Orhan

Add To collaction

خوبصورت

خوبصورت از سیدہ قسط نمبر8

ہارون جا چکا تھا حسیب مشک کو ڈراپ کرنے جا رہا تھا۔۔۔۔ تو جب تک آرام کر میں مشک کو ڈراپ کر کے آتا ہوں حسیب نے حاریب کے روم کا اے سی اون کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔ ٹھیک ہے تو فکر نہیں کر۔۔۔۔۔جا باہر ویٹ کر رہی ہے وہ چل ٹھیک۔۔۔۔۔حسیب کہہ کر روم سے باہر آگیا وہ آرام کرے گا تب تک میں تمھیں چھوڑ کر آجاؤں گا ٹھیک ہے بس حاریب کو اکیلا نہیں چھوڑ نا مشک کو فکر تھی ہاں بابا میں ہوں فکر نہیں کرو۔۔۔۔۔چلو جب دونوں نیچے آے تو پتا چلا کار میں مسلہ ہوگیا ہے چل ہی نہیں رہی تھی اوہو !مشک تم اپر جاؤ میں ٹھیک کروا کر تمھیں فون کروں گا نیچے آجانا۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ حاریب حسیب کے جانے کے بعد بستر سے اٹھا۔۔۔۔اور آئینہ پہ لگا پیپر ہٹایا۔۔۔۔حسیب نے گھر کے سارے آئینوں پہ پیپر لگا دیا تھا۔۔۔۔ اپنے چہرے کو دیکھتے ہی آنسوں کا ایک قطرہ اسکی آنکھوں سے نکل کر اسکے جلے ہوۓ گال پہ گرا حاریب نے ہاتھ آگے بڑھا کر آئینہ پہ اپنا چہرہ چھوا یہ کون ہے ؟تبھی ایک چیخ کی آواز بلند ہوئی آآآآآآآآآآآہ ہ ہ ہ !۔۔۔۔۔۔نہیں یہ میں نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔نہیں!!!!!!!! میں نہیں ہوں یہ میرا۔۔۔۔میرا۔۔۔۔چہرہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا تھا وہ پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچتا چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔ نہیں ہوں میں یہ۔۔۔۔۔کہاں گیا وہ حاریب۔۔۔کہاں گیا۔۔۔۔۔۔وہ اپنا چہرہ چھو چھو کر آئینہ میں دیکھتے ہوے چیخ رہا تھا۔۔۔اسکی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا۔۔۔۔۔ جس دن یہ حسن جس پہ تمھیں اتنا تکبر ہے نہ تم سے دور چلا جائے گا اس دن تمھیں احساس ہوگا۔۔۔۔۔۔جب یہ لوگوں کا ہجوم جو تمہارے حسن پہ مارتا ہے اور تمہارے ارد گرد جمع رہتے ہے۔۔۔۔سب غائب ہو جائیں گے۔۔۔۔۔اس دن تمھیں احساس ہوگا۔۔۔۔۔اسکے یہ الفاظ حاریب کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔۔۔ سہی کہا تھا اس نے۔۔۔۔۔اسکے ایک ایک َالفاظ درست تھے۔۔۔۔۔وہ سہی کہتی تھی۔۔۔۔۔۔میں نے خود کو ہی آگ لگا لیا تکبر کر کے۔۔۔۔۔۔اسے اب احساس ہو رہا تھا اَللّهُ۔۔۔۔۔!!!!!!!!!! مجھے معاف کردے نا۔۔۔۔۔وہ چیخ چیخ کے تھک گیا پھر اٹھا اور کچن میں گیا ادھر ادھر کچھ تلاش کرنے لگا جو اسے چاہیے تھا مل گیا مشک کو حسیب نے گھر کی کیس دے دی تھی مشک نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی چیخ نکل گئی حاریب!!!!!!!رک جاؤ۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔مشک بھاگتی ہوئی گئی اور اسکے ہاتھ سے چھوری لے کر دور پھینکی جو وہ اپنی کلائی پہ رکھے بیٹھا تھا مشک !کرنے دو مجھے یہ میں نہیں رہے سکھتا اس چہرے کے ساتھ حاریب فرش پہ بیٹھا چیخ رہا تھا تو کیا تم اپنی زندگی ختم کر لو خود کو مار کر ہاں۔۔۔۔؟ کس نے کہا میں اپنی زندگی ختم کرنا چاہتا ہو۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں اس تکلیف کو ختم کرنا چاہتا ہوں جو مجھے اس چہرے سے ہو رہی ہے حاریب نے قریب آکر مشک کا بازوں سختی سے پکڑ کر کہا حاریب نہیں کروں پلیز حاریب کا درد دیکھ کر مشک بھی رونے لگی اس نے دونوں ہاتھ حاریب کے چہرے پہ رکھتے ہوۓ کہا تم بتاؤ میں کیا کروں میں اس چہرے کی وجہ سے پچھلے دو مہینے سے ڈیپریشین میں ہوں حاریب نے روتے ہوۓ ہلکی آواز میں کہا حاریب میری بات سنیں اگر آپ کا چہرہ پہلے جیسے نہیں رہا تھا تو کیا مطلب آپ خود کو ختم کر لیں گے۔۔۔۔۔اور آپ سے جوڑے ان لوگوں کا کیا۔۔۔۔۔۔جو پچھلے دو مہینوں سے آپ کے لئے پریشان ہیں ۔۔۔۔۔آپ کے دوستوں کا کیا جنہوں نے آپ کے لئے دن رات ایک کردی۔۔۔۔۔مشک نے اسکے آنسوں کو پوچتے ہوۓ کہا اور تم ؟حاریب نے اس طرح پوچھا کے مشک کو لگا شاید اب دھڑکن رک جائے گی میں ہمیشہ آپ کے ساتھ پاس ہوں جیسے ابھی مشک میں خود سے نہیں لڑ پہ رہا دنیا سے کیا لڑوں گا۔۔۔۔۔ حاریب کس نے کہا آپ اکیلے ہیں اس لڑائی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ اب یہ نا امید ہونا چھوڑ دیے اٹھیں۔۔۔۔مشک نے اسے اٹھایا اور روم میں لا کر بیڈ پہ بیٹھایا۔۔۔۔۔ تبھی مشک کے پاس حسیب کا میسج آیا حاریب پلیز ہماری محبت کے خاطر اپنے ساتھ کچھ نہیں کریے گا۔۔۔۔۔میں جا رہی ہوں وعدہ کرتا ہوں اب خود کو کچھ نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ آرام کریں


