تو جو مل جائے
تو جو مل جائے از انا الیاس قسط نمبر12
اگلے دن دوپہر ميں وہ لوگ وہاں سے جانے کے لئيۓ نکل رہے تھے۔ وہيبہ سب سے مل رہی تھی۔ آخر ميں جب خديجہ کے گلے لگی تو ايسا محسوس ہوا آج ہی اسکی رخصتی ہو۔ يکدم ڈھير سارے آنسو نجانے کہاں سے آگۓ۔ خديجہ نے حسرت سے اسے گلے لگايا۔ اتنی عمر گزارنے کے بعد اب تو اس نے انہيں ماں تسليم کيا تھا اور پھر سے جدائ ان کے بيچ آگئ تھی۔ مگر ماں تھيں نا اپنے دل کی تسکين سے زيادہ بيٹی کی خوشياں عزيز تھيں۔ دل سے ڈھيروں دعائيں اسے ديں۔ رقيہ بيگم نے نہايت نفرت سے يہ منظر ديکھا۔ "اوکے ممی" وہيبہ نے پہلی مرتبہ انہيں ماں کہا تھا اور وہ بھی کس وقت۔ "وہيبہ يہ اجازت کس نے دی تمہيں" رقيہ بيگم تو ان دونوں کے ملنے پر خار کھاۓ ہوئيں تھيں کہ اسکے منہ سے خديجہ کے لئيۓ وہيبہ کے منہ سےممی کا لفظ سن کر بالکل ہی انگاروں پر لوٹ گئيں۔ "اپنی سگی ماں کو ماں کہنے کے لئيۓ مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہيں" اپنے آنسو پونچھتے رقيہ بيگم کو جواب ديتے خبيب کو وہی پرانی نڈر وہيبہ نظر آئ۔ رقيہ بيگم وہاں سے واک آؤٹ کر گئيں۔ وہيبہ کو بھی اب انکی پرواہ نہيں تھی۔ کچھ لوگ ہوتے ہيں نہ ساری عمر اپنی اکڑ ميں زندہ رہنے والے۔ خود کو سچا سمجھنے والے چاہے دوسروں کی نظر ميں کتنے ہی غلط کيوں نہ ہوں۔ وہيبہ نے دکھ سے انہيں اندر جاتے ہوۓ ديکھا۔ اسے ايک موہوم سی اميد تھی کہ شايد آج رقيہ بيگم اپنی غلطيوں پر معذرت کريں گی۔ مگر اسکی وہ اميد بھی دم توڑ گئ۔ بجھے دل سے وہ وہاں سے نکلی۔ سب افسردہ تھے۔ خبيب گاڑی چلاتے گاہے بگاہے اسے ديکھ رہا تھا۔ جو آنکھيں بند کئيۓ سيٹ کے ساتھ پشت ٹکاۓ بيٹھی تھی سر بھی سيٹ کی پشت پر دھرا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دير بعد آہستہ سے ايک ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے گيلے ہونے والے کنارے صاف کرليتی۔ "مجھے آپکے کل پر تو اختيار نہيں تھا۔۔جيسے بھی گزر گيا۔۔۔مگر ہاں۔۔۔مجھے آپکے آج اور آنے والے کل پر اختيار ہے جسے ميں اللہ کی رضا اور اپنی محبت سے آپکے لئيۓ دکھوں سے پاک بنادوں گا۔۔۔کم از کم لوگوں کے دئيۓ زخموں کو مٹا تو نہيں سکتا مگر ہاں انکی شدت کو کم ضرور کر دوں گا" اسے لگا وہ لمحہ بہ لمحہ ہمدردی کے جذبے سے نکل کر اسکی محبت ميں گم ہوتا جا رہا ہے۔ جس رات نفيسہ بيگم نے اسے وہ سب بتايا تھا اس رات واقعی سب سے پہلے ہمدردی کے جذبے نے جگہ لی تھی۔ مگر پھر وہ سرکتا ہوا محبت کے لئيۓ جگہ بنانے لگ گيا۔ بس اب اپنی محبت کو اس انداز ميں اس تک پہنچانا تھا جس سے نہ اسکا مان ٹوٹے، نہ اسکی خوداری ڈانواڈول ہو اور نہ ہی وہ اسے ترس يا بھيک سمجھے۔ لاہور سے کوئٹہ کا سفر تقريباّّ چودہ گھنٹے کا تھا جس ميں خبيب نے رات ميں کسی گيسٹ ہاؤس ميں ريسٹ کا سوچا تھا کيونکہ وہ مسلسل اتنی لمبی ڈرائيو نہيں کر سکتا تھا۔ اور بہت سے راستوں ميں سڑک بھی بے حد اونچی نيچی تھی۔جونہی وہ لوگ لاہور سے اوکاڑہ اور پھر وہاں سے ساہيوال پہنچے شام کے ساۓ شروع ہونے لگ گۓ۔ "اب يہ رم جھم جاری رہے گی يا مجھے کچھ کھانے کو بھی ملے گا" خبيب نے اسکا دھيان ہٹانے کے لئيۓ اپنی ڈال دی۔ اتنا تو وہ جان گيا تھا کہ ميڈم ايک بات کو لے کر سوچتی اور کڑھتی رہتی ہيں۔ خديجہ اور نفيسہ نے کافی کچھ انکے کھانے کے لئيۓ رکھ ديا تھا حالانکہ وہ دوپہر کا کھانا کھا کر ہی نکلے تھے۔ پھر بھی سينڈوچز، پاسٹا اور کافی بنا کر رکھ دی تھی۔ وہيبہ آنسو صاف کرتے ہوۓ سيدھی ہوئ۔ تيکھی نظروں سے اسے ديکھا۔ "اتنی جو پليٹ بھر کر بريانی کھائ تھی وہ کہاں گئ۔" تڑخ کر بولی۔ "اوہ تبھی ميں کہوں ميرے پيٹ ميں اتنی دير سے درد کيوں ہو رہا ہے۔ آپ نے اپنی نديدی نظريں ميری پليٹ پر رکھی ہوئ تھيں" اس نے متاسف انداز ميں اسے ديکھا۔ "ويسے شرم کی بات ہے بيوياں شوہر کے کھانے پينے پر خوش ہوتی ہيں اور يہاں طعنے دئيۓ جا رہے ہيں" اس نے وہيبہ کو شرمندہ کرنا چاہا۔ "ايکسکيوزمی ميں آپکی بيوی نہيں"اس ن منہ بنا کر کہا۔ "تو پھر کيا ہيں" "مجبوری" اسکے جواب پر خبيب کا دل کيا گاڑی کسی چيز سے ٹکرا دے۔ "آپ خود ترسی سے کب تک باہر آئيں گی" "کبھی نہيں" اسکے صاف جواب پر خبيب نے اسکے چہرے کی جانب ديکھا جہاں اب بھی اذيتيں رقم تھيں۔ "اچھا يہ ميلو ڈرامہ بعد مين کر لينا مجھے کچھ کھانے کو ديں" وہيبہ اسکی بات پر جل کر خاک ہوگئ۔ "زہر ہی نہ ديے دوں" "آئ وش حقوق مرداں کی بھی اين جی اوز ہوتيں۔ آپکا يہ دائيلاگ ريکارڈ کرکے پريس کانفرنس بلوا لينی تھی ميں نے" خبيب کی بات پر اس نے سر پر ہاتھ مارا۔ "کس قدر بولتے ہيں آپ۔۔۔۔پہلے تو ايسے نہيں تھے" اس نے بيزاری سے اسکی جانب ديکھا۔ پھر مڑ کر پيچھے پڑے بيگ ميں سے سينڈوچز نکالنے لگی "پہلے آپکا شوہر بھی تو نہيں تھا" اسکی بات پر اب کی بار اس نے کوئ جواب نہيں ديا۔ جان گئ تھی اسے خوامخواہ چڑا رہا ہے۔ "ميں سينڈوچز نہيں کھاؤں گا پاسٹا ديں" اسے سينڈوچز نکالتے ديکھ کر وہ يکدم بولا۔ "تو کھائيں گۓ کيسے" اس نے حيرت سے اسے ديکھا سينڈوچ تو وہ پکڑ کر کھا ليتا آرام سے ڈرائيونگ کے ساتھ ساتھ پر پاسٹا۔ "کھائيں گے نہيں آپ کھلائيں گی" اسکی بات پر اس نے پہلے حيرت اور پھر غصے سے اسکی جانب ديکھا۔ "کس خوشی ميں۔۔فضول باتيں مت کريں" اس نے غصے سے سينڈوچ نکال کر اسے تھمانا چاہا۔ "اگر مجھے پاسٹا نہيں کھلايا تو پھر ان ميں سے کوئ چيز ميں خود نہيں کھاؤں گا نہ ہی کافی خود پيوں گا۔ ابھی ہم ايک ہوٹل ميں بھی رکيں گۓ وہاں ڈنر بھی آپ مجھے کروائيں گی۔ اب سوچ کر بتائيں ايک چيز کھلانی ہے يا اتنی ساری چيزيں" اسکی بات پر وہيبہ نے اسے ايسے ديکھا جيسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہے۔ "ميری طرف سے آپ بھوکے پياسے ہی رہيں پھر۔" وہيبہ کی بات پر اس نے ايک نظر اس ضدی لڑکی کو ديکھا۔ "محبت واقعی خون کے آنسو رلاتی ہے" دل نے دہائ دی۔ "ٹھيک ہے پھر ميرا شوگر ليول کم ہوگا تو پھر ميں گاڑی ڈرائيو بھی نہيں کر پاؤں گا صحيح سے کہيں نہ کہيں ٹھوک دی تو دونوں اکھٹے مريں گے۔ واؤ کتنا فلمی ہوگا" خبيب کی بات پر وہ دہل گئ۔ "افوہ آپ اتنے ضدی کيوں ہيں" وہ چڑ کر بولی۔ "ميں ضدی ہو پر آپ تو جيسے بہت بی بی بچی ہيں نہ۔۔۔ميری باتيں مانتی چلی جا رہی ہيں" اس نے طنز کيا۔ "اف" آخر تنگ آکر اس نے پاسٹا نکال کر چمچہ بھر کر اسکی جانب کيا۔ "پيار سے کھلائيں" اس نے اپنی ہنسی دباتے کہا۔ "چپ کرکے کھائيں نہيں تو سارا باہر پھينک دوں گی" وہ خفگی سے بولی۔ "چچ چچ۔۔۔۔رزق کی بے حرمتی کريں گی" وہيبہ کا دل کيا يہيں سے واپسی کی بس پکڑ لے ابھی تو چند گھنٹے اس بندے کے ساتھ اکيلے گزرے تھے۔۔۔باقی کے دن کيسے گزرنے والے تھے اور نجانے کتنے سالوں تک وہيں رہنا تھا۔ اسے تو سوچ سوچ کے ہول اٹھ رہے تھے اب۔ "ممی کے ہاتھ ميں واقعی بہت ذائفہ ہے يا يہ چمچ پکڑنے والے ہاتھوں کا کرشمہ ہے" ايک مرتبہ پھر اسکی مسکراتی آواز آئ۔ "جی بالکل کيونکہ يہ اسی چمچ کا کمال ہے جو ابھی پچھلی سيٹ کے درميان گری تھی۔۔۔مٹی سے اٹ کر اس ميں بہت سے وٹامنز شامل ہوگۓ ہيں۔۔" وہيبہ کی منظر کشی پر خبيب کا دل شديد خراب ہوا۔ "بہت ہی کوئ پھوہڑ لڑکی ہيں اسی گندی چمچ سے کھلا رہی ہيں" خبيب کو لگا اب اسے قے آجاۓ گی۔ "بس کريں" منہ پيچھے کرکے بولا۔ اپنے شرارتی منصوبے پر اس نے خود کو داد دی۔
