پہلی نظر
پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 9
مریام شاہ سیدھا ایاز بلوچ کے ٹھکانے پر آیا تھا جہاں سے آج رات وہ ساری لڑکیاں بارڈر کے راستے افغانستان بھجوانے والا تھا مریام شاہ نے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر کوئی نمبر ملایا اور سیل کان سے لگا کر دُوسری طرف کال پک کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ "سب کلئیر ہے مریام۔۔۔۔۔۔"دُوسری طرف سے کہا گیا۔ "اور ایاز بلوچ۔۔۔۔۔۔؟اس نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "وہ نہ زندوں میں نہ مُردوں میں۔۔۔۔۔"وہ ایاز بلوچ کےرسیوں سے بندھے وجود کی طرف دیکھتے ہوئے مُسکراکر بولا تو مریام بھی مُسکرا دیا۔ "تُم یہاں سے نکلو اور ہاں جاتے ہوئے ایاز بلوچ کو اُسکی مُشکل سے نکال کر جانا۔۔۔۔۔۔" "وہ کر لونگا میں،تُم اپنا خیال رکھنا مریام،جہاں تُم کھڑے ہو وہاں بہت خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں اس کے لیے تشویش تھی۔ "میری فکر مت کرو،مجھے سب اچھے سے سھنبھالنا آتا ہے۔۔۔۔۔" "شاید تم بُھول رہے ہو اس ٹائم تُمہیں جونیجو سے بھی خطرہ ہے اس لئے اُسامہ کا وہاں ہونا ضروری ہے مریام۔۔۔۔۔؟ "اُسامہ شاہ پیلس ہے اُسکا وہی رہنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہاں وہ ہستی ہے جو مُجھے ان سب سے عزیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کہتے ہوئے کال بند کر دی تو وہ گہرا سانس بھرتا ایاز بلوچ کی طرف متوجہ ہوا جو رسیوں میں جکڑا خُون سے لت پت نیم بیہوشی کی حالت میں سر ایک طرف ڈھلکائے بیٹھا تھا۔ "چہ چہ بیچارہ بلوچ،ابھی تک اپنے ہونے والے داماد کی موت کا غم نہیں بُھولا ہوگا اور مریام شاہ اُسے دُوسرا جان لیوا سپرائز دینے والا ہے۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتا ہوا اسکے قریب آیا اُسکو بالوں سے پکڑ کر چہرہ اُونچا کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اُسکا گال تھپتھپا کر اُسے ہوش میں لانے لگا۔ "کیسے ہیں آپ بلوچ سائیں،معاف کرنا سائیں میں نے تو کہا تھا کہ میرا جینا مرنا آپ کے لیے ہوگا سائیں پر یہ کیا جگو نے آپ کی ہی جان لے لی،بہت بُرا نکلا یہ تو پر کیا کروں سائیں میں کب ایسا چاہتا تھا یہ تو مریام شاہ نے ایسا کرنے کو بولا بہت ظالم آدمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھیں مُسکرا رہی تھیں۔ "تُم نے،تُم نے اچھا،اچھا نہیں کیا جگو۔۔۔۔۔۔"ایاز بمُشکل بولا تھا "ہاں جانتا ہوں اچھا نہیں کیا پر اب سب ٹھیک کر دُونگا،ڈونٹ وری میں مریام شاہ تھوڑی ہوں جو اپنے دُشمنوں پر رحم نہیں کرتا میں تو وہ ہوں جو اپنے دُشمنوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ اُن پر رحم کیا جائے،گُڈ بائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جگو نے کہتے ہوئے اپنی جیب سے لائٹر نکال کر آگ کا شُعلہ اُسکی شرٹ کے ساتھ لگایا تھا اگلے ہی پل آگ دہکتی ہوئی اُس کے پُورے وجود کو اپنی لیپیٹ میں لے چُکی تھی سارا کمرہ اُسکی دردناک چیخوں سے گونج اُٹھا جگو نے اُس منظر کی ویڈیو بنا کر بلوچ کے نمبر سینڈ کر دی اور خُود وہاں سے چل دیا۔
