پہلی نظر
پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 6
"بلوچ سائیں باہر کوئی لڑکی آئی،کہتی نمل بی بی سے ملنا اُنکی دوست ہے،افسوس کرنے آئی۔۔۔۔۔۔۔"گارڈ کے اطلاع دینے پر بلوچ نے گیٹ کی طرف دیکھا جہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ "ٹھیک ہے جانے دو اسے اندر۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر گارڈ سر ہلا کر چلا گیا۔وہ لڑکی اندر کی طرف جاتی راہداری کی طرف مُڑی جہاں سامنے سے جونیجو آ رہا تھا اُسے دیکھ کر وہ رُکی۔ "ایکسیوزمی مُجھے نمل سے ملنا ہے کیا آپ مُجھے اُس کے روم تک گائیڈ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔" "جی شیور۔۔۔۔۔"وہ اُس کے ساتھ چل دیا راستے میں اُنکو امتل بلوچ ملی۔ "ہائے کیسی ہیں آپ امتل۔۔۔۔۔۔"وہ لڑکی خُوش اخلاقی سے بولی تو امتل نے اُسے پہچاننے کی ناکام کوشش کی۔ "صوری پر آپ کون۔۔۔۔۔۔" "میں نمل کی دوست ہوں،آپ سے مُلاقات تو ہوئی تھی کالج میں۔۔۔۔۔۔" "مُلاقات۔۔۔۔۔۔"وہ زہن پر زور دینے لگی جبکہ تب کا خاموش کھڑا جونیجو بولا۔ "آپ نمل کے کمرے میں جائیے باقی بعد میں۔۔۔۔۔۔"وہ لڑکی تشکرانہ نگاہوں سے دیکھتی چلی گئی۔ "آپ چائے پلا دیں تو مہربانی ہو گی۔۔۔۔۔۔"امتل بلوچ سے کہتا وہ اسے بے تحاشہ خُوش کر گیا۔ "شیور،میں بس آئی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتی ہوئی چائے بنانے چلی گئی۔ جونیجو وہی راہدری سے گُزرتا لان میں آیا تبھی اُسے ایک شور سا سُنائی دیا وہ قادر بلوچ کو دیکھتا ہوا اُنکے ساتھ ہی ہال میں آیا جہاں نسیماں بیگم پریشان سی دوڑتی آ رہی تھیں۔ "نمل کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے،بے ہوش ہو گئی ہے،جلدی سے گاڑی نکالیں اُسے ہسپتال لے کر جانا ہے۔۔۔۔۔۔" "کیا،کیا ہوا میری بچی کو،گُھمن گاڑی نکالو۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ یکدم پریشان ہوا تھا بھاگ کر نمل کے کمرے میں گیا جہاں وہ بے سدھ پڑی ہوئی تھی اُسے اپنے بازؤؤں میں اُٹھاتا باہر گاڑی تک لایا۔ "بابا میں بھی ساتھ چلوں۔۔۔۔۔۔"امتل بلوچ بولی۔ "نہیں تم گھر رہو،پریشان نہ ہو رب سائیں خیر کرے گا،شہباز گھر پر ہی ہے اُسے جا کر اُٹھا دو سو رہا وہ،میں اور تُمہاری ماں جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔"بلوچ کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھا دوسری طرف نسیماں بیگم بھی بیٹھ گئیں تو گُھمن نے گاڑی سٹارٹ کر دی اُن کے پیچھے دو حفاظتی گاڑڈز کی گاڑیاں بھی رونہ ہو گئیں۔امتل بلوچ شہباز بلوچ کے کمرے کی طرف بھاگی جبکہ جونیجو نے نظریں ادھر اُدھر دوڑا کر نمل کی دوست کو ڈھونڈنا چاہا جس کو افراتفری میں بلکل فراموش کر دیا گیا تھا۔ "یہ لڑکی کہاں گئی۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی تلاش میں اندر آیا مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہ دی جونیجو کندھے اُچکاتا وہی ہال میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ "بلوچ کی بھتیجی اس پُورے شور کے دوران نظر نہیں آئی حالانکہ وہ تھی بھی نمل بلوچ کے رُوم میں اور نہ صندل بُوا۔۔۔۔۔۔۔۔"یکدم اُس کے دماغ میں اُنکا خیال آیا وہ جلدی سے نمل بلوچ کے کمرے کی طرف بڑھا تبھی کسی نے پیچھے سے پورے زور سے اُسکے سر پر وار کیا تھا کہ اگلے ہی پل وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتا وہی صوفے پر گرا ہوش حواس کھو چُکا تھا۔
