آفس کا پہلا دن
جہان کی حیا ۔۔
آفس میں اُس کا آج پہلا دن تھا اور وہ خوب بن سنور کر آفس کے لیے تیار ہو رہی تھی ۔پنک کُرتی اور فیروزی لہنگے کے نیچے یلو جوگر پہنے وہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔ اُس نے قد آور آٸینے کے سامنے خود پر نظر ڈالی تو شرما گٸی ۔وہ بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی ۔
امی کی نظر پڑی تو اپنی بیٹی کی نظر اُتارنے بیٹھ گٸی ۔ ”میں لیٹ ہو جاوں گی امی اور آج پہلا دن ہے میرا آفس میں “ اُس نے ماں سے التجا کی ۔
ارے چپ کر کے بیٹھو نہیں ہوتی لیٹ ۔ماں نے پیار سے ڈانٹ دیا ۔ آج میری بیٹی کسی دلہن سے کم نہیں لگ رہی اس لیے بنا نظر اُتارے نہیں جانے دوں گی ۔
وہ جانتی تھی امی جس چیز کا کہہ دیں وہ کر کے ہی چھوڑتی ہیں اس لیے چپ چاپ وہی بیٹھ گٸی ۔
امی نے پہلے سرخ مرچوں کی دُھونی دُکھا کر اُس کے سر سے واری اور توے کی سیاہی لے کر اُس کے ماتھے پے لگا دی ۔جا بیٹی تجھے رب دیاں رکھاں ۔۔ ماں نے حیا کو رخصت کرتے ہوٸے دعا دی ۔ حیا بُرا سا منہ بنا کر آفس کے لیے نکل گٸی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر مجھے دس دن کے لیے چھٹی چاہیے ۔مان قلندرکے منہ سے چھٹی کا سُن کر اُس کے آفیسر حیران ضرور ہوٸے مگر وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ مان کو چھٹی کس لیے چاہیے ۔
سر میں گاوں جانا چاہتا ہوں ۔ میری خالہ کے منڈے کا ویاہ ہے ۔ مان قلندر نے وجہ بتاتے ہوٸے کہا ۔
اُس کے لیے دس دن جانا ضروری ہے ۔ویاہ تو دو دن میں ختم ہو جاتا ہے جہان ۔آفیسر نے مان کو مخاطب کرتے ہوٸے کہا ۔
سر شادی کو ابھی آٹھ دن باقی ہیں مگر خالہ نے شادی کی ساری زمہ داری میرے اوپر لگا دی ہے اس لیے میرا آج ہی جانا ضروری ہے ۔ مان قلندر نے وضاحت دیتے ہوٸے کہا ۔
اوکے مان ۔۔۔مگر یاد رکھنا گیارویں دن تمھیں یہاں ہونا چاہیے ۔۔تمھیں ایک نٸے مشن پے روانہ کرنا ہے ۔
جی سر میں حاضر ہو جاوں گا ۔۔یہ کہہ کر وہ گھر آ گیا اور اُسی دن گاوں کے لیے نکل گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آفس سے نکلی تو بادل گرج رہے تھے ۔وہ لہنگا کرتی سنبھالتی گاڑی میں بیٹھ گٸی ۔ پچھلے دو دن سے موسم خراب چل رہا تھا ۔بارش کا کچھ بھروسہ نہیں تھا کہ کب آ جاٸے ۔ گاڑی لے کر وہ روڈ پے نکل آٸی ۔ اُس کا ارادہ تھا وہ کے ایف سی سے کچھ لے کر گھر جاٸے گی مگر راستے میں ہی امی کی کال آ گٸی ۔۔
سنو بیٹی میں نے تمہارے لیے تمہارے فیورٹ ٹینڈے بناٸے ہیں اس لیے کھانا گھر آ کر ہی کھانا ۔
اُس نے جی امی کہہ کر گاڑی گھر کی طرف موڑ دی ۔
ٹنڈے کھاتے ہوٸے اُس کی امی نے اُس سے موسم کی خرابی کی بات کی ۔
دیکھو بیٹی میری دینو سے بات نہیں ہو رہی فون پے ۔۔ میں چاہتی ہوں کہ تم کسی دن جا کر اُس سے مل آو اور گندم کی بھی خیر خبر لے آو ۔۔وہ جی امی کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گٸی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ گیا میرا بیٹا ۔۔خالہ مان قلندر کو دیکھتے ہی خوشی سے پھولے نا سما رہی تھی ۔