"__________________________________"
مریام شاہ موبائل جیب میں رکھتے آگے بڑھا تبھی اُسکی نظر بلوچ پر پڑی جو اپنے آدمیوں کو کُچھ کہہ رہا تھا وہ جلدی سے سائیڈ پر ہوگیا۔ "یہ بلوچ یہاں کیا کر رہا ہے،بلوچ کا یہاں رُکنا جونیجو کے لئے دُرست نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔"مریام نے اپنے موبائل پر میسج ٹائپ کیا اور کسی نمبر پر سینڈ کر دیا اور پھر بلوچ پر نظریں ٹکائے ویٹ کرنے لگا جس کا اثر دو منٹ بعد ہی نظر آ گیا تھا بلوچ بڑی افراتفری کے عالم میں وہاں سے بھاگا جبکہ اُس کے چاروں آدمی جلدی سے اُس کمرے کی طرف بڑھے جہاں لڑکیاں قید تھیں۔ "اُن سب کو بیہوشی کا انجیکشن لگا دیا تھا نہ۔۔۔۔۔۔۔"اُن میں سے ایک دوسرے تینوں سے پوچھنے لگا۔ "میں نے اکرم کو بھیجا تھا لگانے کے لئے پر وہ ابھی تک باہر نہیں آیا۔۔۔۔۔۔"اُس کی بات دو نے کُچھ حیرانگی سے بند دروازے کی طرف دیکھا جبکہ ایک معنی خیزی سے مُسکرایا۔ "لگتا ہے وہ مال بھیجنے سے پہلے اُس مال سے اپنا حصہ وصول کر رہا ہے،ویسے حق تو ہمارا بھی بنتا ہے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔۔"اُس کے ہونٹوں پر کمینی سی مُسکراہٹ تھی جسکا مطلب سمجھ کر وہ تینوں بھی مُسکرائے۔مریام شاہ نے ایک نظر اپنی گھڑی پر ڈالی جہاں اسکے بنائے گئے پلان کا ٹائم ہو چُکا تھا اُس کے قدم اُن کی طرف بڑھنے لگے۔ "اچھا خیال ہے پر اگر یہ مال ہی آپ لوگوں کے ہاتھ میں نہ رہے تو۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی آواز پر چاروں پلٹے اور پھر اسے سامنے دیکھ کر چونک اُٹھے۔ "تُم۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی موجودگی سے حیرت زدہ تھے جو بلیک جینز پر وائٹ شرٹ پہنے جیبوں میں ہاتھ پھنسائے بلکل ریلیکس تھا۔
"_________________________________"
اس وقت لال حویلی میں کہرام مچا ہوا تھا کسی نے بڑی بے دردی سے ایاز بلوچ کے وجود کو آگ میں جلا دیا تھا کہ لاش دیکھنے کے قابل بھی نہ رہی تھی قادر بلوچ جوان بیٹے کی موت پر ساکت سا بیٹھا تھا اُس کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی دُشمن کا اتنا کاری وار ہوا تھا کہ بلوچ کی سمجھنے بوجھنے کی صلاحیت جامد ہو چُکی تھی۔ جونیجو جس وقت حویلی میں داخل ہوا اُس وقت رات کا اندھیرا ہر طرف پھیل رہا تھا وہ راہداری سے مُڑا کہ آگے سے آتی امتل بلوچ کو دیکھ کر رُکا جو آج پہلی دفعہ اسے معقول لباس میں نظر آئی تھی۔ "جونیجو آپ کہاں تھے صُبح سے آپکو پتہ ہے کتنی بڑی قیامت اس حویلی میں آئی،ایاز بھا اب اس دُنیا میں۔۔۔۔۔۔۔"آنسوؤں نے باقی کے الفاظ مُنہ میں ہی روک دئیے۔ "میں بلوچ سائیں کے کام سے کہیں گیا تھا،بہت افسوس ہوا ایاز بلوچ کی موت کا۔۔۔۔۔۔"اُسکا چہرہ بلکل سپاٹ تھا افسردگی کا کوئی تاثر نہیں اُبھرا تھا۔ "پتہ نہیں مریام شاہ چاہتا کیا ہے ہم سے،اتنی بے دردی سے میرے بھا کو جلا ڈالا،کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "اس سے بھی بڑے ظلم ہوتے ہیں اس دُنیا میں،ویسے بھی مریام شاہ کی ماں کو بھی ایسے ہی جلا کر مارا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہوئے اُسکی آنکھیں نہ جانے کس جذبے کے تحت سُرخ ہوئیں تھیں۔ "پر اُسکی ماں کو میرے بابا سائیں تو نہیں نہ مارا،وہ ہم سے کس بات کا بدلہ لے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر جونیجو نے کندھے اُچکائے "یہ تو آپ کے بابا سائیں ہی بہتر بتا سکتے ہیں مُجھے کیا پتہ،اینی ویز مُجھے بلوچ سائیں سے ملنا ہے میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر ملازم سے بلوچ کا پوچھتا ڈرائنگ رُوم میں آیا جہاں وہ گہرے غم کی کیفیت میں ڈُوبا صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ "آؤ جونیجو۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کی تھکی تھکی آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی وہ کُرسی پر ٹک گیا۔ "بہت افسوس ہوا بلوچ سائیں،بہت بھیانک موت دی ہے کسی نے آپ کے بیٹے کو۔۔۔۔۔۔۔۔" "مریام شاہ جونیجو،مریام شاہ،یہی بندہ میرے خلاف بلوچ کے خلاف چل رہا ہے بنا یہ سوچے کہ بلوچ کے خلاف چلنے کا انجام کتنا بُرا ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتا اور مریام شاہ نے تو اپنی موت کو خُود آواز دی ہے میرے بیٹے کو مار کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں نفرت کے سوا کُچھ نہ تھا۔ "آخر مریام شاہ ایسا کر کیوں رہا ہے،بیوی تو اپنی لے گیا وہ پھر اب کیا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو کے سوال پر بلوچ نے اُسکی طرف دیکھا جو کُچھ عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ "بتاؤنگا جونیجو کیونکہ اب تُم ہی ہو جو مریام شاہ سے میرے بیٹے کی موت کا بدلہ لے گا کیونکہ تُم نے پانچ سال اُس کے ساتھ کام کیا ہے اُس کے بارے میں بہت کُچھ جانتے ہو،میرا ساتھ دو گئے تو تُمہیں مُنہ مانگا انعام ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔" "پہلے بھی تو آپکا ہی ساتھ دے رہا ہوں سائیں،آپ فکر نہ کریں بہت جلد مریام شاہ سے آپ کے بیٹے کے خُون کا بدلہ لیں گئے،مُجھ پر اعتماد رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو کی بات پر بلوچ کے چہرے پر مُسکراہٹ کے رنگ چمکے جن کو جونیجو نے کُچھ چُھبتی نگاہوں سے دیکھا تھا۔ "یہ موقع تو نہیں پر کیا کریں سائیں مجبوری ہے آپکو بتانا تو پڑے گا،آپکے لئے بیڈ نیوز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "بولو جونیجو،میرے بیٹے کی موت سے بیڈ نیوز اور کیا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "جو لڑکیاں افغانستان اسمگلنگ کرنے کا پلان بنایا تھا آپ نے وہ منصوبہ بھی مریام شاہ نے ناکام بنا دیا ہے،آپکے سات بندے مارے گئے ہیں اور لڑکیوں کو اُن کے گھر بھی پہنچا دیا گیا ہے،امجد آیا ہے باہر اُسی بے بتایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو جانتا تھا یہ نیوز بھی بلوچ کے لئے کسی دھماکے سے کم نہ ہو گی اس لئے جتنے آرام سے بولا تھا بلوچ کو اُتنا ہی شدید جھٹکا لگا تھا۔