جس وقت وہ لورالئ پہنچے رات کے نو بج چکے تھے۔ اس سے آگے سفر کرنا خطرے کا باعث تھا کيونکہ آگے کا علاقہ کافی سنسان تھا۔ وہيں ايک قريبی گيسٹ ہاؤس کے سامنے خبيب نے گاڑی روکی۔ "چليں رات يہيں گزارنی پڑے گی" وہيبہ بھی اسکے پيچھے اتری۔ گاڑی کو لاک کرکے ايک چھوٹا بيگ اس نے نکال ليا۔ جس مين اس نے اپنا اور خبيب کا ايک ايک جوڑا اور کچھ ضرورت کی چيزيں رکھ ليں تھيں۔ خبيب نے پہلے ہی اسکو بتا ديا تھا کہ ہم مسلسل اتنا لمبا سفر نہيں کر سکيں گے لہذا ايک ايک جوڑا اور کچھ چيزيں الگ سے رکھ لو۔ اندر پہنچنے پر ايک کمرہ انہيں خوش قسمتی سے مل گيا۔ سرديوں کا وقت تھا لہذا کمرے پہلے سے ہی بک تھے۔ بہت سے لگ کوئٹہ جاتے ہوۓ يہاں اسٹے کرتے تھے اسی رش تھا۔ جيسے ہی وہ اندر آۓ وہاں موجود بيڈ کا سائز ديکھ کر وہيبہ کا چہرہ اتر گيا۔ گھر ميں تو خبيب کا کنگ سائز بيڈ تھا۔ جس کے ايک کونے پر وہ اور دوسرے کونے پر خبيب آرام سے سوجاتا تھا۔ مگر اس چھوٹے سے بيڈ پر کيسے ليٹيں گے۔ "کہين اور نہيں جا سکتے ہم" وہيبہ کے کہنے پر خبيب جو بيگ پر جھکا اپنی شلوار قميض نکال رہا تھا۔ سيدھا ہوتے الجھن بھری نظروں سے وہيبہ کو ديکھنے لگا۔ "کيوں يہاں کيا مسئلہ ہے" اسکے پوچھنے پر وہ کيا کہتی اسے تو ايک اور موقع مل جانا تھا وہيبہ کو تنگ کرنے کا۔ "يہاں بہت ٹھنڈ ہے" اپنی طرف سے اس نے جواز ڈھونڈا۔ "سرديوں ميں بھی اگر ٹھنڈ نہيں ہو گی تو کيا گرميوں ميں ہوگی۔ ويسے بھی آپ نے کون سا ساری رات يہاں کھڑے ہوکر گزارنی ہے۔ چينج کرکے لحاف ميں گھس جائيں" خبيب کی بات پر وہيبہ نے منہ بنايا۔ جانتی تھی کبھی اسکی بات کو ااہميت نہيں دے گا پھر بھی نجانے کيوں اس کو کہہ بيٹھی۔ وہ کپڑے لئيۓ واش روم ميں گھس گيا راستے ميں ايک ہوٹل سے آتے ہوۓ وہ کھانا پيک کروا لايا تھا۔ خبيب نکلا تو وہيبہ چينج کرنے چلی گئ۔ باہر آکر جلدی سے کھانا نکالا۔۔دونوں کرسيوں پر آمنے سامنے بيٹھے تھے درميان ميں چھوٹی سی ٹيبل تھی۔ دونوں کھانا کھانے لگ گۓ۔ اتنی دير مين گھر والوں کو بھی اطلاع دے دی کہ وہ کہاں ہيں۔ کھانے کھاتے ساتھ ہی خبيب تو بيڈ پر جاکر ليٹ گيا۔ وہيبہ چيزيں سميٹ کر اب شش و پنج ميں بيٹھی تھی کہ کيا کرے۔ "آج رات آپ نے ٹھنڈ مين بيٹھ کر کوئ چلا کاٹنا ہے تو بصد شوق کاٹيں ليکن پليز يہ لائٹ آف کرديں" خبيب کی بات پر وہ ايک مرتبہ پھر جلے دل سے اپنی جگہ سے اٹھی۔۔اب بيڈ پر جا کر ليٹنے کے سوا کوئ چارہ نہ تھا۔ جيسے ہی سوئچ بورڈ کے پاس باقی بٹنز چيک کئيۓ ان ميں کوئ ايسی لائٹ کا نہيں تھا جسے ڈم لائٹ کے طور پر جلايا جاتا۔ "يہاں تو کوئ نائٹ بلب يا ڈم لائٹ ہی نہيں ہے" اس نے تشويش سے خبيب کو مخاطب کيا۔ "آپ لائٹ تو آف کريں آئ گيس يہ کھڑکی سے روشنی آۓ گی۔" انکے بيڈ کے ساتھ ہی بائيں جانب کھڑکی تھی۔ وہيبہ نے جيسے ہی لائٹ بند کی گھپ اندھيرا ہو گيا۔ اس نے اندازے سے جلدی س ہاتھ مار کر دوبارہ جلا ديا۔ "کيا مسئلہ ہے وہيبہ بند کرديں۔ ابھی تھوڑی دير ميں ٹھيک ہو جاۓ گا" وہ اس وقت شدید تھکا ہوا تھا۔ "اتنے اندھيرے ميں ميں نہيں سو سکتی"اس نے ہٹيلے لہجے ميں کہا۔ "تو لائٹ آن رہنے ديں" خبيب نے اپنی طرف سے حل نکالا۔ "جی نہيں اتنی لائٹ ميں بھی نہيں سو سکتی۔" اسکی بات پر اب کی بار خبيب غصے سے اٹھ کر بيٹھ گيا۔ "ايسے بھی نہيں سو سکتیيں ويسے بھی نہيں سو سکتيں۔ اب آپکی محبت ميں ميں مجنوں اور رانجھے کے نقش قدم پر چلتا ہوا نائٹ بلب يہاں تو ايجاد کرنے سے رہا۔" "آپ ايسی محبت اپنی دوسری بيوی سے ہی کرئيے گا مجھے کوئ ضرورت نہيں ہے" اس نے وہيں کھڑے طنز کے تير چلاۓ۔ "ظاہر ہے اسی سے کروں گا۔ اب جیسی سڑيل تو ڈھونڈوں گا نہيں کہ باقی زندگی ايسی ہی سڑی باتوں ميں گزار دوں" اسکی بات پر نجانے وہيبہ کو کيوں اسکی انديکھی بيوی سے حسدمحسوس ہوا۔ "آپ يہاں بيڈ پر ليٹيں ميں لائٹ آف کرکے آتا ہوں" اس نے حل نکالا۔ وہيبہ کی بھی تھکن سے بری حالت تھی لہذا مان گئ۔ خبيب اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا سوئچ بورڈ کے پاس آيا وہيبہ تب تک ليٹ چکی تھی۔ خبيب نے لائٹ آف کی۔ "اتنا اندھيرا ہو گيا ہے لائٹ آن کريں" وہيبہ کے پھر سے چيخنے پر خبيب نے لائٹ آن کرکے اسے اب کی بار نہايت خطرناک تيوروں سے گھورا۔ "وہيبہ اب اگر چيخ و پکار کی نا تو کمرے سے باہر نکال دوں گا۔ آواز نہ آۓ اب مجھے" اسکی دھاڑ پر وہيبہ کی بولتی بند ہوئ۔ جيسے ہی لائٹ آف کی اب کی بار وہيبہ چپ رہی۔ حالانکہ اتنے گھپ اندھيرے سے بے حد ڈر لگ رہا تھا۔ خبيب کی جيسے ہی آنکھيں اندھيرے سے مانوس ہوئيں وہ اندازہ لگاتا بيڈ کے فريب آيا۔ وہيبہ بائيں جانب ليٹی تھی وہ دائيں جانب ليٹ گيا۔ "خبيب" جيسے ہی وہيبہ کو لگا کوئ ساتھ ليٹا ہے جانتی بھی تھی کہ خبيب کے علاوہ اور کون ہوگا پھر بھی تصديق کروانی چاہی۔ "نہيں خبيب کا بھوت" وہ سڑ کر بولا۔ "ايسے تو مت کہيں" وہ روہانسی ہوئ۔ ايک تو اجنبی جگہ پھر ايسا سڑا ہوا بندہ۔ خبيب کونے ميں ہو کر منہ دوسری جانب کئيۓ ليٹا تھا۔ جان گيا تھا کہ وہ کس بات سے گھبرا رہی ہے۔ تھوڑی دير بعد جب وہيبہ کو لگا اب خبيب سوگيا ہے اس نے آہستہ سے اسکے بازو پر ہاتھ رکھا تو لگا جيسے اب وہ محفوظ ہے۔ جو ڈر نئ اور اجنبی جگہ کی وجہ سے محسوس ہو رہا تھا اس ميں خاطر خواہ کمی آئ۔ خبيب جس کی ابھی آنکھ لگی ہی تھی اپنے بازو پر کسی کا ہاتھ محسوس کرکے وہ مسکراۓ بغير نہ رہ سکا۔
صبح ميں جلدی اٹھ کر وہ لوگ منہ ہاتھ دھو کر نکل کھڑے ہوۓ۔ ناشتہ راستے ميں ايک ہوٹل سے کيا اور پھر دوپہر کے وقت کوئٹہ پہنچے۔ گھر بہت خوبصورت تھا جو انہيں آفس کی جانب سے ملا تھا۔ چھوٹا سا لان تھا۔ گھر کے رہائشی حصے ميں دو بيڈ رومز کچن، لاؤنج اور پيارا سا ڈرائنگ روم اور ڈرائنگ ڈائينگ تھا۔ ان دونوں کے لئيۓ بہت تھا۔ خبيب نے اپنے ايک کوليگ کو کہہ کر اسکو فرنشڈ کروا ليا تھا۔ لہذا انہيں آتے ساتھی ہی کسی چيز کی کمی محسوس نہيں ہوئ۔ ہر چيز ضرورت کی موجود تھی۔ دوپہر کا کھانا تو وہ لے آۓ تھے اب رات کے کھانے کی ٹينشن تھی۔ وہيبہ نے تو کبھی کوئ خاص کچن کا کام نہيں کيا تھا۔ پڑھائ ہونے تک تو وہ کبھی کچن ميں نہيں آئ تھا۔ اور پڑھائ ختم ہوتے ساتھ ہی اس نے جاب شروع کرلی۔ لہذا انڈا اور چاۓ بنانے کے علاوہ اور کچھ خاص نہيں آتا تھا۔ "کل سے ہم باہر کا کھانا کھاتے جا رہےہيں ميں مزيد نہيں کھا سکتا ميرا معدہ اب خراب ہوجاۓ گا ۔ لہذا اب رات کا انتظام آپ اپنے نازک ہاتھوں کو ہلا کر کريں" خبيب کی بات پر وہ جو چاۓ بنا کر لائ تھی تلملا کر رہ گئ۔ "تو کس نے کہا تھا مجھے لائيں شکر کريں يہ چاۓ بھی بنا دی ہے" اس نے مزے سے جواب ديتے صوفے پر بيٹھ کر ريموٹ اٹھايا۔ "يار ابھی لڑائ کی ہمت نہيں ہے مجھ ميں پليز کچھ بنا ليں۔ ممی کو فون کرکے ريسيپی پوچھيں" اتنی ڈرائيونگ کے بعد اب اس کا سر دکھ رہا تھا۔ لہذا وہ پہلے ہی ہتھيار ڈال کر بولا۔ "يہ نيک فريضہ آپ خود انجام ديں۔ ميں کسی کو کال نہيں کروں گی۔ اور ميرا گزارا انڈے ڈبل روٹی پر ہو جاۓ گا آپ ٹينشن مت ليں" اس نے مزے سے خبيب کو ہری جھنڈی دکھائ۔ اپنا سامان دوسرے کمرے ميں شفٹ کيا۔ اور اندر جاکر ليٹ گئ۔ خبيب کھول کر رہ گيا۔ پھر کچھ سوچ کر مطمئن ہوا۔ اٹھ کر دال بنائ۔ اتنا تو وہ کر ہی ليتا تھا۔آٹا اسے گوندھنا آت نہيں تھا لہذا بازار سے مجبورا روٹی لايا۔ بچی ہوئ دال اٹھا کر فريج ميں رکھی۔ فريج کو بھی تالا لگا ديا اور پھر کچن کو بھی تالا لگا کر ٹيبل پر ايک چٹ لکھ کر رکھی۔ آفس کا وزٹ کرنے کے لئيۓ تيار ہوا اور نکل گيا۔ گھر کے باہر دو گارڈ ہمہ وقت موجود تھے مگر وردی کے بغير۔ انہيں ضروری ہدايات دے کر گاڑی ميں بيٹھ کر چلا گيا۔تو جو مل جائے از انا الیاس قسط نمبر12
