Orhan

Add To collaction

عشق

عشق از اریج شاہ قسط نمبر20 آخری قسط

زیان اور مہر ہسپتال پہنچے تو شہریار کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا اسے بے ہوش ہوئے 72 گھنٹے ہوچکے تھے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر مزید 24 گھنٹے میں اسے ہوش نہ آیا تو اس کی جان بچانا بہت مشکل ہو جائے گا مہر کو واپس دیکھ کر اسیہ اور سکندر پریشان ہو چکے تھے وہ جانتے تھے کہ وہ شہریار کے لیے کتنی خاص ہے وہ ان کے لیے بھی خاص ہو چکی تھی وہ اسے بالکل اپنی سی بیٹی کی طرح محبت کرنے لگے تھے اور اس طرح سے اچانک مہر کی واپسی نے انہیں بھی پریشان کر دیا تھا فی الحال وہ نہیں چاہتے تھے کہ مہراور ساریسہ کا سامنا ہو ۔ شہریار پر حملہ کرنے کے بعد ساریسہ کہاں گئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وہ واپس نہیں آئی تھی پھر بھی اس کا خوف اس وقت بھی سکندر اور آسیہ کے آگے پیچھے منڈا جا رہا تھا ان لوگوں کو کسی پل سکون نہ تھا پتا تھا تو بس اتنا کہ ساریسہ اگر عشق میں جان دے سکتی ہے تو نفرت میں جان لینے میں بھی ایک پل نہیں لگائے گی وہ کسی بھی وقت شہریار کی جان لے سکتی تھی ۔ ❤ یہ تم نے کیا کیا ساریسہ اپنے ہی شوہر کو جان سے مارنے کی کوشش کی یہ تھا تمہارا عشق یہ تھی تمہارے بائیس سال کی تڑپ یہ تھا تمہارا انتظار اس کے لیے پکارتی تھی تم اس کو ۔۔ تو میں کیا کرتی وہ کہتا ہے وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا وہ اس مہر کو چاہتا ہے وہ کہتا ہے وہ مجھ سے کبھی محبت نہیں کر سکتا وہ کہتا ہے وہ کبھی میرے ساتھ نہیں آئے گا وہ ساریسہ کا ہو کر ساریسہ کو اپنانے سے انکار کر رہا ہے اسے میرے لیے بنایا گیا تھا اسے مجھے دیا گیا تھا تو کیوں اسے مجھ سے چھینا جا رہا ہے وہ تڑپتے ہوئے بولی کیونکہ تم نے غلطیاں کی ہیں ساریسہ اور غلطیوں کی سزا ہوتی ہے ۔ تم نے پہلے اس کے دادا دادی کو مار ڈالا پھر اس ملازمہ کا قتل ہمیں آدم زاد کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا ان کی جان لینے کے لئے نہیں اگر تین قتل کرنے کے بعد بھی تم اسے مانگتی ہو تو وہ تمہیں نہیں ملے گا تمہیں شہریار کی اجازت ملنے کے بعد اپنے گھر واپس آ جانا چاہیے تھا نہ کہ وہیں رک کر اپنی ضد پر قائم رہنا چاہیے تھا جو غلطیاں تم کر چکی ہو اس کے بعد شہریار ویسے بھی تمہیں نہیں مل سکتا شہریار یہاں آنے سے انکاری ہے ۔تم اسے زبردستی نہیں لا سکتی تم اسے حاصل نہیں کرسکتی بھول جاؤ اسے اور واپس آ جاؤ ۔شکر کرو کہ تم شہریار کے نکاح میں ہو اور اب بھی اپنی گدی پر حکومت کر سکتی ہو اگر سکندر کی طرح شہریار نے بھی نکاح نہ کیا ہوتا تو تمہیں بھی پریام کی طرح ساری زندگی کے لیے قید کر دیا جاتا تم بھی ہمیشہ کے لیے قیدیوں کی زندگی گزارتی واپس آجاؤ ساریسہ اب بھی وقت ہے اور دعا کرو کہ شہریار بچ جائے کیوں کہ اگر اسے کچھ ہوگیا تو تم سے تمہاری پریوں کی ساری طاقتیں چھین لی جائیگی ۔ نہیں اسے کچھ نہیں ہوگا میں اسے کچھ نہیں ہونے دوں گی میں شہریار کو واپس لاونگی میں اسے بچاکر اپنے ساتھ لاؤں گی میں اسے یوں نہیں چھوڑوں گی وہ میرا ہے اس پر میرا حق ہے وہ جنونی انداز میں بولی ضد ایک بار پھر سے سر اٹھا چکی تھی بزرگ اسے سمجھا سمجھا کر تھک ہار چکے تھے مگر وہ اپنی ضد کی پکی تھی اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر وہ غصے میں اس پر حملہ کر بیٹھی تھی لیکن عشق مرتا نہیں نفرت آسان نہیں ہوتی اور جس نے زندگی کے ہر پل کے ساتھ کسی سے عشق کیا ہو وہ اس سے کیا نفرت کرے گا نفرت کا احساس بھی وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں عشق بے پناہ ہو ۔اور ساریسہ شہر یار سے بے پناہ عشق کرتی تھی ❤ جی ان کو ہوش آگیا ہے وہ اب کومہ سے باہر نکل آئے ہیں لیکن جان اب بھی خطرے میں ہے ان کا بہت سارا خون ضائع ہو چکا تھا لیکن ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آپ لوگ بھی دعا کیجئے ان چار دنوں میں آج پہلی بار ان کی حالت میں تھوڑا سا سدھار آیا ہے ۔ ڈاکٹر نے باہر آکر خوشخبری کے ساتھ ساتھ بری خبر بھی سنائی تھی شہریار کی جان اب بھی خطرے میں تھی ۔ آسیہ مصئلے پر بیٹھیں مسلسل اپنے بچے کے لیے دعائیں مانگی تھیں ڈاکٹر کی خبر نے سکندر صاحب کو تھوڑا پر سکون کیا تھا جبکہ مہر کے آنسو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ ایسے میں زیان نے دوست ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے سب کو سنبھال رہا تھا ۔ اور عابد پھر کسی پیر صاحب کو بلانے گیا تھا تاکہ ان مسائل کا کوئی حل نکل سکے ۔ شہریار کی حالت بہت خراب تھی مہر نے بہت مشکل سے ماما بابا کو گھر بھیجا تھا وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن آرام بھی ضروری تھی مہر نے زیان بھی واپس جانے کے لیے کہا وہ جانے کے لئے راضی نہیں ہو رہا تھا لیکن مہر کی ضد کے سامنے ہار گیا ❤ اس وقت مہرشہر یار کے پاس کرسی رکھے بیٹھی تھی جب کہ اس کی گردن پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اسے کتنے درد میں ہوگا وہ اس کی حالت دیکھ کر مہر کو بار بار رونا آ رہا تھا ڈاکٹر نے بہت مشکل سے اسے شہریار کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی تھی شہر یار پلیز واپس آ جاؤ ہم تمہارے بغیر نہیں جی سکتے ۔سوچو جب کل ہمارا بچہ اس دنیا میں آئے گا میں اور تم مل کر اس کا خیال رکھیں گے اس کی پرورش کریں گے اس کو ایک اچھا انسان بنائیں گے شہریار دوائیوں کے زہر اثر گہری نیند سو رہا تھا جب کہ وہ اس کے پاس بیٹھی آہستہ آہستہ اس سے باتیں کر رہی تھی جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی نفرت بڑی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس نے فوراً اپنی دائیں جانب دیکھا جہاں وہ بیٹھی اسے گھور رہی تھی اسے دیکھتے ہی مہرنے شہریار کا ہاتھ چھوڑ دیا تم واپس آ گئی میں نے منع کیا تھا میرےشہر یار کی زندگی میں واپس مت آنا ۔ منع کیا تھا نہ میں نے لیکن تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی تھی تمہیں اپنی جان پیاری نہیں ہے لڑکی ساریسہ نے چلاتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ مہر کے منہ پر دے مارا مہر اس تھپڑ کی تاب نہ لاتے ہوئے دور جا گری آج میں تمہیں اپنےاور شہریارکے بیچ سے ہمیشہ کے لئے ہٹا دوں گی وہ غصے سے اٹھ کر اس کے قریب آئی اور اپنا بھول نکالا اس کا ارادہ آج مہرکی جان لینے کا تھا اس سے پہلے کہ وہ مہر کے اسے نقصان پہنچاتی کوئی اس کا ہاتھ تھام چکا تھا اس نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں شہریار اس کا ہاتھ اپنی پوری قوت سے تھام کر کھڑا تھا بس کر دو ساریسہ جینے دو ہمیں میرے بابا کی غلطی کی سزا تم ان کی جان لینے کی کوشش کرکے دے چکی ہو