"__________________________________"
"کیا تُم لوگ مریام شاہ کو اس پسٹل سے خوف زدہ کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چاروں اس پر پسٹل تان کر کھڑے ہوگئے مگر مریام شاہ کے سکون میں کوئی خلل نہ آیا وہ شان سے چلتا ہوا ان سے کُچھ فاصلے پر پڑی کُرسی پر ٹک گیا ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ ان چاروں پر نظریں فوکس کر گیا۔ "سوچ لو اگر پسٹل چلاؤ گئے تو مارے جاؤ گئے اگر انکو نیچے رکھ دو گئے تو گارنٹی کے ساتھ زندہ بچ جاؤ گئے آگے فیصلہ تُم لوگوں کا،صرف دو منٹ کا ٹائم ہے تم لوگوں کے پاس۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا موبائل پر کُچھ ٹائپ کرنے لگا جبکہ وہ چاروں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ "تُم جانتے ہو بلوچ سائیں تُمہیں کبھی معاف نہیں کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔"اُن میں سے ایک بولا۔ "فل وقت تو تم لوگ اپنا سوچو،جہاں تک تم لوگوں کے بلوچ سائیں کی بات ہے تو وہ اس وقت اپنے بیٹے کی موت کے غم میں مُبتلا دُنیا کی ہر فکر سے آزاد ہیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکرایا تھا اور گہری نگاہوں سے اُنکا جائزہ لینے لگا جن میں سے دو کی گرفت پسٹل پر مضبوط ہوتی جا رہی تھی مریام شاہ نے ایک نظر اپنے موبائل پر ڈالی دوسری دروازے پر اور مُسکرا دیا وہ چاروں حیرانی سے اُسے مُسکراتا دیکھنے لگے۔ "تُم مُسکرا رہے ہو ہم سچ میں گولی چلا دیں گئے مریام شاہ،ہٹ جاؤ ہمارے راستے سے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔" تبھی کسی نے پیچھے سے اُنکے سروں پر پسٹل رکھ کر اُنکی بولتی بند کر دی۔ "اپنے اپنے ہتھیار نیچے پھینکو۔۔۔۔۔۔۔۔"دو نسوانی آوازوں پر وہ ششدر رہ گئے اُن کے ہاتھ خُود بخود ڈھیلے ہونے لگے مریام شاہ مُسکراتا اُٹھا۔ "کہاں بھی تھا کہ باز آ جاؤ پر۔۔۔۔۔۔"وہ افسوس سے سر نفی میں ہلانے لگا پھر آگے بڑھ کر دروازہ کھول کر سب لڑکیوں کو باہر آنے کا اشارہ کیا جو ڈرتی ڈرتی باہر آ گئیں۔آسیہ اور نمرہ نے بلوچ کے چاروں آدمیوں کو دیوار کے ساتھ لگایا۔ "آپ سب لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں،ہم بحفاظت آپ سب کو اپنے اپنے گھروں تک پہنچائیں گئے پر میری ایک بات ضرور یاد رکھیے گا اس مُصیبت میں آپ خُود پڑی ہیں لفنگے لڑکوں کے پیچھے لگ کر ایک تو اپنے والدین کی عزت خراب کرتی ہیں معاشرے میں اُنکو شرمندگی کے ساتھ جینے پر مجبور کرتی ہیں دُوسرا خُود کی ذندگی بھی برباد کر لیتی ہیں اُس انسان کی خاطر جو جھوٹے پیار میں پھنسا کر پہلے آپکو گھر سے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے پھر ایاز بلوچ جیسے بازاری آدمیوں کے پاس فروخت کر دیتے ہیں،محبت کرنا بُری بات نہیں بلکہ محبت میں ناجائز طریقے اپنانا بُری بات ہے،میرے خیال میں آپ سبکو بات سمجھ میں آگئ ہو گی گھر جا کر شُکرانے کے نوافل پڑھ لیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ اُن چاروں کی طرف بڑھا اور اُنکو زمین پر پڑی رسی سے باندھنے لگا۔ "نمرہ تُم اور آسیہ ہی انکو انکے گھروں تک پہچانا اور وہی سب کہنا جو میں نے بولا ہے۔۔۔۔۔۔"اُن دونوں لڑکیوں سے بولا جو پستول تانے کھڑیں تھیں اسکی بات پر سر اثبات میں ہلا گئیں مریام شاہ چاروں کو باندھ کر اُن لڑکیوں کی طرف مُڑا۔ "میرا کام بس یہی تک تھا،اب آگے تُم لوگوں کا کام ہے انکو سزا دینا،اتنا تو تُم سب کر سکتی ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے کہنے پر وہ سب لڑکیاں ایک دُوسرے کی طرف دیکھنے لگیں پھر نفرت غُصہ لئے اُن چاروں کی طرف بڑھیں اور اپنے جوتوں سے اُنکو مار مار کر حشر بگاڑ دیا۔مریام شاہ نے نمرہ اور آسیہ کو اشارہ کیا اور خُود وہاں سے چل دیا باہر آ کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا تبھی اُس پر فائر ہوا مگر وہ چونکنا ہو کر جُھکا تھا اور گولی اُس کے کندھے کو چُھوتی نکل گئی مریام شاہ بھاگتا ہوا دیوار کی اوٹ میں ہو گیا تین آدمی مسلسل فائر کرتے اسکی جانب آ رہے تھے اُس نے اپنا پسٹل نکال کر ایک آدمی کے سینے کو نشانہ بنایا اگلے پل ہی وہ زمین بوس ہو چُکا تھا دوسرے کی ٹانگ پر فائر کیا وہ بھی لڑکھڑاتے ہوا گرا جبکہ تیسرا اُس دروازے کی طرف بڑھا جہاں سے سب لڑکیاں نکل رہی تھیں مریام شاہ بھاگتا ہوا اُسکی طرف بڑھا مگر تب تک وہ ایک لڑکی کو پکڑ کر اُسکی کنپٹی پر پستول تان گیا۔ "اگر اس لڑکی کی جان کی سلامتی چاہتے ہو تو اپنا پستول پھینک دو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سختی سے اُس لڑکی کو پکڑے بولا جو خوف سے سفید ہو گئی تھی مریام شاہ نے دیکھا باقی بھی ڈر کے مارے ساکت ہوئیں تھیں۔ "مُجھے نہیں پیاری اس لڑکی کی جان،مار دو اسے،ویسے بھی میرا کام تو ہو گیا ایک لڑکی کے مرنے سے مُجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اپنے پسٹل کا رُخ اُسکی جانب کیا جہاں اُس لڑکی کے آنسو تھمے تھے وہاں وہ بھی دو پل کو گُم صُم ہوا تھا اور اُن دو پلوں کا ہی مریام شاہ نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے گولی چلا دی تھی جو اُس کے سر کو چیرتی نکل گئی تھی۔ "نمرہ باہر بُرہان گاڑی لئےکھڑا ہے نکلو انکو لے کر جتنی دیر یہاں رُکو گئے کوئی نہ کوئی مُشکل آتی رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُنکو وہاں سے نکالا اور خُود اندر آیا جہاں اُن چاروں کی لاشیں پڑی ہوئیں تھیں وہ آگے بڑھتا اُس کمرے میں گیا جہاں اکرم کا بے سدھ وجود پڑا ہوا تھا مریام شاہ نے پسٹل اپنی پینٹ میں گُھسایا اور دیواروں پر نگاہیں دوڑانے لگا تبھی اُسے اپنی مطلوبہ چیز نظر آئی اُس نے کُرسی کھینچ کر آگے کی اور اُس پر چڑھ کر دیوار پر لگے کیمرے کو اُتار کر اپنی جیب میں رکھا اور وہاں سے جانے لگا کہ اُسے اپنے پیچھے کھٹکا سُنائی دیا اس نے بے ساختہ پلٹ کر دیکھا کوئی پسٹل تانے کھڑا تھا۔ "جونیجو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"