Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 7

"تُم۔۔۔۔"پرخہ اُسے دیکھ کر حیرانگی سے بولی جو مُسکراتی ہوئی اس کے قریب آئی۔ "تُم تو نمل کی دوست ہو نہ،مُجھے یہاں کیسے کیوں لائی ہو۔۔۔۔۔۔۔" "میم میرا نام علینہ ہے،آپکو بُھوک لگی ہے تو کھانا لاؤں،آپ مہربانی کر کے بتا دیں کہ آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ تابع داری سے بولتی اسے حیرت زدہ کر گئی۔ "تُم کون ہو،مُجھے یہاں کیوں لائی ہو۔۔۔۔۔۔" "میں سر کی پرسنل سیکٹری ہوں،آپکو یہاں سر کے کہنے پر لایا گیا ہے،پلیز جلدی سے بتائیے کہ آپکو کیا پسند ہے تا کہ میں وہی کُچھ بنواؤں ورنہ سر ناراض ہونگے۔۔۔۔۔۔" "کون،کون سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ سر کے نام پر اٹکی۔ "سر مریام شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں سے نکلنے والا نام اُسے نہ صرف چونکا گیا بلکہ وہ بے یقینی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے لگی۔ "مریام۔۔۔۔۔۔"اُس کے ساکت لبوں میں یہ نام پُھڑپُھڑا کر رہ گیا۔ "کیا تُم،تُم سچ کہہ رہی ہو مریام،مریام حسن شاہ کے کہنے پر۔۔۔۔۔۔"شاید ابھی بھی اُسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ "جی میم،سر مریام شاہ،آپ ایسا کریں فریش ہو جائیں میں آج اپنی پسند کا کھانا لے آتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔"علینہ کہتی ہوئی جانے لگی کہ پھر پیچھے مُڑی۔ "پرخہ میم کیا صندل بُوا سے آپ ملنا چاہے گئیں وہ کب سے آپکا پوچھ رہیں۔۔۔۔۔۔"علینہ کی بات پر وہ حیرت اور خُوشی سے بولی۔ "صندل بُوا بھی یہاں ہیں،آپ اُنکو یہاں بھیج دیں۔۔۔۔۔۔۔" "اوکے میم۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے جانے کے بعد پرخہ پُورے دل سے ہنس دی۔ "مریام،آپ نے اپنا وعدہ پُورا کر دیا،میں آپکو یاد رہی اُسکا مطلب ہمارا رشتہ بھی آپکو یاد رہا۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں پر خُوشگوار مُسکراہٹ آئی وہ پُرسکون ہو کر مُنہ دھونے کے خیال سے واش رُوم کی طرف بڑھی۔

"__________________________________"