تم نے میرے دادا کو مار ڈالا تم نے میری دادی کو مار ڈالا تم نے اس معصوم ملازمہ کی جان لے لی کی اب بس کر دو ہم لوگوں نے تمہارا کیا بگڑا ہے کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ میں کبھی تمہارا نہیں ہوں سکتا میں نے کبھی تمہیں نہیں چاہا تم صرف میری بے چینی کی وجہ بن کر میری زندگی میں آئی ہو تم کبھی میری نہیں ہواور نہ ہی میں عام انسان ہو کر ایک پریوں کی دنیا میں رہ سکتا ہوں میں عام انسان ہوں ساریسیہ مجھے ایک عام انسان رہنے دو چلی جاؤ ہماری زندگی سے وہ ہاتھ باندھے بولا چلی جاؤں گی شہر یار لیکن تنہا نہیں تمہیں ساتھ لے کر اور وہ بھی اس کی جان لے کر بس تم ایک بار میرے ساتھ چلو مجھ سے زیادہ خوش تمیہں اس دنیا میں کوئی نہیں رکھ سکتا ۔ اس کی جان تو میں آج لے کر رہوں گی یہی ہمارے بیچ دیوار بنی ہوئی ہے ۔ شہریار کا ہاتھ جھٹکتے ایک بار پھر سے مہر پر حملہ کرنے لگی ایسا مت کرو ساریسہ وہ ایک نہیں دو دو جانیں ہیں اس کی کوکھ میں میرا بچہ پل رہا ہے شہریار نے چلاتے ہوئے کہا جب ساریسہ کے ہاتھ سے پھول نیچے دیا وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی ۔ ہاں وہ چاہے کتنے بے گناہ کرلے لیکن ایک معصوم سے دنیا میں آنے کا حق میں ہی چھین سکتی تھی اس نے مہر کو ایک نظر دیکھا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ وہ خاموشی سے قدم اٹھاتی پیچھے کی طرح آئی تم نے ٹھیک کہا۔ تم نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی کبھی مجھ سے محبت نبھانے کا وعدہ نہیں کیا یہ تو بس میرا عشق تھا جو مجھے تمہارے ساتھ قید رکھے ہوئے تھا لیکن اک پری زاد کبھی اپنی سوتن کو قبول نہیں کر سکتی میرے بزرگوں نے مجھے بدلے کے لئے استعمال کیا میں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے تم سے عشق کیا ہے لیکن شاید میرے نصیب میں یہ عشق لکھا ہی نہیں ہے میں تم سے سب کچھ چھین سکتی ہوں لیکن یہ خوشی نہیں جاؤ کیا یاد کرو گی مہر ۔ایک پری ذاد نے تمہیں اپنا عشق دے دیا لیکن اپنے آپ کو تنہا مت سمجھنا میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں شہریار۔۔مہر تمہاری کوکھ سے جنم لینے والے پہلے بچے پر میرا حق ہوتا ہے اور اسے تم مجھ سے چھین نہیں پاؤ گی ۔ شہریار اور مہر خاموشی سے اس کی باتیں سن رہے تھے لیکن اس کی باتوں کی گہرائی کا مطلب نہیں جانتے تھے جاؤ مہرشہر یار تمہیں میرا عشق مبارک ہو وہ آنکھوں میں آنسو لیے مسکراتے ہوئے کہتے غائب ہو چکی تھی ۔ جب کہ اس کھڑکی کے قریب شہریار اور مہردونوں کی نگاہیں اسے تلاش کر رہی تھی کیا وہ چلی گئی شہریار ۔۔۔؟ مہر نے پوچھا تو شہریار نے خاموشی سے اسے اپنے سینے سے لگا گیا۔ وہ خود بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا ❤ سکندر صاحب کی زندگی کی بس ایک ہی خواہش کی وہ بس ایک بار آخری بار پریام سے ملیں لیکن اب یہ ممکن نہ تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پریام کے عشق کی کوئی انتہا نہ تھی وہ ایک رات چپکے سے اس کے خواب میں آئی جہاں سکندر نے رو رو کر اس سے معافی مانگی تھی