خالو مان قلندر کو لے کر کھیتوں میں چلے آٸے ۔
پتر موسم کا کچھ اعتبار نہیں کہ کب بارش آ جاٸے اور اوپر سے گندم بھی تیار ہو چکی ہے ۔ اس سے پہلے کہ بارش کی وجہ سے فصل کا نقصان ہو میں نے سوچا ہے کہ آج ہی کٹاٸی شروع کر دیتے ہیں ۔ خالو مان کو درانتی پکڑاتے ہوٸے گویا ہوٸے ۔
تھری پیس سوٹ پہنے ہاتھوں میں درانتی پکڑے وہ کسی ریاست کا راجکمار لگ رہا تھا (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه .. یہ ناول لکھنے والے بھی ناں حد کر دیتے ہیں ۔۔خیر سانوں کی )
وہ جانتا تھا کہ چار ایکٹر گندم کی کٹاٸی اُس کے لیے ایک دن کا کام ہے ۔اُس نے خالو کو گھر جانے کا کہا اور خود گندم کی کٹاٸی میں لگ گیا ۔
شام تک وہ چار ایکٹر کٹاٸی کر کے گھر پہنچا تو سارے گاوں میں اُسی کے چرچے تھے ۔
خالو کے گھر کے باہر آدھا گاوں اکٹھا تھا جو کہ چاہتا تھا کہ جہان کے ہاتھوں گندم کی کٹاٸی کروا سکے ۔ مان نے خالو کے مشورے کے بعد فی ایکڑ آدھا بوری پے ہامی بھر لی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس رات آندھی کے ساتھ ساتھ بہت زور کی بارش ہوٸی تھی اور ابھی تک جاری تھی ۔ وہ اسی وجہ سے آفس نہیں جا سکی ۔ اُس کی امی دینو کو بار بار فون کر رہی تھی مگر فون لگ ہی نہیں رہا تھا ۔آفس کے کام کی وجہ سے وہ دینو سے نہیں مل سکی تھی اور اب اُس کی امی کو بہت فکر ہو رہی تھی ۔اُس کی امی نے بڑی محنت کے بعد گندم کے دو ایکٹر اپنے ہاتھوں سے لگاٸے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بارش کی وجہ سے گندم کا بُرا حال ہو گیا تھا ۔
اُس نے امی سے کہہ دیا کہ موسم کچھ بہتر ہوتے ہی وہ دونوں جا کر گندم دیکھ آٸیں گی مگر بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ ۔۔
عصر کے بعد بارش رکی تھی مگر اب اُس کی امی نے جانے سے منع کر دیا کہ اب وقت بہت ہو گیا ہے کل وہ اکیلی ہی چلی جاٸیں گی ۔۔
رات کے ایک بجے وہ گہری نیند میں تھی جب دروازے پے گھنٹی ہوٸی ۔
اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟ اُس نے خود سے ہمکلامی کرتے ہوٸے دروازہ کھول دیا ۔
سامنے مان قلندر تھا ۔وہ ٹرالی ٹریکٹر بھی ساتھ لایا تھا جس میں گندم کی بوریاں رکھی ہوٸی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے اُن کے اوپر ترپال بھی ڈال کے لایا تھا ۔
اُس نے برستی بارش میں کیسے اُن کی گندم کی کٹاٸی کی تھی اور پھر کیسے دانے بوریوں میں بھرے تھے یہ کہانی الگ تھی جس کے بارے میں ناول لکھنے والے بھی خاموش ہیں مگر وہ جانتی تھی کہ مان قلندر وہ ہے جو کبھی بھی کہیں بھی اور کیسے بھی اُس کی خاطر پہنچ جاتا ہے ۔
ناول کی کہانی سے اقتباس ۔۔ 😢😢😢
Yusuf
19-Sep-2023 12:55 PM
🥰🥰
Reply