حسیب کچن میں حاریب کے لئے کھانا بنا رہا تھا حاریب بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا تو کیا بار بار چینل بدل رہا ایک جگہ لگا لے حسیب کب سے حاریب کو دیکھ رہا تھا وہ چینل بدل رہا تھا کچھ اچھا ہی نا آرہا ہے۔۔۔۔۔ بیٹا کیا چل رہا ہے تیرے دل میں۔۔۔۔۔حسیب نے سبزی کاٹتے ہوۓ کہا۔۔۔۔ کیا بکواس ہے یہ ؟۔۔۔۔۔،حاریب نے گردن گھوما کر کچن میں کام کرتے حسیب کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔ وہی جو سچ ہے۔۔۔۔۔آج مشک تیرے لئے کافی پریشان تھی حسیب کی بات پہ حاریب کو آج ہونے والی بات یاد آگئی دوست ہے جیسے تو پریشان ہے ویسی ہی وہ بھی پریشان ہے۔۔۔۔۔حاریب نے بات گھومانی چاہی بیٹا بچا نہیں ہوں۔۔۔سب سمجھ آتا مجھے۔۔۔۔تیرے دل میں اسکے لئے محبت کافی ٹائم پہلے سے ہے۔۔۔۔۔ تو چپ کر کے سبزی کاٹ ورنہ جس چھوری سے تو سبزی کاٹ رہا ہے اسی سے زبان کاٹ دوں گا۔۔۔۔۔حاریب نے ٹی وی بند کرتے ہوۓ کہا تو کہاں جا رہا ہے۔۔۔۔۔؟ روم میں جا رہا ہوں کھانا پک جائے تو بتا دینا۔۔۔۔۔ سہی ہے جا تو حاریب کا روم میں دم گھوٹ رہا تھا اسلئے روم کی گیلر ی کا دروزہ کھول کر بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ بیڈ پہ آنکھیں بند کیے چہرہ پہ لگنے والی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہا تھا میں ہمیشہ آپ کے ساتھ پاس ہوں جیسے ابھی۔۔۔۔۔بند آنکھوں میں اسے مشک کا چہرہ دیکھائی دے رہا تھا اور کانوں میں اسے الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔۔ حاریب اپنے دل کو سمبھال یہ اسکی محبت نہیں صرف ہمدردی ہے۔۔۔۔۔تیرے اس چہرے کے ساتھ تجھے کوئی قبول نہیں کرے گا۔۔۔۔۔دماغ سے ایک آواز آئی حاریب نے اپنی آنکھیں کھولی اٹھ کر گیلری میں آگیا اَللّهُ میں جانتا ہو یہ سزاہے اس تکبر کی جو میں نے کیا یہ سزا ہے ان لفظوں کی جو میرے منہ سے نکلے میں اس ہی کا حقدار ہوں بنا ماں باپ کے ایک یتیم لڑکا اور کس چیز کا حقدار ہو سکتا مجھے تو بس معاف کردے میں ہر اس انسان سے معافی مانگوں گا جس کا میں نے دل توڑا حاریب آسمان کی طرف دیکھ کر بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔ تبھی فون پہ کال آنے لگی نمبر دیکھ کر حاریب کا دل ہی نہیں کیا کال اٹھانے کا روم کا دروازہ کھولا۔۔۔ارے شہزادہ یہ اس طرح لائٹ بند کر کے یہاں کیوں بیٹھا ہے۔۔۔۔۔اور کس کی کال آرہی ہے دیکھ لے نمبر دیکھ کر تیرا بھی موڈ خراب ہو جائے گا ارے یار ایک تو یہ۔۔۔۔۔تیرے ڈیڈ ! کھانا بنا ؟ ہاں تیارہے چل۔۔۔۔۔اور یہ فون بجنے دے۔۔۔۔حاریب کہہ کر روم سے باہر چلا گیا کاش انکل اگر آپ حاریب کے اس درد بھرے لمحے میں اسکے ساتھ ہوتے تو شاید وہ آپ کو معاف کردیتا۔۔۔۔۔حسیب نے فون کے جانب دیکھ کر افسوس سے کہا

   0
0 Comments