سکندر کی غلطی بہت بڑی تھی اس کی وجہ سے ایک پری اپنی ہر خواہش کو ادھورا چھوڑ کر ساری زندگی کے لیے قید ہوگئی اب اس کی رہائی ممکن نہ تھی ۔ پھر بھی اس نے سکندر کو معاف کردیا تھا شاید عشق سزا نہیں دیتا ۔اور ایسا ہی عشق پریام نے کیا تھا ❤ تین ماہ بعد۔ ساریسہ کا خوف ختم ہو چکا تھا تین مہینے ہو چکے تھے اس حویلی میں رہتے ہوئے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہا تھا اور آج واپس کینیڈا جانے والا تھا زیان اور منال کی شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی جس کی ساری تیاری شہریار اور مہر نے کی تھی شہریار اس کا بہت خیال رکھا تھا اور سکندر اور آسیہ اسے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتے لیکن اب انھیں واپس جانا تھا کیونکہ وہاں شہریار کا بزنس پھیلا ہوا تھا جسے سنبھالنا اس کے لیے بہت ضروری تھا آسیہ اور سکندر نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ ماہ میں ہی وہاں آ جائیں گے اور مہر کی ڈلیوری سے پہلے ہی وہ ہمیشہ کے لئے واپس پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ مہر اپنا سارا سامان کر چکی تھی لیکن بیگ وزنی ہونے کی وجہ سے اس سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا اس نے وہی پیڈ پر رکھے اور باہر نکل آئی اس کا ارادہ شہریار یا کسی اور کو بلانے کا تھا جو بیگ نیچے رکھ کے گاڑی میں لیکن جب وی گاڑی تک پہنچی اس کے سارے بیگ پہلے ہی گاڑی میں موجود تھے شہریار یہ بیگ تم نے رکھوائے وہ پریشان تھی وہ تو انہیں کمرے میں چھوڑ کے آئی تھی تو اس سے پہلے یہ بیگ یہاں کیسے پہنچے نہیں مہر سارے ملازم تو دوسری طرف ہے یہ یہاں کس نے رکھے وہ اس کے قریب آ کر پوچھنے لگا اس نے مہر کو کوئی بھی بھاری کام کرنے سے منع کیا تھا مہر پریشان سی واپس جانے لگی جب ہوا کے ایک جھونکے نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔ اس نے مڑکر شہریار کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا دونوں کے لبوں سے ایک سرگوشی نمایاں ہوئی ساریسہ ۔۔اور وہ دونوں بے اختیار مسکرا دیئے ❤ چھ ماہ بعد۔ شہریار یہاں آؤ دیکھو چینی کا ڈبہ بہت اونچا پڑا ہے یہاں نیچے تھی وہ ختم ہو گئی ہے پلیز اٹھا دو میں اوپر تک نہیں پہنچ سکتی ۔ وہ کمرے میں آ کر شہریار کو جگانے لگی جو گہری نیند سو رہا تھا بہت کوشش کے باوجود بھی نہ جاگا تو وہ واپس آ گئی اسے چائے کی طلب ہو رہی تھی اور چینی کا ڈبہ بہت اونچائی پر پڑا تھا شہر یار تو اسے کوئی کام نہیں کرنے دیتا تھا لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور اپنے کام خود ہی اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی وہ واپس کچن میں آئی تو چینی کا ڈبہ نیچے رکھا ہوا تھا ملازمہ کے آنے کا ابھی وقت نہیں ہوا تھا اور گھرمیں شہریار اور اس کے علاوہ کوئی نہ تھا ڈبہ نیچے دیکھ کر بے اختیار مسکرا دیں اب اسے ان سب چیزوں کی عادت ہو چکی تھی ساریسہ اس کے نہیں بلکہ اپنے بچے کا خیال رکھتی تھی اسے آہستہ آہستہ ساریسہ گہری باتوں کا مطلب سمجھ چکا تھا ۔ شہریار کی پہلی اولاد پر ساریسہ کا حق تھا یہ بات وہ سمجھ چکی تھی اور اس معاملے میں اپنا دل بھی بڑا کر چکی تھی۔ اگر وہ اس بچے کے لیے اپنا عشق چھوڑ سکتی تھی تو مہر بھی اسے ماں بننے کا حق دے سکتی تھی ۔ ❤ تین سال بعد پریام بیٹا کہاں ہو تم جلدی آؤ دیکھو بابا آ گئے سکندر صاحب ہر طرف اپنی پوتی کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ لیکن نہ جانے وہ کہاں چلی گئی تھی ۔ان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی کہ وہ اکثر غائب ہو جاتی تھی اور اندھیرا ہونے سے پہلے ہی واپس آ جاتی تھی اور اگر اس سے پوچھتے تھے وہ کہاں گئی ہے تو وہ کہتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے پاس تھی مہر تو اس کی موم تھی اس کی ماں کو ساریسہ تھی جو اسے اپنے ساتھ اپنی دنیا میں لے جاتی تھی لیکن اس دن کچھ عجیب ہوا کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا کچن میں کام کرتی مہر کر دروازہ کھولنے لگی تو سامنے اس کی بیٹی کے ساتھ 10 سالہ بچہ کھڑا تھا خوبصورتی بے مثال وہ گہری سبز آنکھوں والا لڑکا سرخ و سفید رنگت کا مالک تھا آج میں نے پری ماں کہا کہ میں خود اسے گھر چھوڑ کے جاؤں گا بچہ مسکراتے ہوئے بولا تو مہر بھی مسکرا دی اتنا حسین لڑکا شاید اس دنیا کو ہو بھی نہیں سکتا تھا ویسے بھی اپنی چیزوں کا خیال میں خود رکھتا ہوں اس کے انداز میں حق بول رہا تھا تو سوچا آپ کو ساتھ بتا بھی دوں کہ پریام کو خود سے دور مت کریں بہت کم وقت کے لیے یہ آپ لوگوں کے پاس ہے بعد میں میں اسے اپنی دنیا میں لے جاؤں گا ۔ اس کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی ان کی بیٹی کو ان سے دور کر دے گا لیکن وہ خاموش رہی کچھ بولنے کو اس کے پاس تھا ہی نہیں وہ جانتی تھی آج نہیں تو کل اس کی بیٹی اس سے دور ہو جائے گی لیکن یہ تو ساریسہ کا احسان تھا جس نے ان سے ان کی بیٹی چھینی نہ تھی اور ایک بیٹی کی شادی کرنا تو ہر ماں باپ کا فرض تھا جس کے لیے مہر اور شہریار نے بھی کچھ خواب دیکھے تھے اور ساریسہ اپنے عشق کے خواب پورے نہ کرے ایسا تو ممکن ہی نہ تھا لیکن ساریسہ اپنا خواب بھی پورا کیا تھا اپنی پریام کو ہمیشہ کے لئے اپنی دنیا میں لانے کے لئے ایک پری زادے سے اس کا نکاح کر کے پریوں کی ہر نسل پہلے سے زیادہ خطرناک ضدی اور مغرور ہوتی ہے ان بزرگوں کے یہ الفاظ سکندر کے کان میں آج بھی گونجتے تھے
اور اس بچے کو دیکھ کر اس کا ضدی پن اس کا مغرورانہ انداز اور وہ کس حد تک خطرناک ہے دیکھ سکتے تھے۔ اس بچے نے مسکرا کر ایک نظر پریام کو کو دیکھا اور پھر غائب ہو گیا لیکن یہ بھی سچ کہا کہ وہ بہت جلد اپنی پریام کو لینے آنے والا تھا ۔ لیکن کیا پریا اس نے کہا کو قبول کرے گی ۔ کیا وہ ساری زندگی ایک پری زادے کی ہو کر رہ سکے گی کیا عشق اتنا ہی آسان ہے ۔کیا زاریم کا عشق لائے کا پریام کی زندگی میں ایک نیا موڑ یا پھر زاریم لکھے گا عشق کی نئی داستان ۔

   1
0 Comments