"___________________________________"
"ڈاکٹر کیا ہوا میری بیٹی کو۔۔۔۔۔۔"بلوچ ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔ "بلوچ سائیں آپکی بیٹی کو کُچھ نہیں ہوا،کسی نے اُن پر بے ہوشی کی سپرے کی ہے جس کی وجہ سے وہ آدھے گھنٹے کے لئے اپنے ہوش و حواس کھو چُکیں تھیں اب وہ بلکل ٹھیک ہیں آپ اُنہیں گھر لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"ڈاکٹر اپنی بات ختم کرتا چلا گیا جبکہ بلوچ کی سُوئی وہی اٹک گئی۔ "یہ یہ ڈاکٹر کیا کہہ رہا تھا کس نے بے ہوش کیا نمل کو اور کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نسیماں بیگم بھی حیرانگی سے بولیں۔ "یہی تو مُجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کس نے یہ حرکت کی اور کیوں کی یہ کام۔۔۔۔۔۔۔"یکدم بلوچ کی زبان کے ساتھ قدم بھی رُکے تھے۔ "نمل کی دوست،آج سے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تھا اُسے،ہو نہ ہو اُسی کا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "پر کس لئے،نمل کو بے ہوش کرنے کا فائدہ۔۔۔۔۔۔"نسیماں بیگم کے عقل میں شاید ابھی تک یہ بات سما نہیں رہی تھی دوسری طرف بلوچ کُچھ چونکا۔ "ارے بابا یہ تیرے سمجھنے کی باتیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔"کہہ کر اُس نے جلدی سے اپنا فون نکالا اور شہباز بلوچ کا نمبر ڈائل کیا مگر نمبر بند جا رہا تھا پھر امتل بلوچ ،جونیجو حتی کہ گارڈز تک کے نمبرز ٹرائی کئے مگر سب کا ایک ہی جواب۔ "بہت بڑی گیم ہے،جلدی سے نمل کو لاؤ،گُھمن گاڑی نکالو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تیزی سے بولتا باہر کی طرف لپکا اور جب بیس منٹ بعد وہ حویلی پہنچے تو ایک نیا دھچکا ملا جس سے وہ پل کو وہ ساکت رہ گئے۔
"_________________________________" اُسکی آنکھ کُھلی تو اُسے اپنا سر بھاری سا محسوس ہوا سر کو تھامتی وہ دھیرے سے اُٹھ بیٹھی نہ جانے کیوں اُسے کُچھ انجانہ سا احساس ہوا وہ اپنے اطراف میں دیکھتی ششدر سی رہ گئی۔ "یہ یہ کہاں ہوں میں؟۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ چونکتی ہوئی اُٹھ بیٹھی وہ اس وقت بیڈ پر موجود تھی وہ کوئی بہت کشادہ کمرہ تھا جس کے ایک طرف بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل تھا ساتھ ایک دروازہ جو یقیناً واش رُوم تھا اور ساتھ ایک طرف بنا ڈریسنگ رُوم جبکہ دُوسری طرف کُچھ فاصلے پر صوفہ سیٹ رکھا تھا جس کے آگے دیوار پر ایک بڑی سی ایک ای ڈی دیوار میں نصب تھی ساتھ ہی ایک طرف بڑی سی گلاس ونڈو تھی جس کے آگے دو کرسیاں رکھیں تھیں دوسری جانب کمرے کے آگے بنا ٹیرس پرخہ اُٹھتے ہوئی اُس ٹیرس کی طرف بڑھی جہاں سے باہر کا منظر صاف نظر آ رہا تھا یہ سر سبز درختوں کے درمیان بنا ایک بنگلہ تھا جس کے ارد گرد نہ صرف اونچی دیواریں تھیں بلکہ دیواروں پر حفاظتی الیٹکرک باڑ بھی لگائی ہوئی تھی بڑا سا مُختلف پُھولوں اور پودوں سے سجا لان اور ایک طرف پورچ جس میں دو تین قیمتی گاڑیاں کھڑیں تھیں پھر سیاہ لمبی روش اور گرے کلر کا بڑا سا گیٹ جس کے اندر باہر بارودی گارڈز کھڑے تھے۔ "یہ کونسی جگہ ہے،کہاں ہوں میں،میں تو حویلی میں نمل کے پاس اُس کے رُوم میں تھی پھر اُسکی دوست آئی جو مُجھ سے گلے ملی اور پھر،پھر میں یہاں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے دماغ پر زور دینے لگی مگر کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں کیسے آئی؟وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی مگر دروازہ لاک تھا۔ "میں کہاں ہوں،کہیں میں اغوا تو نہیں ہو گئی پر حویلی سے کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کے اُسکی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا تبھی دروازے میں کھٹکا ہوا تھا اور کوئی اندر آیا تھا جسے دیکھ کر اُسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"___________________________________"
"واہ جگو،دل خُوش کر دیا تُم نے۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ اُس کے ساتھ آئی دو لڑکیوں کو دیکھتا مُسکرایا۔ "کہاں تھا نہ سائیں،سب اچھا ہی کرونگا۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں پر بھی مُسکراہٹ تھی۔جبکہ وہ دونوں لڑکیاں خوف سے رو پڑی تھیں۔ "یہ تُم ُمجھے کہاں لائے ہو جگو،مُجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔۔۔۔"اُن میں سے ایک بولی۔ "خُود تو تُم نے بولا تھا ڈارلنگ کے تُم میرے ساتھ اس دُنیا سے کہیں دُور جانا چاہتی ہو تو یہ وہی دُنیا ہے میری رانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کمینگی سے بولتا ایاز بلوچ کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا۔ "بہت خُوب،بہت بہترین کھلاڑی ہو اس کھیل کے۔۔۔۔۔۔۔"وہ سہرانے لگا۔ "لے جاؤ انکو۔۔۔۔۔۔۔"ان لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتا وہ اپنے آدمی سے بولا جو سر ہلاتا اُن روتیں اور چیختیں لڑکیوں کو لے کر چلا گیا۔ "یہ لو باقی کے پیسے۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ نے اُس کے آگے ہرے ہرے نوٹوں کی کاپی رکھی جسے وہ متاح حیات کی طرح تھام چُکا تھا۔ "اگر ایسے ہی کام کرتے رہو گئے تو راتوں رات عرب پتی بن جاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ نے سگریٹ جلائی۔ "آپ فکر نہ کریں سائیں،آپ جو کہو گئے میں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔" "گُڈ،اب تُم جاؤ باقی تُمہیں کال پہ بتا دُونگا۔۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ کے کہنے پر وہ سلام کرتا چلا گیا۔ "اس پر اب نظر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کام کا آدمی ہے کیونکہ لالچی ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے اپنے پیچھے کھڑے امجد سے کہا جس نے سر ہلایا۔تبھی اُس کے موبائل کی رنگ ٹون بجی قادر بلوچ کا نمبر دیکھ کر اُس نے یس کا بٹن پُش کر کے موبائل کان سے لگایا۔ "جی بابا سائیں۔۔۔۔۔۔۔"دُوسری طرف کُچھ ایسا کہا گیا تھا کہ وہ چونک کر اپنی سیٹ سے اُٹھا۔ "کیا،ایسا کیسے،جی میں آ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے فون بند کیا۔ "امجد گاڑی نکالو اور جو مال آج سپلائی کرنا تھا اسے کل تک کینسل کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔"امجد سے بولتا باہر کی طرف لپکا۔
"_________________________________"