قادر بلوچ جب حویلی پہنچا تو ہال کا منظر دیکھ کر ساکت ہوا جہاں جونیجو صوفے پر بیہوش پڑا تھا اُس کے سر سے خُون کی بوندیں ٹپک رہی تھیں جس کو دیکھ کر اُنہوں نے گُھمن کو اشارہ کیا جس نے گارڈ کی مدد سے اُسے اُٹھا کر کمرے میں لایا اور ڈاکٹر کو کال کرنے لگا باہر قادر بلوچ ہال سے گُزرتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا پر اُس کے قدم رُکے تھے ساتھ نسیماں بیگم اور نمل کے بھی اُس منظر کو دیکھ کر جہاں امتل بلوچ کو رسیوں سے باندھ کر سیڑھیوں کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ "میری بچی۔۔۔۔۔۔۔"نسیماں بیگم اور نمل اُسکی طرف لپکیں جو بیہوش ہو چُکی تھی۔ قادر بلوچ اُنکو اسے آزاد کروانے کا بول کر اُوپر شہباز کے کمرے میں آیا جہاں وہ بھی بیہوش پڑا تھا۔ "شہباز،اُٹھو۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ نے اُسکے گال کو تھپتھپایا بھی مگر وہ ٹس مس نہ ہوا۔ "یہ سب کس نے،مریام شاہ۔۔۔۔۔۔۔"یہ نام زہن میں لیتے ہی وہ جلدی سے نیچے آیا۔ "مٹھی،صندل،کہاں ہو تُم لوگ۔۔۔۔۔۔۔"وہ بُلا نہیں بلکہ چلا رہا تھا مگر دونوں میں سے کوئی بھی نہ آیا وہ کچن کی طرف گیا جہاں مٹھی بھی کم بیش ویسی ہی حالت میں تھی۔ "کہاں مر گئی صندل اور وہ لڑکی،سرمد جلدی آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "جی سائیں۔۔۔۔۔۔"وہ ہاتھ باندھے دوڑا چلا آیا۔ "جا صندل بُوا اور اُس لڑکی کو بُلا کر لا،جلدی جا۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کے اندر تک بے چینی اور غُصہ اُترنے لگا۔ "یہ سب کیا ہے قادر،امتل اور شہباز بھی بیہوش ہے۔۔۔۔۔۔۔"نسیماں بیگم پریشان سی اسکے قریب آئی۔ "اس وقت میرا دماغ خراب نہ کرنا تم،جاؤ امتل اور شہباز کو ہوش میں لانے کی کوشش کرو وہی سب بتائیں گئے کہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ اُسے کہتا سرمد کی طرف متوجہ ہوا جو کہہ رہا تھا۔ "سائیں وہاں تو نہ صندل بُوا ہے نہ لڑکی۔۔۔۔۔۔" "کیا بکواس کر رہا ہے تُو،سب جگہ دیکھا کیا۔۔۔۔۔۔۔"طیش میں اُسکا گریبان پکڑے چلایا۔ "جی سائیں،سب دیکھا کہیں نہیں وہ۔۔۔۔۔۔" "جا پھر سے دیکھ،پوری حویلی میں تلاش کرو جلدی۔۔۔۔۔۔۔"ایک جھٹکے سے اُسے چُھوڑا کہ وہ دُور جا گرا۔ "حرام زادے اکھٹے کیے ہوئے میں نے،کیسے ہو گیا یہ سب،اتنی سیکورٹی کے باوجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔"غم و غُصے کی کیفیت میں مُبتلا ہوتا وہ ادھر سے اُدھر چکر کاٹنے لگا۔تبھی اُس کے سیل کی یوں بجی تو بنا دیکھے ہی یس کا بٹن پُش کر کے سیل کان سے لگایا۔ "ہار مبارک ہو بلوچ۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی مُسکراتی آواز اس کے کانوں میں پڑی بلوچ کی رگیں تن گئیں جس بات کا اسے شک تھا اُسکا یقین ہوتے ہی وہ غرایا۔ "تُم نے سانپ کی پٹاری میں ہاتھ ڈال کر اپنی موت کو آواز دی ہے تیری تو۔۔۔۔۔۔۔" "نہ نہ گالی نہیں،غم و غُصے میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کرتے بلوچ،اور آج تو پھر میرے لئےبہت بڑا اور خُوشی کا دن کوئی مبارک کوئی دُعائیہ کلمات میرے لئے مُنہ سے نکالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے جلانے کے فُل موڈ میں تھا اور وہ جل کر خاک بھی ہو گیا۔ "اتنا مت اتراؤ مریام شاہ مُنہ کے بل گر گئے۔۔۔۔۔۔۔" "ابھی تو تُمہارے مُنہ کے بل گرنے کا مزہ لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"چہکتی آواز بلوچ کا خُون جلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہی تھی۔ "تُم نہیں جانتے کہ اس کا انجام کیا ہوگا،تُمہارے بُرے دن شُروع مریام شاہ،مت بھولنا کہ تُم ہمیشہ ایک قدم مُجھ سے پیچھے رہے ہو اور اب میری باری ہے،ایسی موت دُونگا کہ تُمہارے سگے بھی پہچان نہیں پائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کا بھڑکتا لہجہ تھا۔ "میں تیار ہوں بلوچ،پر اسکے لئے تُمہیں مریام شاہ جیسا دماغ رکھنا ہوگا جو تُمہارے پاس ہے نہیں اس لئے تم مجھے ایسی موت دینے کی خواہش دل میں لئے ہی اُوپر جاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کا لب و لہجہ بہت پُرسکون تھا اور طنزیہ تھا۔ "تُم۔۔۔۔۔۔۔" "ایک منٹ میری سُن لو پھر مناتے رہنا اپنا غم،ایک بدلہ تو پُورا ہو گیا اب رہ گیا دُوسرا بدلہ وہ بھی بہت جلد پُورا کرونگا اور تب مبارک باد لینے کال نہیں کرونگا بلکہ تُمہارے روبرو آؤنگا،اب جاؤ جا کر اپنے بچوں کو ہوش میں لانے کی کوشش کرو،اور ہاں میری مانو تو اپنا سارا سیکورٹی سسٹم چینج کر دو میں سارا ہیک کر چُکا ہوں،بائے مائے ڈیر بلوچ،زیادہ سٹریس مت لینا ہارٹ اٹیک ہونے کا بھی خطرہ ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی بات مکمل کرتا قہقہ لگاتا کال بند کر چُکا تھا بلوچ کی گرفت اُس کے موبائل پر سخت ہوئی اور غُصے سے اُسکی رگیں تن گئیں اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مریام شاہ کا یہ وار بہت کاری تھا کہ وہ بلبلا کر رہ گیا تھا۔

