا چپکی تھی ۔ خوف سے پورے جسم پرپسینہ آ چکا تھا اسے لگا جیسے اس کے جسم سے جان نکلنے جارہی ہے اس کی زندگی کے آخری لمحات شروع ہو چکے ہیں کسی چیز نے مہر کو سیدھا کیا وہ اسے دیکھ نہیں پا رہی تھی لیکن اس کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ مہرکو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی تو مجھ سے میرے شہر یار کو چھینے گی میں تجھے جان سے مار دوں گی وہ صرف میرا ہے اس پے صرف میرا حق ہے میں اس کے سامنے تیری جان لے لوں گی پورے کمرے میں آواز گونج رہی تھی کبھی وہ اسے ایک دیوار سے نکلتی نظر آتی تو کبھی دوسری دیوار میں جاتی نظر آتی ۔ مہر بری طرح سے گھبرائے چکی تھی اس کا دل بہت زوروں سے دھڑک رہا تھا جب پورا دروازہ کھل گیا اور مہر کی گردن پر ساریسہ کا ہاتھ تھا وہی رگ جاؤ اندر مت آنا دیکھو میں تم سے کتناا "عسق" کرتی ہوں ہمارے بیچ آنے والے ہر شخص کو میں جان سے مار دوں گی یہ ہم دونوں کے بیچ آ رہی ہے شہریار میں اسے مار دوں گی اسے مر جانا چاہیے تم پر صرف ساریسہ کا حق ہے تم ساریسہ کا "عشق" ہو اور ساریسہ اپنا آپ ختم کر لے گی لیکن اپنا "عشق "کسی کو نہیں دے گی ساریسہ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں خدا کے لیے مہر کو چھوڑ دو اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے تمہارا گناہ گار میں ہوں میں نے اس سے شادی کی ہے وہ تو انجان تھی ان سب سے میں نے تمہاری باتیں سن کر بھی اگنور کر دی گناہ گار میں ہوں وہ نہیں پلیز اسے چھوڑ دو اس معصوم نے تمہارا کچھ نہیں بگڑا ۔ شہریار نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کے ہوئے کہا معصوم ہی سہی لیکن ہمارے بیچ تو آئی ہے اور جو ہمارے بیچ آئے گا وہ مرے گا ۔ نہیں ایسا نہیں پلیز خدا کے لئے اسے چھوڑ دو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تو تم جو کہو گی میں کروں گا پلیز مہر کو چھوڑ دو مہر کی گردن پر دباؤ سے مہر کی دبی دبی چیخیں شہریار کو اس کی مزید منتیں کرنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ لیکن ساریسہ پرتو جیسے جنون سوار تھا وہ مہر کی جان لینا چاہتی تھی ساریسہ تمہیں میری قسم پلیز اسے چھوڑ دو میں اسے یہاں سے بہت دور بھیج دوں گا خدا کے لئے تم مجھ "عشق " کرتی ہو تو تم میرے لیے اتنا نہیں کر سکتی تمہیں میری قسم پلیز اسے چھوڑ دو شہر یار نے منتیں کرتے ہوئے کہا تو ساریسہ کے ہاتھ اس کی گردن پر نرم پر گئے اس کی پکڑ سے آزاد بھی ملتے ہی وہ شہریار کی طرف بھاگنے لگی جب ساریسہ نے اس کے بالوں سے پکڑ کر اسے واپس پیچھے لیا چلی جاؤ میرے اور شہریار کے بیچ سے وہ صرف میرا ہے میرا "عشق" ساریسہ کا "عشق" اور ساریسہ اپنا حق کسی کو نہیں دے گی ۔وہ مہر کو واڑن کرنے والے انداز میں کہتی ہوئی سے جھٹکا دے کر شہریار کی طرف پھینکا اس سے پہلے کہ وہ گرتی شہریار نے اسے تھام لیا میں نے اسے صرف تمہاری قسم پر چھوڑا ہے اسے میں نے تم سے "عشق" کیا ہے تمہاری قسم ہے تو نبھا نی پڑیگی اسے یہاں سے بہت دور بیج دومجھے دوبارہ اس کی شکل نظر نہیں آنی چاہیے نہیں آئے گی وہ یہاں سے چلی جائے گی میں اسے یہاں سے دے دوں گا شہریار نے وعدہ کرنے والے انداز میں کہا اگر مجھے دوبارہ اس کی شکل نظر آئی تو میں تمہاری قسم بھول جاؤں گی شہریار وہ مہر کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی تو شہریار اسے اپنی طرف گھسیٹ کر لے گیا وہ اسے جلد سے جلد یہاں سے نکالنا چاہتا تھا

   0
0 Comments