جو غیر سے
جو غیر سے بہم تجھے کل دیکھتا تھا میں
صد بار روزِ حشر سے گو مل رہا تھا میں
دیکھا نہ وصل میں اسے ، یعنی خوشی کا جوش
دامن سے چشمِ تر کو ہی بس پونچھتا تھا میں
در سے نہیں ، اٹھایا مجھے تو نے تخت سے
جب تک ترا فقیر تھا ، اک بادشا تھا میں
کافر ہوا تھا تیرے لۓ ہی ، شہِ بتاں
دن رات بس تجھی کو تو ہی پوجتا تھا میں
آتش پرست پھر رہا تھا گلیوں میں جو اک
وہ میں تھا ، ہجر میں ترے کل جل رہا تھا میں
سرمہ بھری نگاہ سے دیکھا نہ تو نے کل
اپنی سیاہی بخت کی پر دیکھتا تھا میں
آتا ہے پھر سے ہاتھ میں شمشیر کو لئے
اب تک نہ دل کے ٹکڑوں کو یکجا کیا تھا میں
زلفِ صنم کی دیکھ لی ہے جلوہ گستری
ورنہ تو تیرِگی سے بہت بھاگتا تھا میں
اے *رند* ان کی سادگی نے کیا بنا دیا
کل تک تو زاہدوں میں بہت پارسا تھا میں