Add To collaction

لیکھنی ناول-22-Oct-2023

تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر4

دعا گھر آتے ہی کمرے میں بند ہو گئی تھی ۔پتا نہیں سعدیہ کیا سوچ رہی ہوگی کیسا عجیب کزن ہے میرا اور میں اس کی تعریفوں کے پل باندھتی رہی ۔اب وہ دونوں میرا مذاق اڑایں گی ۔۔ مجھے بھی کیا پڑی تھی اس کی تعریفیں کرنے کی کیا تھا اگر وہ سعدیہ سے حال ہی پوچھ لیتا ہے خیر اس نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا تو اس سے کیا پوچھتا ۔۔ آ جانے دے آج بابا کو دیکھنا کیسے ایک ایک بات بتاتی ہوں پھر پتہ چلے گا کہ مجھ پر حکم چلانے کا کیا انجام ہو تا ہے ۔ بابا تو آج ہی اس کا سامان پیک کروا کر گھر سے باہر نکال دیں گے ۔۔ ابھی وہ یہی سب سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی جی ماما۔۔ اس نے دروازہ کھولتے کہا بیٹا وہ تمہارے تایا کا فون آیا ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں ماما نے مسکراتے ہوئے کہا تایا ابو کی وجہ سے ہی تو کل اس کی مصطفیٰ نے بے عزتی کی تھی ۔مجھ سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں دعا نے پوچھا بیٹا تمہارے تایا ہیں بیمار ہیں انہیں سارے دن میں بس تھوڑی دیر فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن آج تم سے بات کرنے کے لیے وہ ڈاکٹر سے لڑ پڑیں اور فون کر لیا۔۔نیچےآو ان سے بات کر لو ماما اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی ماما میں بہت تھکی ہوئی ہوں سر میں بہت درد ہے میرا کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کر رہا آپ ان سے معذرت کر لیں پھر فون آئے گا تو میں بات کر لوں گی۔۔ ۔دعا نہیں بات کرنا چاہتی تھی اس لئے بہانہ بنانے لگی ۔ لیکن وہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں ماما نے سمجھانا چاہا ۔ لیکن ماما میں نہیں کرنا چاہتی آپ جاکر منع کر دیں وہ نہیں مانی تو ماما واپس آگئی ۔ کیا ہوا چاچی بھلائیں نہ اسے بابا فون پر ہیں مصطفٰی نے فون کان سے لگائے کہا ۔ بیٹا وہ کہہ رہی ہے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بہت تھکی ہوئی ہے آرام کرنا چاہتی ہے اگلی بار بات کرے گی ۔ماما نے شرمندہ ہو کر بتایا ۔ آپ بات کریں میں اسے لے کر آتا ہوں فون ہاجرہ کو تھاما کر وہ اس کے کمرے میں چلا گیا ۔ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر تو دعا کو بہت غصہ آیا ۔ آپ کو اتنی تمیز نہیں ہے کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے نوک کیا جاتا ہے اس نے اسی کی بات اسے یاد دلاتے ہوئے کہا ۔ دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے میرا نیچے چلوباباتم سے بات کرنا چاہتے ہیں وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لے جانے لگا میرے سر میں درد ہے میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ذرا سا سر میں درد ہی ہے نہ کہ کینسر تو نہیں ہے تمہیں۔۔ بابا کو کینسر ہے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔ وہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں شرافت سے چلو ورنہ مجھے دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑے گا ۔ اس کی بات سن کر دعا کو بہت افسوس ہوا اس کے تایا کینسرکے مریض ہیں وہ بنا چوں چراں کیے اس کے ساتھ نیچے آ گئی ۔ تایا سے بات کے کر اسے بہت خوشی ہوئی اگر ان سے بات نہ کرتی تو اس کے بعد اسے اس بات کا افسوس رہتا کیونکہ وہ ایک بہت اچھے انسان تھے ۔ لیکن افسوس ان کے پاس زیادہ وقت نہ تھا ۔لیکن وہ سوچ رہی تھی کہ یہ سب رشتے اتنے وقت سے کہاں تھے ۔ان سب کے بارے میں کیوں نہیں پتا تھا ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماما میری دوست کی بہن کی شادی ہے مجھے اس کے لئے شاپنگ پر جانا ہے ۔ آپ پلیز میرے ساتھ چلیں۔ مصطفی ابھی ابھی گھر آیا تھا جب دعا نے کہا ۔ ہم کل چلیں گے دعا ۔ابھی تو شام ہو رہی ہے اندھیرا ہو جائے گا ۔ نہیں ماما میں نے آج ہی جانا ہے کل تو مایوں ہے ۔دعا نے بتایا تو تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔تم ہر کام دیر سے کرتی ہو ماما نے اسے ڈانٹا اس وقت میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی اور تم بھی اس وقت کہیں نہیں جا سکتی ماما نے انکار کر دیا لیکن ماما کل مجھے مایوں کی رسم پر جانا ہے دعا نے منہ لٹکتے ہوئے بتایا ۔ کوئی بات نہیں تم میرے ساتھ چلو مصطفی نے آفر کی نو تھینکس دعا نے منہ بنا کر کہا ۔ کیوں نہیں مصطفی بیٹا تم اسے لے جاؤ اور جلدی واپس لے آنا ۔ماما نے فوراً ہی اجازت دے دی لیکن ماما میں نہیں جانا چاہتی ان کے ساتھ ۔ کوئی لیکن وکن نہیں جاؤ جلدی سے اپنا بیگ اٹھا کر لاو اور جاو اس کے ساتھ اس کے پاس فالتو وقت نہیں ہے ۔ جو تمہارا انتظار کرتا رہے ۔ ماما نے اسے ڈانٹا اگر فالتو وقت نہیں ہے تو کس نے منتیں کی ہیں مجھے لے جانے کے لیے وہ بڑبڑاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گئی ٹھیک ہے میں گاڑی میں انتظار کرتا ہوں وہ بھی اٹھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ساتھ رکھ کر ایک ڈریس کو شیشے میں دیکھ رہی تھی ۔ بہت بکو اس ہے کچھ اور دیکھو ۔مصطفی نے پیچھے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔ میں نے آپ سے رائے نہیں مانگی دعا کو وہ ڈریس اچھا لگ رہا تھا اور مصطفی کا اس کا ڈریس کو بکواس کہنا بہت خراب لگا ۔ میں نے کہا نہ اچھا نہیں ہے تم نہیں لے رہی یہ۔ مصطفی نے اخ آرڈر دیا ۔ جی نہیں میں یہی لوں گی کیونکہ مجھے یہ پسند ہے ۔دعا ضدی انداز میں بولی ۔ لیکن مجھے یہ پسند نہیں ہے اور تم یہ نہیں لے سکتی اس نے چھینے والے انداز میں وہ ڈریس لیا اور کاؤنٹر پر پھینک دیا ۔ آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔؟ ۔آئے ہی کیوں ہے میرے ساتھ ۔دعا کو اب بھی اس پر غصہ آرہا تھا اور وہ مال میں کوئی تماشا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔کیونکہ یہاں کے سب لوگ اس کے بابا جانتے تھے ۔ مسئلہ میرے ساتھ نہیں مسئلہ تمہارے ساتھ ہے سیدھی طرح سے میری بات مان کیوں نہیں لیتی ہو ۔ کیوں مانوں آپ کی بات لگتے کیا ہے آپ میرے ۔۔؟جب آپ کا دل چاہتا ہے مجھ پر آرڈر چلانا شروع کر دیتے ہیں جب آپ کا دل چاہتا ہے مجھے ڈانٹنے لگتے ہیں ۔۔آپ کو پتہ ہے اگر یہ سب باتیں میں بابا کو بتا دوں تو وہ کیا کریں گے اس نے ڈرانا چاہا ۔ کیا کریں گے ۔۔۔؟وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا سیدھا کر دیں گے آپ کو ۔دعا اسی کے انداز میں بولی oh Really .میں ڈر گیا مصطفی نے مذاق اڑایا ۔ اور مال میں اس کی ایک نہ چلنے دی ۔ مصطفی نے اس کے لئے اپنی پسند کی ڈریس لی ۔اور پیک بھی کروا لی۔ کاش مال کے لوگ اس کے بابا کی قریبی دوست نہ ہوتے ۔تو کبھی اس کی پسند کی ڈریسز نہ لیتی ۔لیکن دعا ۔نے سوچ لیا تھا ۔وہ سعدیہ کی بہن کی شادی میں پرانی ڈریس پہن لے گی لیکن مصطفیٰ کی پسند کی کبھی نہیں پہنے گی ۔ ایسے ہی عادت ڈال لو میری ساری باتیں ماننے کی آگے زندگی میں آسانی رہے گی۔ مصطفی کی بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کیوں آپ کیا ہمیشہ ہمارے گھر میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔۔؟دعا نے جل کر کہا نہیں بلکہ تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لےجانے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔۔ کیا مطلب ۔دعا نے کنفیوز ہو کر پوچھا ۔ مطلب بھی سمجھ میں آجائے گا تم تھوڑا صبر تو کرو مصطفیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ چلو گھر آگیا تم اندر جاو مجھے کچھ کام ہے ۔کر کے آؤنگا ۔ ہاں تو جائیں نہ مجھے کیوں بتا رہے ہیں میں کون سا آپ کے انتظار میں مری جا رہی ہوں ۔ وہ پہلے ہی غصے میں تھی پھر کر جل کر بولی ۔جس پر مصطفی نےقہقہ لگایا ۔ آج نہیں کر رہی آگے تو کروگی نا ۔ نہیں میرا دماغ اتنا خراب نہیں ہے زور سے گاڑی کا دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی ۔ لیکن تم نے میرا دماغ خراب کردیا ہے دماغ کے ساتھ ساتھ نیت بھی وہ مسکراتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا اور اسے اندر جاتے دیکھا جیسے ہی وہ دروازے سے اندر ہوئی اس لئے گاڑی سٹارٹ کردی ۔جس دن سے طارق بھٹی نے ا سے دعا کے حوالے سے دھمکی دی تھی وہ دعا کو ایک سیکنڈ بھی اکیلے نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔ کیونکہ طارق بھٹی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا ۔طارق بھٹی جان چکا تھا کہ دعا اس کی کمزوری ہے ۔ اب وہ بہت جلد دعا اور اپنا فیصلہ کرنا چاہتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سعدیہ کی بہن کی مایوں تھی دعا نے جان بوجھ کر مصطفی کا دلایا ہوا ڈریس نہیں پہنا ۔ وہ پرانا ڈریس پہن کر تیار ہو کر نیچے آگئی ۔ تم نے یہ ڈریس کیوں پہنا ہے ۔کتنا پیارا ڈریس دلایا تھا مصطفی نے کہا ۔ مجھے آپ کا پیارا ساڈریس پسند نہیں ہے اور میں وہ نہیں پہنوں گی دعا ہمیشہ اپنی پسند کی چیزیں لیتی ہے دعا نے اسے بتانا ضروری سمجھا ۔ ہاں بابا ٹھیک ہے آج کے بعد اپنی پسند کی چیزیں لینا لیکن آج تو وہ والا پہن لو کیا سہیلی کی شادی میں پرانے کپڑے پہن کر جاؤں گی ۔مصطفی نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ جی نہیں میں نہیں پہنوں گی جو چیز مجھے پسند نہیں ہوتی تو وہ نہیں استعمال کرتی۔ ٹھیک ہے ۔اگر تم وہ ڈریس نہیں پہنو گی تو تم شادی پر نہیں جاسکتی۔ مصطفی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ میں جاؤ گی اور اپنی پسند کی ڈریس پہن کی جاوں گی آپ مجھے روک نہیں سکتے اور ہر بات پر مجھ پرآڑڈر چلانا بند کریں دعا نے غصے سے کہا ۔ ٹھیک ہے تم کہیں نہیں جا سکتی ۔مصطفی یہ کہہ کر باہر نکل آیا ۔چاچا چاچی جب تک یہ ڈریس چینج نہیں کرے گی یہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی آپ بھی اسے کہیں نہیں لے کے جائیں گے گویا اس نے ماما بابا پر بھی آرڈر چلایا ۔ ماما بابا انہیں سمجھاتے کیوں نہیں ہیں ان کی ہر بات کیو ں مانتے ہیں میں ان کی ہر بات نہیں مان سکتی ۔میں اپنی پسند کی ڈریس پہن کے جاؤں گی دعا نے ضدی انداز میں کہا ۔ دعا کتنی ضدی ہوتی جارہی ہے تم جاؤ کپڑے چینج کرو مصطفی تمہیں چھوڑ آئے گا ۔ماما نے غصے سے کہا منہ بسور کر کپڑے چینج کرکے آگئی ۔ماما بابا سے ناراض سہی لیکن وہ سعدیہ کی بہن کی مایوں کو نہیں چھوڑ سکتی تھی ۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔گاڑی میں بیٹھے ہی مصطفیٰ نے کہا ۔ دعا بدلے میں کچھ نہیں بولی ہاں مگر گھوری سے نوازنا ضروری سمجھا ۔ بابا کب آئیں گے ۔اب تو کچھ کرنا ہی پڑے گا ۔مصطفی زیر لب بڑ بڑ ایا دعانے سننے کی کوشش کی مگر نہیں سن پائی اکیلے آنے کی ضرورت نہیں ہے میں لینے آؤں گا تمہیں ۔کسی کے ساتھ بھی مت آ جانا ۔اس نے Indirectly سعدیہ کے ساتھ کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا نے اسے آٹھ بجے کا لینے کے لئے کہا تھا ۔ لیکن وہ سات بجے ہی آ گیا ۔ کسی کو اس نے دعا کو اپنے آنے کی خبر دینے کا کہا اور باہر اس کا انتظار کرنے لگا پندرہ بیس منٹ کے بعد بھی وہ نہ آئی۔ تو اسے خود ہی اندر آنا پڑا۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد وہ اسے لڑکے کے ساتھ کھڑی نظر آئی ۔ مصطفیٰ کے ماتھے کی رگیں غصے سے باہر آگئی ۔ اسے کبھی گوارا نہ تھا کہ دعا کسی لڑکے سے اس طرح سے بے تکلف ہو کر باتیں کرے۔ وہ اس کے پاس آیا اور بنا اس لڑکے کو مخاطب کیے دعا کا ہاتھ پکڑا اور زبردستی گھسیٹ کے اپنے ساتھ لے آیا ۔ مصطفیٰ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ میرا بیگ فون اوپر پڑا ہے سعدیہ کے کمرے میں ۔ میں لے کر آتی ہوں ایک منٹ روکیں۔ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی ۔ کیونکہ وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی کہ مصطفیٰ اس کے ساتھ اس طرح سے کیوں کر رہا ہے ۔ بتاؤ لڑکا کون تھا ۔۔؟اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے گاڑی کے ساتھ لگائے پو چھ رہا تھا ۔ وہ سعدیہ کے بھائی ہیں یاور بھائی ۔دعا نے اسے بھائی بول کر جیسے بات ہی ختم کردی ۔ مصطفیٰ ایک دم پرسکون ہو گیا ۔ تم اس کے ساتھ کیا باتیں کررہی تھی مصطفیٰ نے پھر پوچھا میں باتیں نہیں کر رہی تھی میں تو کھڑی تصویریں بنا رہی تھی کہ یاور بھائی میرے پاس آئے اور باتیں کرنے لگے اسے لگ رہا تھا کہ مصطفی میں ماما والی روح آ گئی ہے ۔ضرور ماما نے اسے اس کی جاسوسی کرنے بھیجا ہوگا ۔ کیونکہ ماما بھی اسے کسی لڑکے کے ساتھ بات نہیں کرنے دیتی تھی۔ اب اگر میں ان سے بات نہ کرتی تو وہ کیا سوچتے اس لڑکی کو مینرز ہی نہیں ہیں ۔دعا نے سمجھداری سے بولی۔ ہاں ٹھیک ہے لیکن آئندہ میں تمہیں اس طرح سے کسی لڑکے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے نہ دیکھوں۔ سہیلی کی شادی پر آئی تھی نہ ہوگی شادی اب گھر چلو ۔پھر حکم دیا گیا ۔ دعا کا موڈ بہت خوشگوار تھا جسے وہ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میرا بیگ اور موبائل سعدیہ کی کمرے میں پڑا ہے اور میں اس سے مل کر بھی نہیں آئی ۔ ٹھیک ہے تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں اگر پانچ منٹ سے اوپر ایک سیکنڈ بھی اوپر ہوا تو میں اندر آؤں گا اور تمہیں اٹھا کر لے آؤں گا اور اس کے لیے مجھے کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔گویا دھمکی دی ۔ اور دعا جانتی تھی کہ اگر وہ ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے کر آ سکتا ہے تو اٹھا بھی سکتا ہے ۔ جی میں بس پانچ منٹ میں آتی ہوں ۔ اور پانچ منٹ ساڑھے تین منٹ میں ہی ختم ہوگئے وہ واپس آگئی۔ دیکھا کتنی جلدی واپس آئی دعا نے پھولی سانس میں خوش ہو کر کہا ۔ جیسے بہت بڑا کارنامہ کر دکھایا ہو گڈ گرل آئندہ بھی ایسے ہی میری ساری باتیں ماننا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاچو ڈاکٹر نے بابا کو اجازت دے دی ہے گھر آنے کی مصطفیٰ نے آتے ہی خوشخبری سنائی۔ گریٹ کتنا مزا آئے گا میں تایاابو سے پہلی بار ملوں گی دعا نے خوش ہو کر کہا جس پر مصطفی مسکرایا ۔ پہلی بار تو نہیں تم پہلے بھی بہت بار بابا سے مل چکی ہو مصطفی نے اسے یاد دلانا چاہا ۔ کب میں تو کبھی نہیں ملی تھی ان سے ۔۔ بیٹا تب تم بہت چھوٹی تھی تم صرف چھ سال کی تھی جب ہم آزاد کشمیر میں شفٹ ہو گئے ۔ماما نے اسے بتایا وہ ٹھیک ہے ماما لیکن اس کے بعد ہم کبھی تایا ابواور ان کی فیملی سے ملے کیوں نہیں ۔دعا نے پوچھا ۔ کیونکہ اس وقت ہمارے گاؤں میں خاندانی دشمنی چل رہی تھی ۔ ہمارے دشمنوں نے چھوٹے چاچا اور ان کی ساری فیملی کو قتل کردیا تھا ۔ اور سلطان چاچا کو بھی قتل کر دینا چاہتے تھے ۔ اس لیے بابا نے ان لوگوں کو آزادکشمیر بیج کر ان سے سارے رابطے ختم کردیے ۔ ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی ہم ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ۔ سات سال تک ہم ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کر پائے ۔پھر کچھ عرصہ پہلے یہ مسائل حل ہوئے ۔ اور پھر ہمارا رابطہ بحال ہوگیا ۔ اور ویسے بھی یہ رابطہ بحال کرنا بہت ضروری تھا ۔آخر ہمارے فیوچر کا سوال ہے ۔کیوں چاچی ۔۔۔؟ اس نے ساری بات بتاتے ہوئے آخر میں ہاجرہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہا ۔ ہاں بیٹا تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو ہاجرہ نے ہامی بھری ۔ ماما یہ دشمنی کس چیز کی تھی دعا ابھی تک دشمنی پے اٹکی ہوئی تھی جس چیز کی بھی تھی اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب وہ سارے مسائل حل جو ہو چکے ہیں اب تو بس ہمارا مسئلہ حل ہوگا ایک بار باباآ جائیں ۔بات کرتے کرتے آخر میں مصطفی مسکرایا ۔اس کے ساتھ ہاجرہ بھی مسکرادی۔ لیکن مصطفی کا مسئلہ جاننے میں دعا کو کوئی انٹرسٹ نا تھا اسی لیے کل کے فنکشن کے لئے ڈریس تیار کرنے چلی گئی

   1
0 Comments