اگلے دن دوپہر ميں وہ لوگ وہاں سے جانے کے لئيۓ نکل رہے تھے۔ وہيبہ سب سے مل رہی تھی۔ آخر ميں جب خديجہ کے گلے لگی تو ايسا محسوس ہوا آج ہی اسکی رخصتی ہو۔ يکدم ڈھير سارے آنسو نجانے کہاں سے آگۓ۔ خديجہ نے حسرت سے اسے گلے لگايا۔ اتنی عمر گزارنے کے بعد اب تو اس نے انہيں ماں تسليم کيا تھا اور پھر سے جدائ ان کے بيچ آگئ تھی۔ مگر ماں تھيں نا اپنے دل کی تسکين سے زيادہ بيٹی کی خوشياں عزيز تھيں۔ دل سے ڈھيروں دعائيں اسے ديں۔ رقيہ بيگم نے نہايت نفرت سے يہ منظر ديکھا۔ "اوکے ممی" وہيبہ نے پہلی مرتبہ انہيں ماں کہا تھا اور وہ بھی کس وقت۔ "وہيبہ يہ اجازت کس نے دی تمہيں" رقيہ بيگم تو ان دونوں کے ملنے پر خار کھاۓ ہوئيں تھيں کہ اسکے منہ سے خديجہ کے لئيۓ وہيبہ کے منہ سےممی کا لفظ سن کر بالکل ہی انگاروں پر لوٹ گئيں۔ "اپنی سگی ماں کو ماں کہنے کے لئيۓ مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہيں" اپنے آنسو پونچھتے رقيہ بيگم کو جواب ديتے خبيب کو وہی پرانی نڈر وہيبہ نظر آئ۔ رقيہ بيگم وہاں سے واک آؤٹ کر گئيں۔ وہيبہ کو بھی اب انکی پرواہ نہيں تھی۔ کچھ لوگ ہوتے ہيں نہ ساری عمر اپنی اکڑ ميں زندہ رہنے والے۔ خود کو سچا سمجھنے والے چاہے دوسروں کی نظر ميں کتنے ہی غلط کيوں نہ ہوں۔ وہيبہ نے دکھ سے انہيں اندر جاتے ہوۓ ديکھا۔ اسے ايک موہوم سی اميد تھی کہ شايد آج رقيہ بيگم اپنی غلطيوں پر معذرت کريں گی۔ مگر اسکی وہ اميد بھی دم توڑ گئ۔ بجھے دل سے وہ وہاں سے نکلی۔ سب افسردہ تھے۔ خبيب گاڑی چلاتے گاہے بگاہے اسے ديکھ رہا تھا۔ جو آنکھيں بند کئيۓ سيٹ کے ساتھ پشت ٹکاۓ بيٹھی تھی سر بھی سيٹ کی پشت پر دھرا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دير بعد آہستہ سے ايک ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے گيلے ہونے والے کنارے صاف کرليتی۔ "مجھے آپکے کل پر تو اختيار نہيں تھا۔۔جيسے بھی گزر گيا۔۔۔مگر ہاں۔۔۔مجھے آپکے آج اور آنے والے کل پر اختيار ہے جسے ميں اللہ کی رضا اور اپنی محبت سے آپکے لئيۓ دکھوں سے پاک بنادوں گا۔۔۔کم از کم لوگوں کے دئيۓ زخموں کو مٹا تو نہيں سکتا مگر ہاں انکی شدت کو کم ضرور کر دوں گا" اسے لگا وہ لمحہ بہ لمحہ ہمدردی کے جذبے سے نکل کر اسکی محبت ميں گم ہوتا جا رہا ہے۔ جس رات نفيسہ بيگم نے اسے وہ سب بتايا تھا اس رات واقعی سب سے پہلے ہمدردی کے جذبے نے جگہ لی تھی۔ مگر پھر وہ سرکتا ہوا محبت کے لئيۓ جگہ بنانے لگ گيا۔ بس اب اپنی محبت کو اس انداز ميں اس تک پہنچانا تھا جس سے نہ اسکا مان ٹوٹے، نہ اسکی خوداری ڈانواڈول ہو اور نہ ہی وہ اسے ترس يا بھيک سمجھے۔ لاہور سے کوئٹہ کا سفر تقريباّّ چودہ گھنٹے کا تھا جس ميں خبيب نے رات ميں کسی گيسٹ ہاؤس ميں ريسٹ کا سوچا تھا کيونکہ وہ مسلسل اتنی لمبی ڈرائيو نہيں کر سکتا تھا۔ اور بہت سے راستوں ميں سڑک بھی بے حد اونچی نيچی تھی۔جونہی وہ لوگ لاہور سے اوکاڑہ اور پھر وہاں سے ساہيوال پہنچے شام کے ساۓ شروع ہونے لگ گۓ۔ "اب يہ رم جھم جاری رہے گی يا مجھے کچھ کھانے کو بھی ملے گا" خبيب نے اسکا دھيان ہٹانے کے لئيۓ اپنی ڈال دی۔ اتنا تو وہ جان گيا تھا کہ ميڈم ايک بات کو لے کر سوچتی اور کڑھتی رہتی ہيں۔ خديجہ اور نفيسہ نے کافی کچھ انکے کھانے کے لئيۓ رکھ ديا تھا حالانکہ وہ دوپہر کا کھانا کھا کر ہی نکلے تھے۔ پھر بھی سينڈوچز، پاسٹا اور کافی بنا کر رکھ دی تھی۔ وہيبہ آنسو صاف کرتے ہوۓ سيدھی ہوئ۔ تيکھی نظروں سے اسے ديکھا۔ "اتنی جو پليٹ بھر کر بريانی کھائ تھی وہ کہاں گئ۔" تڑخ کر بولی۔ "اوہ تبھی ميں کہوں ميرے پيٹ ميں اتنی دير سے درد کيوں ہو رہا ہے۔ آپ نے اپنی نديدی نظريں ميری پليٹ پر رکھی ہوئ تھيں" اس نے متاسف انداز ميں اسے ديکھا۔ "ويسے شرم کی بات ہے بيوياں شوہر کے کھانے پينے پر خوش ہوتی ہيں اور يہاں طعنے دئيۓ جا رہے ہيں" اس نے وہيبہ کو شرمندہ کرنا چاہا۔ "ايکسکيوزمی ميں آپکی بيوی نہيں"اس ن منہ بنا کر کہا۔ "تو پھر کيا ہيں" "مجبوری" اسکے جواب پر خبيب کا دل کيا گاڑی کسی چيز سے ٹکرا دے۔ "آپ خود ترسی سے کب تک باہر آئيں گی" "کبھی نہيں" اسکے صاف جواب پر خبيب نے اسکے چہرے کی جانب ديکھا جہاں اب بھی اذيتيں رقم تھيں۔ "اچھا يہ ميلو ڈرامہ بعد مين کر لينا مجھے کچھ کھانے کو ديں" وہيبہ اسکی بات پر جل کر خاک ہوگئ۔ "زہر ہی نہ ديے دوں" "آئ وش حقوق مرداں کی بھی اين جی اوز ہوتيں۔ آپکا يہ دائيلاگ ريکارڈ کرکے پريس کانفرنس بلوا لينی تھی ميں نے" خبيب کی بات پر اس نے سر پر ہاتھ مارا۔ "کس قدر بولتے ہيں آپ۔۔۔۔پہلے تو ايسے نہيں تھے" اس نے بيزاری سے اسکی جانب ديکھا۔ پھر مڑ کر پيچھے پڑے بيگ ميں سے سينڈوچز نکالنے لگی "پہلے آپکا شوہر بھی تو نہيں تھا" اسکی بات پر اب کی بار اس نے کوئ جواب نہيں ديا۔ جان گئ تھی اسے خوامخواہ چڑا رہا ہے۔ "ميں سينڈوچز نہيں کھاؤں گا پاسٹا ديں" اسے سينڈوچز نکالتے ديکھ کر وہ يکدم بولا۔ "تو کھائيں گۓ کيسے" اس نے حيرت سے اسے ديکھا سينڈوچ تو وہ پکڑ کر کھا ليتا آرام سے ڈرائيونگ کے ساتھ ساتھ پر پاسٹا۔ "کھائيں گے نہيں آپ کھلائيں گی" اسکی بات پر اس نے پہلے حيرت اور پھر غصے سے اسکی جانب ديکھا۔ "کس خوشی ميں۔۔فضول باتيں مت کريں" اس نے غصے سے سينڈوچ نکال کر اسے تھمانا چاہا۔ "اگر مجھے پاسٹا نہيں کھلايا تو پھر ان ميں سے کوئ چيز ميں خود نہيں کھاؤں گا نہ ہی کافی خود پيوں گا۔ ابھی ہم ايک ہوٹل ميں بھی رکيں گۓ وہاں ڈنر بھی آپ مجھے کروائيں گی۔ اب سوچ کر بتائيں ايک چيز کھلانی ہے يا اتنی ساری چيزيں" اسکی بات پر وہيبہ نے اسے ايسے ديکھا جيسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہے۔ "ميری طرف سے آپ بھوکے پياسے ہی رہيں پھر۔" وہيبہ کی بات پر اس نے ايک نظر اس ضدی لڑکی کو ديکھا۔ "محبت واقعی خون کے آنسو رلاتی ہے" دل نے دہائ دی۔ "ٹھيک ہے پھر ميرا شوگر ليول کم ہوگا تو پھر ميں گاڑی ڈرائيو بھی نہيں کر پاؤں گا صحيح سے کہيں نہ کہيں ٹھوک دی تو دونوں اکھٹے مريں گے۔ واؤ کتنا فلمی ہوگا" خبيب کی بات پر وہ دہل گئ۔ "افوہ آپ اتنے ضدی کيوں ہيں" وہ چڑ کر بولی۔ "ميں ضدی ہو پر آپ تو جيسے بہت بی بی بچی ہيں نہ۔۔۔ميری باتيں مانتی چلی جا رہی ہيں" اس نے طنز کيا۔ "اف" آخر تنگ آکر اس نے پاسٹا نکال کر چمچہ بھر کر اسکی جانب کيا۔ "پيار سے کھلائيں" اس نے اپنی ہنسی دباتے کہا۔ "چپ کرکے کھائيں نہيں تو سارا باہر پھينک دوں گی" وہ خفگی سے بولی۔ "چچ چچ۔۔۔۔رزق کی بے حرمتی کريں گی" وہيبہ کا دل کيا يہيں سے واپسی کی بس پکڑ لے ابھی تو چند گھنٹے اس بندے کے ساتھ اکيلے گزرے تھے۔۔۔باقی کے دن کيسے گزرنے والے تھے اور نجانے کتنے سالوں تک وہيں رہنا تھا۔ اسے تو سوچ سوچ کے ہول اٹھ رہے تھے اب۔ "ممی کے ہاتھ ميں واقعی بہت ذائفہ ہے يا يہ چمچ پکڑنے والے ہاتھوں کا کرشمہ ہے" ايک مرتبہ پھر اسکی مسکراتی آواز آئ۔ "جی بالکل کيونکہ يہ اسی چمچ کا کمال ہے جو ابھی پچھلی سيٹ کے درميان گری تھی۔۔۔مٹی سے اٹ کر اس ميں بہت سے وٹامنز شامل ہوگۓ ہيں۔۔" وہيبہ کی منظر کشی پر خبيب کا دل شديد خراب ہوا۔ "بہت ہی کوئ پھوہڑ لڑکی ہيں اسی گندی چمچ سے کھلا رہی ہيں" خبيب کو لگا اب اسے قے آجاۓ گی۔ "بس کريں" منہ پيچھے کرکے بولا۔ اپنے شرارتی منصوبے پر اس نے خود کو داد دی۔
