Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر18

اُس کی آنکھ صبح کے پانچ بجے کھلی تھی اُس کے سر میں انتہا کا درد ہوو رہا تھا زندگی میں پہلی بار شراب پی تھی وہ بھی غصے میں… اِس کے بعد کیا ہوا اُسے یاد نہیں آرہا تھا کُچھ دیر ایسے ہی وہ بےسُدھ لیٹا کنپٹی دباتا رہا۔۔ پھر کسلمندی سے اُٹھ بیٹھا اور اِردگِرد نظر دوڑائی تو اُسے حیرت کا جھٹکا لگا ساوی تت تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟ وہ ایک جھٹکے سے بستر سے اُٹھتا ہوا بولا اسکا سر ایک دم چکرایا تو وہ سر تھام گیا اس کی نظریں ساوی پر تھیں جو بے سُدھ لیٹی چھت کو گھور رہی تھی اُس نے درید کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔ میں تم سے پوچھ رہا ہوں یہاں کیا کر رہی ہو تم ؟؟ تم تو گھر پر تھی نا یہاں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آگے بڑھتا اس پر سے بلینکٹ ہٹا کے اُٹھاتا بولتا بولتا رُک گیا ۔۔۔۔۔ اس کی نظریں ساوی کے وجود پر تھیں جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور چہرے پر نیل کے نشان تھے تو گردن پہ کھروچوں کے ۔۔۔۔ساوی نے کوئی مزاحمت نہ کی وہ کسی بے جان گُڑیا کی طرح بیٹھی تھی۔ درید کو ایسا لگ رہا تھا وہ کوئی بُرا خواب دیکھ رہا ہے آنکھیں کھولے گا تو یہ منظر غائب ہو جائے گا ہو بھی جاتا اگر وہ صرف خواب ہوتا۔۔۔۔۔ وہ دوڑتا باتھ روم میں گیا اور منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے اور پھر اتنہ ہی جلدی سے باہر آیا جتنی جلدی سے گیا تھا مگر باہر کا منظر اب بھی ویسا ہی تھا شراب کا نشہ اُترا تھا تو سب کُچھ یاد آگیا تھا رات کا گُزرا ایک ایک لمحہ اُس کی نظروں کے سامنے سے گُزر رہا تھا اور وہ شرمندگی ، دُکھ، پچھتاوے کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا جا رہا تھا۔۔۔۔ شٹ شٹ شٹ۔۔ کیسے کر دیا میں نے یہ ؟؟ مم میں نے اپنی چڑیا کے ساتھ۔۔۔۔۔ یا اللّٰہ کیسے کر دیا میں نے یہ ۔۔۔۔۔ وہ وحشت زدہ سی نظروں سے ساوی کے وجود کو دیکھتا بولا جو اب بھی بے حس و حرکت پڑا تھا جیسے اُس میں جان ہی نہ ہو۔۔ اُسے دیکھ کر وہ نئے سرے اذیت میں مُبتلا ہوا ۔۔۔۔ اُس کے اندر باہر گھٹن سی بڑھ گئی تھی اُسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اُس نے اپنی زندگی کے ساتھ اتنا بُرا سلوک کیا ہے۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سے کھڑا ہوا اور ساوی کے پاس جانے لگا کہ کارپٹ پہ بکھرے شیشوں پہ پاوں پڑا اور وہ وہی شیشوں کے پاس بیٹھ گیا اور اپنا دائیاں یاتھ اُٹھاتا بار بار اُن شیشوں پہ مارنے لگا ۔۔ خون فوارے کی صورت اس کے ہاتھ سے نکلتا کارپٹ کو رنگنے لگا مگر اُس کی وحشت تھی کہ کم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ جب وہ اپنے ہاتھ کو سزا دیتا دیتا تھک گیا تو وہیں بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔۔۔ وہ غلطی نہیں تھی جس پہ وہ پچھتا لیتا معافی مانگ لیتا تو بچ جاتا وہ گناہ تھا جو شراب کے نشے میں ہی سہی اُس نے ہی کیا تھا ۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے ساوی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اور چچا چچی اُن کو کیا جواب دے گا وہ جنہوں نے اُسے پالا پوسا اتنا بڑا کیا زندگی کی ہر آسائش دی اُس نے اُن کے ہی گھر میں نقب لگائی۔۔۔ اپنی ہی عزت پر حملہ کر دیا ایک بار بھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔ وہ سوچتا اگر وہ ہوش میں ہوتا شراب کو اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ وہ انسان سے اُس کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے اُس کی عقل پہ پردے ڈال دیتی ہے۔۔۔۔۔ وہ اُٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھا اور ساوی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ معاف کر دو پلیز معاف کردو اپنے درید کو۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا میں کیا کر رہا ہوں ۔۔۔۔ پتہ ہوتا تو کبھی ایسا گُناہ نہیں کرتا ۔۔۔۔۔ تم تم معاف نہیں کرنا چاہتی تو سزا ہی دے دو ۔۔۔۔۔۔وہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے روتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔۔ وہ رو نہیں رہی تھی نہ ہی اُس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ مم میں لے جاتا ہوں مگر مم میں وعدہ کرتا ہوں سب کُچھ ٹھیک کر دوں گا میں تم سے شادی کروں گا تمہارے سر سے عزت کی چادر میں نے کھینچی ہے نا تو یہ چادر میں ہی تمہیں واپس کروں گا ۔۔۔۔۔ میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔۔ وہ اُس کے ہاتھ تھامتا ان پہ اپنی پیشانی ٹکائے بولا۔۔۔ ساوی کُچھ نہیں بولی تھی اور اُس کی چپ کو دیکھتا اپنے ہاتھ کی پرواہ کیے بغیر اُسے چادر اوڑھاتا باہر لے گیا ۔۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر درید نے کُچھ بولنے کی کوشش کی تو ساوی نے ہاتھ اُٹھا کر منع کر دیا۔۔۔۔ پھر سارے راستے خاموشی رہی تھی ۔۔۔۔۔ جب وہ گھر پہنچے تو چھ بج چکے تھے ابھی تک کوئی بھی نہیں جاگا تھا ساوی بغیر اُس کی طرف دیکھے اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ درید اُس کی پشت دیکھتا باہر نکل گیا اُس میں ہمت نہیں تھی کسی کا سامنا کرنے کی۔۔۔۔۔۔


اپنے کمرے میں آکے اُس کا ضبط ٹوٹا تھا درید کی دی چادر اُتارتی وہ الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں بند ہو گئی شاور کے نیچے کھڑی وہ ٹھنڈے یخ پانی سے خود کو بھگو رہی تھی کبھی ہاتھا صاف کرتی تو کبھی منہ جیسے کوئی گندگی اُس سے لپٹ گئی ہو ۔۔۔۔۔ تب بھی سکون نہ آیا تو بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا اُس کے درید نے اُس کے ساتھ یہ سب کیا تھا وہ تو وہاں اُسے سمجھانے گئی تھی اُسے پتہ ہوتا وہ اِس حد تک بھی جا سکتا ہے تو کبھی وہاں نہ جاتی اُسے درید سے خوف آنے لگا تھا وہ اُس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اُس کا مان بھروسہ بھرم اور دل بُری طرح سے ٹوٹے تھے وہ کہتے ہیں کہ جب دل ٹوٹتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے مگر جب بھرم ٹوٹتا ہے تو کُچھ نہیں بچتا۔۔۔ ساوی کے پاس بھی کُچھ نہیں بچا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس کے ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا جس پر اُس کا کوئی دھیان نہیں تھا اُس کا سارا دھیان اپنے گناہ پر تھا وہ گاڑی دوڑاتا مسجد گیا تھا وہ سزا چاہتا تھا اپنے گناہوں کی۔۔۔ پہلا گناہ اةس نے شراب پی کر کیا تھا اور دوسرا گناہ ایک معصوم کی عزت چھین کر ۔۔۔ اُسے جتنی سزا ملتی کم تھی۔۔۔۔ جب وہ مسجد پہنچا تو اِکّا دُکّا ہی لوگ موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔ سب لوگ حیرانی سے اس کے خون سے بھرے ہاتھ کو دیکھ ریے تھے مگر اُسے لوگوں کی ہوش ہی کہاں تھی۔۔۔ وہ ایک لڑکے سے پوچھتا امام مسجد کے پاس گیا تھا اور اُن کے قدموں میں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔ وہ اُس کے چہرے پہ ندامت پریشانی دیکھتے اُس کا یاتھ دیکھنے لگے۔۔۔۔ پٹی کروا لو بیٹا خون بہت بہہ گیا ہے۔۔۔۔ وہ نرمی سے بولے۔۔۔ مجھے سزا چاہئے۔۔۔۔۔ وہ بڑبڑایا۔۔ پہلے پٹی کروا لو پھر سزا بھی لے لینا اور توبہ بھی کر لینا ۔۔۔۔۔ وہ اُن کی توبہ والی بات پہ چونکا ۔ وہ کھڑے ہوئے اور اُسے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ ان کے پیچھے ہی ان کے حجرے تک گیا جو مسجد کے ساتھ ہی ایک طرف بنا تھا امام صاحب نے خود اُس کے ہاتھ کی مرہم پٹی کی تھی۔۔۔۔۔ اب وہ اپنے ہاتھوں کو گھورتا گُم صُم سا بیٹھا تھا۔۔۔۔ اب بولو ایسا کون سا گناہ ہو گیا ہے تُم سے جس کی سزا چاہتے ہو؟؟؟؟ وہ نرمی سے اِستفسار کر رہے تھے۔۔۔۔ گناہ کبیرہ کر بیٹھا ہوں میں ۔۔۔۔۔ وہ ان کے گھٹنے تھامتا رونے لگا تھا۔۔۔ کون سا گناہ کبیرہ؟؟ وہ اب بھی نرمی سے پوچھ رہے تھے۔۔۔ شراب کے نشے میں کسی معصوم کی عزت چھین چکا ہوں۔۔۔۔۔ وہ سر جھکائے روتے ہوئے بولا اور اُس کی بات سُن کر امام صاحب سوچ میں پڑھ گئے ۔۔۔ شراب پینے کے عادی ہو؟ نہیں زندگی میں پہلی بار پی تھی اگر پتہ ہوتا اتنا بڑا گناہ کر بیٹھوں گا تو کبھی نہ پیتا ۔۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتا بولا ۔۔۔ دیکھو بیٹا جو گناہ تم نے کیا ہے اس کے کُچھ اصول ہیں۔۔۔۔ اگر تو یہ گناہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت کرتی ہے تو ان کو سنگسار کر دینے کا حُکم ہے ۔۔۔۔۔ انہوں نے اُس کا چہرہ دیکھتے کہا ۔۔۔ اور اگر یہ گناہ ایک غیر شادی شدہ مرد یا عورت سے سرزد ہوتا ہے تو ان دونوں کو اسّی اسّی کوڑے مارنے کی سزا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ چپ رہا تو وہ پھر بولے۔۔۔ میں غیر شادی شدہ ہوں اور وہ بہت معصوم ہے اُس کی کوئی غلطی نہیں شیطان تو مُجھ پر ہاوی ہوا تھا جس نے مجھے صیح غلط کی پہچان بھلا دی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ بھرائے لیجے میں بولا ۔۔۔ اگر اُس کی کوئی غلطی نہیں اور یہ گناہ تمہاری طرف سے سرزد ہوا ہے تو تمہیں اسّ کوڑے مارنے کی سزا دی جائے گی۔۔۔۔ وہ اُس کا جھکا سر دیکھتے گہری سانس لے کر بولے۔۔۔ مجھے منظور ہے کب دی جائے گی سزا ؟؟؟!! وہ اقرار کرتے بولا لیکن اِس گناہ کو ثابت کرنے کے لیے گواہوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے تمہارے پاس گواہ ہیں؟؟؟ انہوں نے اگلا سوال پوچھا۔۔۔ نہیں خدا کے سوا کوئی گوا کوئی شہادت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔ ٹھیک ہے چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔ وہ اُسے لیے باہر نکل گئے۔۔۔ اور اپنے حجرے کے ساتھ بنے دو کمرے چھوڑ کر ایک کمرے میں داخل ہوئے وہاں ایک ٹیبل رکھا گیا تھا جو ڈیسک کی طرح لمبا سا تھا مگر کافی چوڑا تھا ۔۔۔ تیار ہو اپنی سزا کے لیے۔۔۔۔۔ انہوں نے آخری بار پوچھا ۔ ہاں تیار ہوں۔۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کرتا ساوی کا چہرہ تصور میں دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے یہاں لیٹ جاو ۔۔۔ انہوں نے ہدایت دی۔۔۔ اُس نے شرٹ اتاری اور جا کے ٹیبل پہ چُت لیٹ گیا ۔۔۔۔ امام صاحب اُسے دیکھتے باہر نکل گئے جب وہ واپس آئے تو اُن کے ساتھ ایک آدمی تھا جس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا ہنٹر تھا ۔۔۔ اسے اپنے گناہ کی سزا چاہیے فرید اِسے خدا کے حُکم سے سزا دو۔۔۔۔۔ فرید نامی شخص آگے بڑھا اور ہنٹر پہ اپنی گرفت مضبوط کی۔۔۔ آہہہ ۔۔۔۔۔۔۔ پہلا ہنٹر پڑتے ہی درید کی چیخ نکل گئی اور پھر پورا کمرہ اُس کی وحشت ناک چیخوں سے گونج اُٹھا کہ باہر موجود لوگ اندر کی طرف بھاگے اور اندر کا منظر دیکھتے ہی ساکت رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔ درید کی قمر اس کے بازو اور گردن سُرخ پڑ چکی تھی کہ اس کی جلد نظر ہی نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ پورا جسم خون سے بھر چکا تھا اور ابھی صرف پچاس کوڑے ہوئے تھےاُس کے جسم کا ایک ایک حصہ تکلیف میں تھا مگر یہ تکلیف اُس تکلیف سے کم تھی جو اُس نے ساوی کا مان توڑ کر اُسے دی تھی وہ درد کی شدت سے بے ہوش ہو چکا تھا ۔۔۔ امام صاحب نے اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو اُس نے آنکھیں کھولیں ہلنے کی کوشش کی تو پھر سے چیخ اُٹھا اس کا پورا جسم سُن پڑ چکا تھا۔۔۔۔ ابھی صرف پچاس کوڑے ہوئے ہیں کیا اب بھی تم اپنی بات پر قائم ہو۔۔۔ امام صاحب نے ایک بار پھر پوچھا ۔۔۔ ہہ ہاں مم میں پپ پوری سزا چچ چاہتا ہوں بب بے شک اس مم میں مم میری جج جان ہی چچ چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔ وہ اکھڑے اکھڑے سانس لیتا مُشکل سے بولا۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ فرید ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہتے ہی فرید کو اشارہ کیا اور ایک بار کمرہ درید کی چیخوں سے گونج اُٹھا۔۔۔ تیس کوڑےاور ایک ایک کر کے اُس کے جسم پر لگتے گئے اور ہر کوڑے پہ اُسے لگتا جیسے جسم سے روح پرواز کر گئی ہو۔۔۔۔۔ اسّی کوڑے پورے ہو چکے تھے اُس کی پینٹ خون سے بھر چکی تھی اور خون بہہ بہہ کر ٹیبل سے نیچے گِر رہا تھا اُس کا وجود نیم مردہ ہو گیا تھا ایسا لگتا تھا کہ وہ اگلی سانس نہیں لے پائے گا ۔۔۔ اُس کی سانسیں بھی مدھم سی چل رہی تھیں۔۔۔۔ امام صاحب نے فرید کو کُچھ ہدایات دیں اور وہ درید کو اٹھائے باہر نکل گیا اور امام صاحب لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔ یہ گناہ کبیرہ زنا کی سزا ہے اور یاد رکھو لوگو جب تک تم لوگ اپنے گناہ کی سزا نہیں بھگتو گے خدا تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا اس دنیا میں تو شاید بچ جاو مگر قیامت والے دن ہر گناہ کا حساب ہو گا اِس لیے ایسے گناہوں سے اجتناب کرو جن کی سزا دُنیا اور آخرت دونوں میں کڑی ہے۔۔۔۔۔ وہ اونچی آواز میں بولے اور اپنے حجرے کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔


فرید درید کو ہسپتال لے گیا تھا درید کو ایمرجنسی میں ایڈمٹ کیا گیا تھا ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ خون بہت بہہ چکا ہے اور مریض کی حالت بہت سیریس ہے ۔۔۔ درید کا والٹ فون فرید کے پاس تھا مگر اُس نے ابھی تک درید کے گھر میں اطلاع نہیں دی تھی۔۔۔۔ کُچھ ہی دیر میں ڈاکٹرز باہر آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ درید کے گھر والوں کو بلایا جائے تا کہ بلڈ کا ارینج کیا جا سکے ۔۔۔۔ فرید نے فون کر کے مراد صاحب کو بلا لیا تھا اُس نے اُن کو صرف یہی بتایا تھا کہ درید کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے ۔۔۔ اتنی بات سنتے ہی فون بند ہو گیا تھا۔۔۔۔۔


آٹھ بجے کے قریب مراد صاحب درید کے فون سے آنے والی کال سن کے ساکت رہ گئے تھے انہوں نے جلدی سے شایان اور نادیہ بیگم کو ساتھ لیا تھا اور وہ ہسپتال روانہ ہو گئے تھے۔۔۔۔ وہ درید کو لے کر اتنا پریشان تھے کہ ساوی کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا تھا ۔۔۔۔ وہ ہسپتال پہنچے تو شایان نے ریسیپشن سے معلومات لی جلد ہی انہیں آئی سی یو کا بتا دیا گیا۔۔۔۔ نادیہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔۔ مراد صاحب اور شایان بھی حواس باختہ تھے۔۔۔۔۔ ابھی وہ آئی سی یو کے باہر پہنچے ہی تھے کہ ڈاکٹر کی بات سن کے ان کے قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے جو کہ فرید سے کہہ رہے تھے۔۔۔۔ آئی ایم۔سوری۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments