لیکھنی ناول-22-Oct-2023
تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر1
دعا پیپر لکھ لیا ۔۔؟ ہال میں مکمل خاموشی تھی اس لئے ذرا ذرا سے آواز بھی بہت ساری آواز پیدا کر رہی تھی۔ سعدیہ کی آواز نے سر رفیق کو متوجہ کیا ۔ سعدیہ کوئی مسئلہ ہے سر اونچی آواز میں بولے ۔ نہیں سر میں تو دعا کو کہہ رہی تھی کہ میری پنسل واپس کرےسعدیہ نے کھڑے ہوکر تازہ تازہ بہانہ ۔سنایا ۔ سعدیہ مجھے مجبور نہ کریں کہ میں آپ کی سیٹ چینج کروا دوں سر رفیق غصے سے بولے ۔۔ جی سر سعدیہ منہ بسور کر واپس بیٹھ گئی ۔ جبکہ دعا آگے پیچھے سے بےنیازاس کا سارا دھیان پیپر پر تھا ۔۔ دعا تمہیں تھرڈ کوسچن آتا ہے کہ نہیں ۔زعیمہ بولی شکر ہے سر رفیق کا دھیان ان کے موبائل پر تھا ۔ ارے یار نہیں آتا مجھے دعا اونچی آواز میں بولتی اٹھ کر کھڑی ہو گئی سر نے چشمے کے پیچھےسے دعا کو جانچتے نظروں سے دیکھا ۔ یار نہیں آتا مجھے مگر مجال ہے اپنے ساتھ ساتھ میرا پیپر بھی خراب کرواؤ گی مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تم دونوں کی ہیلپ کیسے کروں آج اگر میں تم لوگوں کو اپنا پیپر دکھا بھی دیتی ہوں تو کیا گرنٹی ہے کہ تم لوگوں کو آگے زندگی میں میری ضرورت نہیں پڑے گی ۔ کیا ہر جگہ نقل مار کے پاس ہونا ہے دعا منہ پہ دنیا جہان کی معصومیت لئے جھوٹے آنسو بہاتی اپنا پیپر رفیق سر ٹیبل پر رکھ کر ایگزیم ہال سے باہر نکل گئی ۔ جبکہ سعدیہ اور زعیمہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگی ۔ دعا کی بچی خود تو اس نے پہلا دوسرا چھوتھا کوسچن مجھ سے پوچھ کر لکھا اور مجھے کہا کہ اسے تھرڈ کو سچن آتا ہے ۔ اپنی باری پر دیکھا کیسے ناٹک کر کے نکل گئی باہر نکلتی سعدیہ نے زعیمہ کو بتایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلا دوسرا اور چوتھا کوشچن تم نے بتایا جبکہ پانچواں چھٹا اور ساتواں اسے میں نے بتایا ہے۔وہ کہہ رہی تھی کہ اسے تیسرا آتا ہے تیسرا لونگ ہے اس کے بدلے میں وہ تین سوالوں کے جواب مانگ رہی تھی اور میں نے دے دیے۔ ایک بات تو پکی ہے زندگی میں کبھی اس کی مدد نہیں کروں گی سعدیہ نے کہا ۔۔۔ ایک بار یہ لڑکی میرے ہاتھ لگے پھر دیکھنا میں اس کا کیا حال کرتی ہو ں اسے ڈھونڈتے ہوئے وہ کینٹین میں آگئی ۔۔ دیکھا تو وہ سامنے بیٹھی تین برگرز اور تین کولڈڈرنکس منگوائے بیٹھی تھی ۔۔ آؤ میں تم دونوں کا ہی ویٹ کر رہی تھی آج تم لوگوں نے میری کتنی مدد کی پیپر میں تو میں نے سوچا تھا ان تم لوگوں کو چھوٹی سی تھی ٹریٹ دے دوں دعا بولے جا رہی تھی۔ دعا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی۔۔ اچھا ٹھیک ہے ایم سوری اب میں تم لوگوں کو کیا بتاؤں مجھے تیسرے سوال کا جواب نہیں آتا تھا اب تم دونوں سے چھپاتھوڑی ہے مجھے باقی سوالوں کے جواب بھی نہیں آتے تھے دعانے سچ بتانا بہتر سمجھا ۔۔ جبکہ سعدیہ اور زعیمہ اب بھی اسے گھوررہی تھی ۔ دیکھو تم دونوں کھاتے کھاتے بھی مجھے گھور سکتی ہو آج کی ٹریٹ میری طرف سے ہے۔۔۔۔ اب مان جاؤ نا یار دعا نے روتی شکل بنائی جس پے سعدیہ اور زعیمہ دونوں ہنس دی اگر آج تم نے یہ ٹریٹ نہ دی ہوتی دعا تو قسم کھا کے کہتی ہوں تمہارا قتل کر دیتی زعیمہ نے کہا ۔۔۔ کھاتے کھاتے وہ باتوں میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔ جب کالج کا پیون دعا کے پاس آیا ۔۔ دعا باجی آپ کے ابو باہر آگئے ہیں آپ کو بلا رہے ہیں پیون بتا کر چلا گیا ۔۔ ٹھیک ہے یار اب منڈے کو ملاقات ہوگی وہ سعدیہ اور زعیمہ کو خدا حافظ کہہ کر چلی گئی ۔۔ ابھی سعدیہ اور زعیمہ برگر کھا کر بیٹھی ہوئی تھی کہ کینٹین کے ورکر نے ان کے ٹیبل پر آکر بل رکھا ۔۔ ارے یہ بل دعادے کے گئی ہے نہ سعدیہ نے کہا ۔۔ نہیں میم انھوں نے کہا تھا کہ بل ان کی بے وقوف سہیلیاں دیں گی۔۔۔۔ اس کی اس بات پر سعدیہ اور زعیمہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ اب منڈے کو دعا کا قتل یقینی تھا۔
۔تم چاہے کچھ بھی کر لو میرا منہ نہ کھلوا پاؤگے مصطفیٰ حیدر ۔۔ یاسر خان اس وقت پولیس کی گرفت میں تھا ۔ مجھے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی یاسرحان تم ابھی تک مصطفیٰ حیدر کو سمجھ نہیں پائے ۔۔ لبوں پے شاطرانہ مسکراہٹ لیے مصطفیٰ اس کے سامنے والی کر سی پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو مصطفیٰ حیدر تمہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بتاؤ کیا قیمت ہے تمہاری یاسر ایک الگ انداز میں بولا ۔۔ میری قیمت تم جیسے چمچے ادا نہیں کر سکتے مصطفی کے لبوں سے مسکراہٹ اب بھی جدا نہ ہوئی ہاہاہا ۔تم غلط سوچتے ہو مصطفی حیدر ابھی تک اس کیس کے بارے میں صرف تم جانتے ہو یا تمہارے اندر کام کرنے والے کچھ لوگ اور میں تمہیں اس کیس کو بند کرنے کی منہ مانگی قیمت دے سکتا ہوں یاسر خان نے اسے لالچ دینے کی کوشش کی ۔ بولو میری آزادی کی کیا قیمت ہے ۔۔؟ بس تمہارے باس کا نام ۔۔مصطفی نے فوراً قیمت بتا دی۔۔۔ ہاہاہا اور تم جانتے ہو کہ یہ تو میں کبھی نہیں بتاؤں گا یاسر قہقہ لگا کر ہنسا ۔۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ مصطفی حیدر جان کر رہتا ہے مصطفی نے اٹھ کر ایک زوردار جاپھڑ اس کے منہ پر مارا ۔۔۔ تم نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں یاسر غصے سے دھاڑا ۔۔۔ اور تہمیں اندازہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور میں تم جیسے کتنوں کو سیدھا کر چکا ہوں ۔ مصطفی نے اسی کے انداز میں جواب دیا ۔ تم میری زبان کبھی نہیں کھلواؤ پاو گےیاسر خان بولا ۔ میں نے کہا نہ یاسر خان ابھی تو مجھے ٹھیک سے جانتے نہیں اگر میں یہ زبان نہیں کھلوا پایا تو یہ زبان کاٹ دونگا ۔اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی جیب سے تیز دھار کا چاقو نکال کر اس کا ہاتھ ٹیبل پرپٹخکا اور چھوٹی انگلی کاٹ دی ۔۔ یاسرخان درد سے بلبلا اٹھا ۔۔۔ تمہارے پاس دس دن ہے یاسر خان ۔۔ دس دن میں اپنی زبان کھول دو ورنہ ہر دن تمہاری ایک انگلی کٹے گی اوردس دن کے بعد تم اپنے ہاتھوں سے کبھی کوئی کام نہیں کر پاؤ گے ۔ پھر کیا اکھاڑ لوگے اپنی زبان سے شطرانہ مسکراہٹ مسکراتے ہوئے مصطفی باہر نکل گیا ۔۔ باہر آیا تو ریاست پر اس کی نظر پڑی ۔ چاچا ریاست تھانے کی صفائی کرنے آتے تھے لیکن بہت دنوں سے طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آرہے تھے آج انہیں دیکھتا وہ ان کے قریب آگیا ۔۔ ارے چاچا بہت دنوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں سچ کہوں تو اکیلے چائے پیتے مزا نہیں آتا اب کیسی طبیعت ہے آپ کی۔ ہاں بیٹا میں اب بالکل ٹھیک ہوں میں چائے لے کے آتا ہوں یہ کہہ کر چاچا باہر جانے لگے ریاست چاچا ہمیشہ یہ سوچ کر حیران ہوتے کہ اس تھانے کے باقی سب انسپیکٹر ان سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن انسپیکٹر مصطفی حیدر روز ان کے ساتھ چائے پیتا تھا اور اس کے علاوہ بھی ان کی بہت مدد کرتا تھا مصطفی حیدر مجرموں کے لئے جتنا سخت طبیعت تھا اپنوں کے لئے اتنا ہی نرم دل رکھتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر اب اس کا اگلا کیس یاسر خان تھا جو ایک بہت بڑے اسمگلنگ گنگ میں شامل تھا ۔اور مصطفی کا مقصد اس کا منہ کھلواکر اس کے باس تک پہنچنا تھا تھا۔۔۔۔۔۔۔l
آج کیا کر کے آئی ہیں آپ دعا ۔۔؟بابا اس کی ہنسی دیکھ کر پہچان گئے۔۔ ۔ ہاہاہاہا بابا آج میں نے سعدیہ اور زعیمہ کو پھر سے بے وقوف بنا دیا دعا نے ہنستے ہوئے بتایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ نے ایسا کیوں کیا ۔۔؟بابا نے پوچھا ۔۔ کیونکہ وہ پیپر میں میری مدد مانگ رہی تھی جوان معصومیت سے بتایا ۔۔ تو وہ آپ کی سہیلیاں ہیں آپ ان کی مدد کر دیتی بابا نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ بابا اگر مجھے خود آتا تو ضرور کرتی ۔۔۔ انہوں نے بھی تو میری بہت ساری مدد کی تھی دعانے سچ بتایا ۔ اور ان دونوں نے آپ کی کیا مدد کی تھی ۔۔؟ بابا سعدیہ نے مجھے پہلا دوسرا اور چوتھا سوال بتایا جبکہ زعہمہ نے مجھے پانچواں چھٹا ساتواں سوال بتایا بہت ہیلپ ہوگی آج میرے پیپر میں افسوس میں ان دونوں کی کوئی ہیلپ نہیں کر پائی۔ ۔۔۔ یعنی کہ آپ کو ساتوں سوال نہیں آتے تھے پیپر کے بابا کو حیرت نہیں ہوئی وہ کیمسٹری میں ہمیشہ سے کمزور تھی۔۔۔ نہیں مجھے ایک بھی نہیں آتا تھا سارا آؤٹ آف بک تھا جو میں نے پر اس میں سے ایک بھی نہیں آیا ہمیشہ والا بہانہ بنا کر دعا ایک طرف ہوگی ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے آپ اپنی ماں کو مت بتانا ورنہ پھر سے ڈانٹنا شروع کردے گی پلیز بابا دھمکی تو سچی دیا کریں چپل سے کوئی ڈانٹتا نہیں ہے مارتا ہے دعا نےمنہ بنا کر کہا ۔۔۔۔۔ اور سلطان صاحب کی 19 سالہ بیٹی آج بھی اپنی ماں سے مار کھاتی تھی ۔۔سلطان صاحب ایسے بچپنا جبکہ ہاجرہ بیگم پاگل پن کہتی تھی ۔۔ ہاجرہ بیگم اور سلطان صاحب کی ایک ہی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے وہ دونوں ہی بہت محبت کرتے تھے ۔۔ جبکہ ان کے باقی خاندان کا دعا کو کوئی اتا پتا نہ تھا ۔۔۔ وہ ہمیشہ اپنے بابا سے اپنے خاندان کے بارے میں پوچھتی بابا کہ دیتے کہ اس کے تایا تآئی ہے لیکن ان کے بارے میں بتاتے کچھ نہیں۔۔۔ ۔ اس کی دونوں سہیلیاں اپنے کزن کے قصے سناتی تھی۔ ۔۔ اسے بہت شوق تھا کہ اسکے بھی کزن ہو جس کے ساتھ خوب مستی کرے بہن بھائی اس کا کوئی ویسے بھی نہیں تھا ۔۔ جب زعیمہ اور سعدیہ اسے اپنے کزن اور بہن بھائیوں کی کہانیاں سناتی تو اس کا دل کرتا کے کرائے پہ اپنے لیے بہن بھائی اور کزنز خرید لے ۔۔ جن کے ساتھ خوب مستیاں کرے پھر ان کی شرارتیں اپنی سہیلیوں کو سنائیں ۔۔ اسے بہت اچھا لگتا اس کے دل میں خواہش جاگتی کاش اس کے بہن بھائی اور کزن ہوتے جن کے ساتھ مل کر یہ بھی خوب مستیاں کرتی ۔ لیکن اس کی یہ خواہش ادھوری ہی رہی ۔۔۔
آج یاسر خان کو پکڑتے تیسرا دن تھا اور تیسری انگلی کرٹتے ہی اس کی زبان کھل چکی تھی۔ ۔۔ میں۔۔ میرے باس کا نام طارق بھٹی کے ہے اور وہ اس ہفتے پاکستان سے دوبئی لڑکیاں سمگلنگ کرنے والا ہے ۔۔۔ وہ ہر ہفتے منگل کے دن تقریباً دس سے پندرہ لڑکیاں دوبئی بھیجتا ہے ۔۔ ان لڑکیوں میں 15 سے 35 سال کی لڑکیاں اور عورتیں بھی شامل ہیں ۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر مصطفی کو مزید غضہ رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یاسر خان کا منہ توڑ دے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسے ابھی اور انفرمیشن کلوانی تھی اور تم لوگ یہ ساری لڑکیوں کہاں سے لاتے ہو مصطفی نے مزید پوچھا ۔۔۔ ہمارے گینگ میں 15 سے 20 لڑکے ایسے ہیں جو آفیئر چلاتے ہیں اور راتوں رات لڑکیوں کو بھگا کر لے آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سنسان سڑکوں پر چلنے والی لڑکیاں زیادہ تر کالجوں اور سکولوں سے چھٹی کے وقت اغوا ہونے والی لڑکیاں یا روزگار کے لئے بھٹکنے والی لڑکیاں ۔ اور کچھ اوراپنی مرضی سے یہ کام کرتی ہیں یاسر خان ساری تفصیل مصطفی کو بتا دی تھی۔۔ جسے اس نے ایک ویڈیو میں سیف کر لیا تھا اب ہمارا اگلا مقصد آزادکشمیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی کی پولیس اور سیاسی ادارے ہمارے پیچھے پڑ چکے ہیں اس لئے اب ہم نے کراچی کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔۔۔ اب طارق بھٹی آزاد کشمیر میں ہے ۔۔ اور اگلے تین ماہ تک وہیں رہے گا اور جتنا ہو سکے وہاں سے فائدہ اٹھائے گا ۔۔یاسر خان نے ایک ایک بات بتا دی تھی ۔۔ اور اب مصطفی کا مقصدطارق بھٹی جیسے اپنے ہی ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکرنے والے درندوں کو ان کے انجام تک پہنچانا تھا جونہ تو کسی کی ماں دیکھتے ہیں اور نہ ہی بہن ان کا مقصد صرف اپنی ہوس مٹا نا اور پیسہ کمانا ہوتا ہے مصطفی نے آج اپنے گھر انفارم کردیا تھا کہ وہ کل آزاد کشمیر کے لئے نکل رہا ہے ۔ بیٹا ہو سکے تو تم اپنے جا کے گھر رکھنا ۔ ٹھیک ہے بابا تھا چچا کوئی انفارم کر دیجئے گا یہ کہہ کر اس نے فون جیب میں ڈالا اور ریاست چاچا سے ملنے چلا گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے لیے چائے انہوں نے تیار رکھی ہوگی۔
بابا آپ نے تو مجھے کبھی نہیں بتایا کہ میرا کوئی کزن ہے ۔ ۔بابا نے دعا کو سرپرائز کیا تھا کہ اس کا کزن ان کے گھر کچھ دن رہنے کے لیے آ رہا ہے ۔ دعا نے حیرانگی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا ۔ تو بیٹا کیا تمہیں یہ جان کر خوشی نہیں ہوئی کہ تمہارا کوئی کزن ہے اور وہ یہاں آ رہا ہے ۔ خوشی بابا میں تو خوشی سے پاگل ہو جاؤں گی میں اسے اپنے دوستوں سے ملواؤں گی اسے اپنے ساتھ کالج میں لے کے جاؤ گی۔۔ اس کے ساتھ مستیاں کروں گی ۔۔۔اسی کے ساتھ دوستی کرو گی اور کالج میں کسی کے کو لفٹ نہیں کروں گی ۔ دعا نے خوشی خوشی اپنی ساری Planning ایک ہی بار میں بتا دی ہاہاہا ہا تو ٹھیک ہے کل وہ آ رہا ہے بابا نے بیٹی کی اکسائیٹمنٹ دیکھتے ہوئے بتایا ۔۔ ٹھیک ہے کل میں کالج نہیں جاؤں گی اگر میں کالج چلی گی تو اسے پتہ کیسے چلے گی میں اس کا کتنا ویٹ کر رہی ہوں دعا نےکہا ۔ نہیں بیٹا آپ کل کالج جاؤ گی جب تک آپ واپس آؤگی تب تک وہ آ جائے گا ۔ دعا کا پیپر نہ ہوتا تو شاید بابا چھٹی کروا بھی لیتے دعا کو اپنے کالج اور اپنی پرھائی سے چڑ تھی وہ تو کالج میں صرف انجوائمنٹ کے لئے جاتی تھی۔ اس نے کون سا آگے جا کے جاب کرنی تھی جو کیابوں میں اپنا سر کھاپتی یہ دعا کی سوچ تھی۔ ۔۔۔۔
دعا نہ جانے کب سے زعیمہ اور سعدیہ کا سرکھارہی تھی ۔ ہاں ٹھیک ہے ہمہیں پتہ چل گیا ہے کہ تیرا کزن آیا ہے سعدیہ نے اس کی نقل اتارتے ہوئے کہا ۔ ہاں لیکن تم دونوں کو یہ تو نہیں پتا نہ کہ وہ جتنے دن یہاں پہ رہے گا میں تم دونوں کو زیادہ اہمیت نہیں دے سکتی ۔۔۔گویا اعلان کیا کہ وہ ان دونوں کو لفٹ نہیں کروانے والی اس کی بات پر سعدیہ اور زعیمہ کا منہ کھل گیا ۔۔۔۔۔ کیوں زعیمہ نے منہ بنا کر پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے یار سمجھنے کی کوشش کرو مجھے اس سے دوستی کرنی ہے اسے کالج دکھانا ہے اسے پورا آزاد کشمیر دکھانا ہے ۔ وہ یہاں پہلی بار آ رہا ہے دعا ایسے کہہ رہی تھی جیسے اس کا کوئی کزن نہیں بلکہ کوئی سُپر اسٹار آرہا ہے جس کی وجہ سے یہ باقی لوگوں کو اہمیت نہیں دے پائی گی بس کردے یار تیرے نخرے ہمارے بھی کزنز ہیں ہم نے تو کبھی نہیں انہیں اتنی اہمیت دی ہیلو تمہارے کزن اور میرے کزن میں بہت فرق ہے وہ میرا بسٹ فرینڈ ہوگا دعا نے ایک سٹائل سے کہا ۔۔ مطلب کے اس کے سامنے ہماری کوئی ویلیو نہیں ہے سعدیہ نے منہ بگاڑ کر پوچھا ۔ وہ پہلی بار آ رہا ہے تم دونوں تو سالوں سے میرا سر کھا رہی ہو فلحال تم دونوں کو اپنا مقابلہ اس سے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے دعا نے اس کا جواب دینے کی بجائے سنادی ۔ دیکھ رہی ہو زعیمہ ابھی اس کا کزن آیا نہیں تو اتنی بدل گئی جب آ جائے گا یہ تو ہمیں بالکل دیکھے گی بھی نہیں ۔ یار بس کرو اپنے ڈرامے بابا آنے والے ہوں گے میں باہر جا کے ان کا ویٹ کرتی ہوں۔ دعا کہتےہوئے اٹھی گویا انہیں بتایا ہو کے واقع ہی اس کے کزن کے آ جانے کے بعد ان دونوں کو لفٹ نہیں کروائے گی۔۔ چار دن کے لئے کزن آرہا ہے جب چلا جائے گا دیکھنا پھر واپس ہماری منتیں کرے گی سعدیہ نے کہا پھر ہم اسے لفٹ نہیں کرائیں گےزعیمہ نے بھی پلان بنایا