Add To collaction

انصاف

بغداد خلیفہ کی حکومت تھی۔ ایک دن اس کی حکومت میں پانچ درندوں نے ایک لڑکی کا بلاتکار کر دیا۔ لڑکی کی حالت بہت خراب تھی۔ اسے ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔ خاندان نے انصاف کے لئے گزارش کی۔ 


انصاف کے لئے گزارش خلیفہ تک پہنچی۔ خلیفہ نے ایک انصاف پسند منصف کو تہکیکات میں لگایا اور کہا کہ اس واقعے کو ایسا انساف دو کہ لوگ یاد رکھیں، ایسا راستا اپناو کہ اپنی حکومت میں ایسا واقعہ دوارا نہ ہع۔


خلیفہ کا آدیش پاکر منسف تہکیکات میں جٹ گئے۔ سب سے پہلے وہ اس لڑکی سے جاکر اسپتال میں ملے، وہ بری طرح تکلیف میں تھی، انہوں نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا، "بیٹی میں تیرے والد کی ترح ہوں تو مجھ میں اپنے والد کو دیکھ، میں جو بھی سوال پوچھوں تو بنا ڈرے انکا جواب دے۔" 


لڑکی کو تسلی ہوئی اور اسے کچھ سکون ملا۔  منصف نے کہا کہ جہاں یہ واقعہ ہوا وہاں لوگوں کی نقل و حرکت کس فاصلے پر تھی؟


 لڑکی نے کہا اردگرد لوگوں کا ہجوم تھا۔


 منصف نے کہا تو تم نے شور نہیں کیا؟  

لڑکی نے کہا میں بہت روئی۔ 


منصف نے کہا کیا تم بتا سکتی ہیو کہ پولیس کا پہرہ وہاں سے کتنا دور تھا؟  

لڑکی نے کہا، "پولیس آس پاس نہیں تھی، 

پولیس چوکی تقریباً آدھا کلومیٹر دور تھی۔"


میں چیخی اور زور زور سے چیختی رہی لیکن کوئی میری مدد کو نہیں آیا۔  پانچ بھیڑیے مجھے روندتے رہے۔"


 یہ کہہ کر لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔  منصف نے اسے تسلی دی۔

   

منصف اپنی ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے۔  انہوں نے لڑکی کو وہاں لانے کا انتظام کیا۔  وہاں پہنچ کر منصف نے کہا کہ اب تم جتنی زور سے چلائی تھی ویسے ہی چلاکر بتاو۔


منصف نے اپنے آدمیوں کو آدھا کلومیٹر، 1 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑا کر دیا کہ لڑکی کی چیخ کہاں تک پہنچتی ہے، اور کون اسے سن سکتا ہے؟


 لڑکی کی چیخ تقریباً آدھا کلومیٹر دور تک سنی گئی۔  منصف نے اپنے ہجوم میں دکانوں اور باقاعدہ حاضرین کو آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر جمع کیا۔


 صرف ایک سوال کیا کہ ’’جن لوگوں نے جرم کو انجام دیا ان کے نام اور سراغ بتائیں، ورنہ انکی جگہ سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں‘‘۔


مایوسی سے کچھ بھی کر لیتے!!


 لوگوں نے مشکوک افراد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات دینے کی کوشش کی۔


 پولیس والوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا!


 پولیس والوں نے فوراً ایکشن لیا اور اپنی غلطی سدھارتے ہوئے کہا کہ میں نے چیخ سنی تھی لیکن ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ چیخ کہاں سے آ رہی ہے اور وہاں کیا واقعہ ہو رہا ہے؟


مرتا کیا نہ کرتا!!


 لوگوں نے مشکوک افراد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات دینے کی کوشش کی۔


 پولیس والوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا گیاا!


 پولیس والوں نے فوراً ایکشن لیا اور اپنی غلطی سدھارتے ہوئے کہا کہ میں نے چیخ سنی تھی لیکن ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ چیخ کہاں سے آ رہی ہے اور وہاں کیا واقعہ ہو رہا ہے؟


معلومات کے مطابق پانچوں شرارتی لڑکوں کو مختلف مقامات سے پکڑ کر سخت پوچھ گچھ کی گئی۔


 لڑکی کے سامنے لایا گیا تو لڑکی نے اسے پہچان لیا۔


 منصف کا انصاف کرنے کا طریقہ کارگر ثابت ہوا۔


 تمام مجرموں کو ایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا گیا۔


جرم ثابت ہونے کے فوراً بعد پانچوں مجرموں کو اسی جگہ رسی سے باندھ دیا گیا جہاں انہوں نے جرم کیا تھا اور لوگوں سے کہا کہ جوتا، چپل، اینٹ، پتھر جو بھی ہاتھ میں آئے مارو، ان پر تھوکو۔ مار مار کر ادھمرا  کر دو۔ ایسا ہی کیا گیا۔اسکے بعد پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی، یہ خوفناک منظر دیکھ کر لوگ اندر ہی اندر کانپ اٹھے۔


 ایسا اس لیے کیا گیا کہ اتنا خوف ہو کہ لوگ عبرت پکڑیں، ایسا واقعہ کرنے سے پہلے کوئی بھی شخص دس بار سوچے کہ نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟


سبق:- عدالتی نظام میں انصاف حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، تبھی انصاف کی مثال قائم ہو سکتی ہے۔  غلطیوں کو بار بار نہیں دہرانا چاہیے، اس کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔  لاپرواہی پالیسی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔


 مصنف- سریتا سریواستو "شری"

 دھول پور (راجستھان)


   19
1 Comments

Sarita Shrivastava "Shri"

15-Jul-2023 07:55 PM

👍👍

Reply