جس وقت وہ لورالئ پہنچے رات کے نو بج چکے تھے۔ اس سے آگے سفر کرنا خطرے کا باعث تھا کيونکہ آگے کا علاقہ کافی سنسان تھا۔ وہيں ايک قريبی گيسٹ ہاؤس کے سامنے خبيب نے گاڑی روکی۔ "چليں رات يہيں گزارنی پڑے گی" وہيبہ بھی اسکے پيچھے اتری۔ گاڑی کو لاک کرکے ايک چھوٹا بيگ اس نے نکال ليا۔ جس مين اس نے اپنا اور خبيب کا ايک ايک جوڑا اور کچھ ضرورت کی چيزيں رکھ ليں تھيں۔ خبيب نے پہلے ہی اسکو بتا ديا تھا کہ ہم مسلسل اتنا لمبا سفر نہيں کر سکيں گے لہذا ايک ايک جوڑا اور کچھ چيزيں الگ سے رکھ لو۔ اندر پہنچنے پر ايک کمرہ انہيں خوش قسمتی سے مل گيا۔ سرديوں کا وقت تھا لہذا کمرے پہلے سے ہی بک تھے۔ بہت سے لگ کوئٹہ جاتے ہوۓ يہاں اسٹے کرتے تھے اسی رش تھا۔ جيسے ہی وہ اندر آۓ وہاں موجود بيڈ کا سائز ديکھ کر وہيبہ کا چہرہ اتر گيا۔ گھر ميں تو خبيب کا کنگ سائز بيڈ تھا۔ جس کے ايک کونے پر وہ اور دوسرے کونے پر خبيب آرام سے سوجاتا تھا۔ مگر اس چھوٹے سے بيڈ پر کيسے ليٹيں گے۔ "کہين اور نہيں جا سکتے ہم" وہيبہ کے کہنے پر خبيب جو بيگ پر جھکا اپنی شلوار قميض نکال رہا تھا۔ سيدھا ہوتے الجھن بھری نظروں سے وہيبہ کو ديکھنے لگا۔ "کيوں يہاں کيا مسئلہ ہے" اسکے پوچھنے پر وہ کيا کہتی اسے تو ايک اور موقع مل جانا تھا وہيبہ کو تنگ کرنے کا۔ "يہاں بہت ٹھنڈ ہے" اپنی طرف سے اس نے جواز ڈھونڈا۔ "سرديوں ميں بھی اگر ٹھنڈ نہيں ہو گی تو کيا گرميوں ميں ہوگی۔ ويسے بھی آپ نے کون سا ساری رات يہاں کھڑے ہوکر گزارنی ہے۔ چينج کرکے لحاف ميں گھس جائيں" خبيب کی بات پر وہيبہ نے منہ بنايا۔ جانتی تھی کبھی اسکی بات کو ااہميت نہيں دے گا پھر بھی نجانے کيوں اس کو کہہ بيٹھی۔ وہ کپڑے لئيۓ واش روم ميں گھس گيا راستے ميں ايک ہوٹل سے آتے ہوۓ وہ کھانا پيک کروا لايا تھا۔ خبيب نکلا تو وہيبہ چينج کرنے چلی گئ۔ باہر آکر جلدی سے کھانا نکالا۔۔دونوں کرسيوں پر آمنے سامنے بيٹھے تھے درميان ميں چھوٹی سی ٹيبل تھی۔ دونوں کھانا کھانے لگ گۓ۔ اتنی دير مين گھر والوں کو بھی اطلاع دے دی کہ وہ کہاں ہيں۔ کھانے کھاتے ساتھ ہی خبيب تو بيڈ پر جاکر ليٹ گيا۔ وہيبہ چيزيں سميٹ کر اب شش و پنج ميں بيٹھی تھی کہ کيا کرے۔ "آج رات آپ نے ٹھنڈ مين بيٹھ کر کوئ چلا کاٹنا ہے تو بصد شوق کاٹيں ليکن پليز يہ لائٹ آف کرديں" خبيب کی بات پر وہ ايک مرتبہ پھر جلے دل سے اپنی جگہ سے اٹھی۔۔اب بيڈ پر جا کر ليٹنے کے سوا کوئ چارہ نہ تھا۔ جيسے ہی سوئچ بورڈ کے پاس باقی بٹنز چيک کئيۓ ان ميں کوئ ايسی لائٹ کا نہيں تھا جسے ڈم لائٹ کے طور پر جلايا جاتا۔ "يہاں تو کوئ نائٹ بلب يا ڈم لائٹ ہی نہيں ہے" اس نے تشويش سے خبيب کو مخاطب کيا۔ "آپ لائٹ تو آف کريں آئ گيس يہ کھڑکی سے روشنی آۓ گی۔" انکے بيڈ کے ساتھ ہی بائيں جانب کھڑکی تھی۔ وہيبہ نے جيسے ہی لائٹ بند کی گھپ اندھيرا ہو گيا۔ اس نے اندازے سے جلدی س ہاتھ مار کر دوبارہ جلا ديا۔ "کيا مسئلہ ہے وہيبہ بند کرديں۔ ابھی تھوڑی دير ميں ٹھيک ہو جاۓ گا" وہ اس وقت شدید تھکا ہوا تھا۔ "اتنے اندھيرے ميں ميں نہيں سو سکتی"اس نے ہٹيلے لہجے ميں کہا۔ "تو لائٹ آن رہنے ديں" خبيب نے اپنی طرف سے حل نکالا۔ "جی نہيں اتنی لائٹ ميں بھی نہيں سو سکتی۔" اسکی بات پر اب کی بار خبيب غصے سے اٹھ کر بيٹھ گيا۔ "ايسے بھی نہيں سو سکتیيں ويسے بھی نہيں سو سکتيں۔ اب آپکی محبت ميں ميں مجنوں اور رانجھے کے نقش قدم پر چلتا ہوا نائٹ بلب يہاں تو ايجاد کرنے سے رہا۔" "آپ ايسی محبت اپنی دوسری بيوی سے ہی کرئيے گا مجھے کوئ ضرورت نہيں ہے" اس نے وہيں کھڑے طنز کے تير چلاۓ۔ "ظاہر ہے اسی سے کروں گا۔ اب جیسی سڑيل تو ڈھونڈوں گا نہيں کہ باقی زندگی ايسی ہی سڑی باتوں ميں گزار دوں" اسکی بات پر نجانے وہيبہ کو کيوں اسکی انديکھی بيوی سے حسدمحسوس ہوا۔ "آپ يہاں بيڈ پر ليٹيں ميں لائٹ آف کرکے آتا ہوں" اس نے حل نکالا۔ وہيبہ کی بھی تھکن سے بری حالت تھی لہذا مان گئ۔ خبيب اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا سوئچ بورڈ کے پاس آيا وہيبہ تب تک ليٹ چکی تھی۔ خبيب نے لائٹ آف کی۔ "اتنا اندھيرا ہو گيا ہے لائٹ آن کريں" وہيبہ کے پھر سے چيخنے پر خبيب نے لائٹ آن کرکے اسے اب کی بار نہايت خطرناک تيوروں سے گھورا۔ "وہيبہ اب اگر چيخ و پکار کی نا تو کمرے سے باہر نکال دوں گا۔ آواز نہ آۓ اب مجھے" اسکی دھاڑ پر وہيبہ کی بولتی بند ہوئ۔ جيسے ہی لائٹ آف کی اب کی بار وہيبہ چپ رہی۔ حالانکہ اتنے گھپ اندھيرے سے بے حد ڈر لگ رہا تھا۔ خبيب کی جيسے ہی آنکھيں اندھيرے سے مانوس ہوئيں وہ اندازہ لگاتا بيڈ کے فريب آيا۔ وہيبہ بائيں جانب ليٹی تھی وہ دائيں جانب ليٹ گيا۔ "خبيب" جيسے ہی وہيبہ کو لگا کوئ ساتھ ليٹا ہے جانتی بھی تھی کہ خبيب کے علاوہ اور کون ہوگا پھر بھی تصديق کروانی چاہی۔ "نہيں خبيب کا بھوت" وہ سڑ کر بولا۔ "ايسے تو مت کہيں" وہ روہانسی ہوئ۔ ايک تو اجنبی جگہ پھر ايسا سڑا ہوا بندہ۔ خبيب کونے ميں ہو کر منہ دوسری جانب کئيۓ ليٹا تھا۔ جان گيا تھا کہ وہ کس بات سے گھبرا رہی ہے۔ تھوڑی دير بعد جب وہيبہ کو لگا اب خبيب سوگيا ہے اس نے آہستہ سے اسکے بازو پر ہاتھ رکھا تو لگا جيسے اب وہ محفوظ ہے۔ جو ڈر نئ اور اجنبی جگہ کی وجہ سے محسوس ہو رہا تھا اس ميں خاطر خواہ کمی آئ۔ خبيب جس کی ابھی آنکھ لگی ہی تھی اپنے بازو پر کسی کا ہاتھ محسوس کرکے وہ مسکراۓ بغير نہ رہ سکا۔
صبح ميں جلدی اٹھ کر وہ لوگ منہ ہاتھ دھو کر نکل کھڑے ہوۓ۔ ناشتہ راستے ميں ايک ہوٹل سے کيا اور پھر دوپہر کے وقت کوئٹہ پہنچے۔ گھر بہت خوبصورت تھا جو انہيں آفس کی جانب سے ملا تھا۔ چھوٹا سا لان تھا۔ گھر کے رہائشی حصے ميں دو بيڈ رومز کچن، لاؤنج اور پيارا سا ڈرائنگ روم اور ڈرائنگ ڈائينگ تھا۔ ان دونوں کے لئيۓ بہت تھا۔ خبيب نے اپنے ايک کوليگ کو کہہ کر اسکو فرنشڈ کروا ليا تھا۔ لہذا انہيں آتے ساتھی ہی کسی چيز کی کمی محسوس نہيں ہوئ۔ ہر چيز ضرورت کی موجود تھی۔ دوپہر کا کھانا تو وہ لے آۓ تھے اب رات کے کھانے کی ٹينشن تھی۔ وہيبہ نے تو کبھی کوئ خاص کچن کا کام نہيں کيا تھا۔ پڑھائ ہونے تک تو وہ کبھی کچن ميں نہيں آئ تھا۔ اور پڑھائ ختم ہوتے ساتھ ہی اس نے جاب شروع کرلی۔ لہذا انڈا اور چاۓ بنانے کے علاوہ اور کچھ خاص نہيں آتا تھا۔ "کل سے ہم باہر کا کھانا کھاتے جا رہےہيں ميں مزيد نہيں کھا سکتا ميرا معدہ اب خراب ہوجاۓ گا ۔ لہذا اب رات کا انتظام آپ اپنے نازک ہاتھوں کو ہلا کر کريں" خبيب کی بات پر وہ جو چاۓ بنا کر لائ تھی تلملا کر رہ گئ۔ "تو کس نے کہا تھا مجھے لائيں شکر کريں يہ چاۓ بھی بنا دی ہے" اس نے مزے سے جواب ديتے صوفے پر بيٹھ کر ريموٹ اٹھايا۔ "يار ابھی لڑائ کی ہمت نہيں ہے مجھ ميں پليز کچھ بنا ليں۔ ممی کو فون کرکے ريسيپی پوچھيں" اتنی ڈرائيونگ کے بعد اب اس کا سر دکھ رہا تھا۔ لہذا وہ پہلے ہی ہتھيار ڈال کر بولا۔ "يہ نيک فريضہ آپ خود انجام ديں۔ ميں کسی کو کال نہيں کروں گی۔ اور ميرا گزارا انڈے ڈبل روٹی پر ہو جاۓ گا آپ ٹينشن مت ليں" اس نے مزے سے خبيب کو ہری جھنڈی دکھائ۔ اپنا سامان دوسرے کمرے ميں شفٹ کيا۔ اور اندر جاکر ليٹ گئ۔ خبيب کھول کر رہ گيا۔ پھر کچھ سوچ کر مطمئن ہوا۔ اٹھ کر دال بنائ۔ اتنا تو وہ کر ہی ليتا تھا۔آٹا اسے گوندھنا آت نہيں تھا لہذا بازار سے مجبورا روٹی لايا۔ بچی ہوئ دال اٹھا کر فريج ميں رکھی۔ فريج کو بھی تالا لگا ديا اور پھر کچن کو بھی تالا لگا کر ٹيبل پر ايک چٹ لکھ کر رکھی۔ آفس کا وزٹ کرنے کے لئيۓ تيار ہوا اور نکل گيا۔ گھر کے باہر دو گارڈ ہمہ وقت موجود تھے مگر وردی کے بغير۔ انہيں ضروری ہدايات دے کر گاڑی ميں بيٹھ کر چلا گيا۔