"___________________________________"

"آخر یہ سب مُمکن کیسے ہوا بابا سائیں،اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود یہ سب ہو گیا......."اس وقت نور حویلی کے ہال میں سب برجمان تھے ایاز بلوچ ادھر سے اُدھر ٹہلتا بولا۔ "اُسی لڑکی کی وجہ سے،جس نے پہلے نمل کو بیہوش کیا،پھر امتل کو بیہوش کر کے باندھا،جونیجو کے سر پر وار کیا اور پھر مُجھے اپنی باتوں میں اُلجھا کر بے خبر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ کے کہنے پر ایاز بلوچ نے بھی سر ہلایا۔ "ہاں سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی یہی سب آیا ہے پر ایک لڑکی اتنا سب کُچھ اکیلی کیسے کر گئی کوئی تو ساتھ ہوگا اُسکا۔۔۔۔۔۔۔۔" "تم مریام شاہ کو جانتے نہیں بڑی اُلٹی کھوپڑی کا بندہ،بہت بڑی چال کھیل گیا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ سے یہ مات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ "آپ ہی اُسے لٹکا کر بیٹھے ہیں ورنہ میرے پسٹل سے نکلی ایک گولی کی مار ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ کا خُون زیادہ ہی پُرجوش تھا۔ "اتنا آسان نہیں ہے یہ سب،مریام شاہ کو مارنا اگر اتنا آسان ہوتا تو اس وقت میں یوں مات کھا کر نہ بیٹھا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔" "تو اب کیا کرنا ہے بابا سائیں،اب یوں تو اُسے جشن منانے نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار شہباز بلوچ کہہ اُٹھا۔ "وہ سب مُجھ پر چھوڑ دو،تُم لوگ بس اپنے اپنے دھندوں پر توجہ دو کہ کسی بھی طرح مریام شاہ کے ہاتھ کوئی ثبوت نہ لگنے پائے،اب جاؤ رات بہت ہو چُکی آرام کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کی تاکید پر سر اثبات میں ہلاتے وہ دونوں چلے گئے اُنکے جانے کے بعد بلوچ نے راٹھور کا نمبر ملایا۔

"__________________________________"

"اس لڑکے کے بارے مُجھے ساری انفارمیشن چاہئیے اسلم،کل تک۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی عارف نے ایک تصویر انسپکٹر اسلم کی طرف بڑھائی۔ "جی سر۔۔۔۔۔"وہ سیلوٹ مارتا چلا گیا۔ "کون ہے یہ لڑکا،جسے سب خبر۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بُڑبڑایا پھر اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوا جہاں کوئی پرائیوٹ نمبر جگمگا رہا تھا۔ "اسلام و علیکم۔۔۔۔۔۔۔" "اس وقت تو میرا تُم پر سلامتی بھیجنے کا کوئی موڈ نہیں ایس پی۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے ایک کٹیلی آواز اُسکی سماعتوں میں اُتری۔ "کون۔۔۔۔۔۔"وہ پہچان نہ پایا۔ "وہی جس کے بارے میں تُمہیں انفارمیشن چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"طنزیہ لب و لہجے پر ایس پی عارف دو پل کو جامد ہوا۔ "اب یہ سوچ رہے ہو گئے کہ مُجھے کیسے پتہ چلا تو سوچو پھر کیونکہ تُمہاری مدد کرنے کا اب میرا کوئی ارادہ نہیں،تُم اُنکے بارے میں جاننے کے بجائے میرے بارے جاننے کو کیوں اتنے بے چین ہو رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔" "بات یہ نہیں دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم وہ سب کیسے جانتے ہو،بارہ سال پہلے تو تُم لگ بھگ تیرہ چودہ سال کے ہو گئے تو اتنا سب کیسے۔۔۔۔۔"ایس پی عارف کے زہن میں تب کا مچلتا سوال لبوں پر آیا۔ "تُم میری عمر پر مت جاؤ،اور مُجھے سب کیسے پتہ لگا تو یہ بھی کسی دن تُمہارے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے بتا دُونگا،اب تم بس اُس پر فوکس کرو جو کام میں نے تُمہیں دیا تھا،تین بندوں کے نام دئیے تھے شاید۔۔۔۔۔۔۔" "مُجھے بس بلوچ کے بارے علم ہے باقیوں کے نام تو تُمہارے مُنہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔" "جھوٹ تو بلکل نہیں چلے گا میرے ساتھ ایس پی۔۔۔۔۔۔۔"وہ سپاٹ انداز میں بولتا اسکی بات کاٹ گیا جس پر ایس پی کُچھ خفیف سا ہوا۔ "دیکھو میں سچ کہہ رہا ہوں،بس ناموں سے میں کیسے اُنکے بارے کُچھ جان سکتا ہوں،وہ بھی اُدھورے نام حاکم اور راٹھور۔۔۔۔۔۔۔"اس نے پھر سے اُسے ٹالنے کی کوشش کی۔ "پھر پولیس میں کیا کر رہے ہو اگر تُم دو بندے نہیں ڈھونڈ پا رہے۔۔۔۔۔۔۔" "میں کوشش کرتا ہوں پھر سے،میرے خیال مُجھے بلوچ کے بارے میں سب جاننا ہوگا پھر اُنکا پتہ چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی کی بات پر وہ ُمسکرایا۔ "کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے تُم بلوچ کے بارے میں کُچھ نہیں جانتے،اینی ویز اوکے دو دن کا ٹائم ہے دیکھ لو کوشش کر کے۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہی فون بند ہو گیا۔ایس پی نے بے بسی سے اس پرائیوٹ نمبر کی طرف دیکھا جو ٹریس بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ "راٹھور اور حاکم،کیا کسی کو انکا پتہ ہوگا کہاں رہتے ہیں کون ہیں کُچھ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی پُر سوچ نظریں سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر ٹکیں۔

"__________________________________"

"یہ لو گرم دُودھ اس کے ساتھ میڈیسن لو۔۔۔۔۔۔۔"عامرہ خاتون ٹرے میں دُودھ کا گلاس اور میڈیسن رکھ کر لائیں۔جونیجو دُودھ کا گلاس پکڑ کر دو ٹیبلیٹ مُنہ میں ڈال کر گلاس لبوں سے لگا گیا۔ "اب تو درد نہیں ہو رہا۔۔۔۔۔۔۔"عامرہ خاتون نے اُس کے سر پر بندھی سفید پٹی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "بلکل بھی نہیں،آپ پریشان نہ ہوں اور سو جائیں جا کر میں بھی اب آرام کرونگا۔۔۔۔۔۔"اُن سے نرمی سے بولا۔ "پریشان کیسے نہ ہوں میں،ماں ہوں تُمہاری تُمہیں تکلیف ہوتی ہے تو درد مجھے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"انکی آواز بوجھل ہوئی۔ "اماں ریلکیس،میں اب بلکل ٹھیک ہوں یہ پٹی بھی کُچھ دن تک اُتر جائے گی ڈونٹ وری۔۔۔۔۔۔"اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ہولے سے دبانے لگا۔ "کُچھ پتہ چلا بلوچ کی بھتیجی کا،کون لے گیا اُسے۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر وہ کُچھ دیر خاموشی سے اُنکو دیکھتا رہا پھر بولا۔ "مریام شاہ۔۔۔۔۔۔۔" "کیا پر وہ کیوں،اُسکی دُشمنی تو بلوچ کے ساتھ تھی نہ پھر اُس بچی کا کیا قصور۔۔۔۔۔۔"وہ حیرانگی سے دو چار ہوئیں۔ "وہ مریام شاہ کی بیوی تھی اماں۔۔۔۔۔"وہ ہولے سے بولتا اُنکو ساکت کر گیا۔ "مُجھے بھی کُچھ دن پہلے پتہ چلا،اسی وجہ سے انکی دُشمنی چل رہی ہے،اچھا اب میں آرام کرنے لگا ہوں آپ بھی اب آرام کریں۔۔۔۔۔۔"اُنکے اور سوالوں سے بچتا وہ بولا تو وہ بھی سر ہلا کر چلی گئیں۔اُن کے جانے کے بعد وہ گہری سانس بھرتا اُٹھا اور موبائل ہاتھ میں لئیے وہ کمرے سے باہر نکلتا باہر لان میں آیا اور موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرتا کان سے لگا گیا۔ "مُجھے نہیں پتہ تھا کہ تُم مُجھ پر وار کرنے سے بھی گریز نہیں کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی بات پر دوسری طرف زور کا قہقہ لگا تھا۔

•_________________________________

   0
0 Comments