Add To collaction

لیکھنی ناول-22-Oct-2023

تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر6

گاڑی میں وہ م¥سلسل اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا .. لیکن وہ اس طرح سے بیٹھی تھی جیسے اسے جانتی ہی نہیں .. یہاں تک کہ سعدیہ کا گھر بھی آگیا کیا مسئلہ ہے دعا تو مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی ہو.. نہ رہا پایا تو پوچھ ہی لیا .. شاید آپ بھول رہے ہیں تایا ابو نے آپ کو مجھ پر حکم چلانے سے منع کیا ہے اس نے یاد دلانے کی کوشش کی۔۔ لیکن دعا میں تم پر حکم نہیں چلا رہا میں تم سے بات کر رہا ہوں مصطفی نے بتایا ۔۔ لیکن میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی دعا نے منہ بناتے ہوئے کہا جس پر مصطفی کو غصہ آگیا ۔ دعا بیکار میں میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔میں تمہیں غلط کام کرنے سے روکتا ہوں تو تمہیں لگتا ہے تم پر حکم چلا رہا ہوں اور تم سے بات کرتا ہوں تو تم مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی کیوں ۔ مصطفی کو اپنی ذات کا اس طرح سے اگنور کیے جانا ہرگز اچھا نہ لگاتا ۔۔ کیونکہ آپ مجھے زہر لگتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کڑوے ۔مجھے نہ تو آپ سے بات کرنی ہے اور نہ ہی آپ کی کوئی بات سنی ہے ۔ یہ میری مجبوری ہے کہ میں آپ کے ساتھ یہاں آئی ہوں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ میں آپ کے ساتھ ایک لمحہ بھی برباد نہیں کر سکتی ۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ مجھ سے دورر ہے بات کرتے کرتے اس نے .مصطفی کے چہرے کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے کی سختی دیکھ کر ایک پل میں اسے چپ لگ گئی ۔ اتنا معصوم چہرا اور زبان زہر اگلتی ہے تم نہ مجھ سے بات کرنا چاہتی ہو نہ ہی میری کوئی بات سننا چاہتی ہو نا ۔۔۔۔۔؟ توکان کھول کر سن لو فیوچر میں تم صرف میری بات سنو گی اور تمہیں بات کرنے کے لیے بھی کوئی اور میسر نہیں ہوگا ۔ تم مجھ سے بات کرنے کے لیے بھی ترسو گی ۔۔۔ یہ تمہاری مجبوری ہے نہ تم یہاں میرے ساتھ آئی ہو زندگی بھر زندگی کے ہر قدم پر تم صرف میرے ساتھ چلو گی ۔۔۔۔ اور کیا کہا زہر لگتا ہوں میں تمہیں ۔تو مبارک ہو ساری زندگی یہی زہر کھا کے مر و گی۔ ۔۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑکر وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا ۔ اس کے غصے سے ڈر کر وہ فورا گاڑی سے اتری اور سعدیہ کے گھر کے دروازے سے کہیں غائب ہو گئی ۔ جبکہ مصطفی کی سخت نظریں ابھی تک سعدیہ کے گھر کے دروازے کو گھور رہی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے نہیں دیکھنا چاہتی تھی یہ اس کے اچھی قسمت تھی کہ اسے لینے کے لیے بابا آئے ۔ شکر ہے بابا مجھے لینے کے لئے آپ آئے ورنہ میں تو ڈر ہی گئی تھی ۔ کس سے ڈر گئی تھی تم بابا نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ پاپا آپ کے بھتیجے سے وہ تو مجھے کچا چبا جائے گا ہر وقت غصہ اس کی ناک پر سوار رہتا ہے ۔ آپ اسے میرے ساتھ نہ بھیجا کریں ۔ ۔ لیکن بیٹا تمہیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اس طرح سے کیسے گزاروں گی تم ساری زندگی اس کے ساتھ ۔بابا کی بات پر دعا کے کان کھڑے ہوگئے ۔ ساری زندگی ۔بری بہت مشکل الفاظ ادا کیے ۔ ہاں بیٹا ساری زندگی ۔تم نے اور مصطفی نے ساری زندگی ایک ساتھ رہنا ہے ۔ لیکن کیوں بابا ۔دعا کو سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ کیونکہ ہم تم دونوں کی شادی کر رہے ہیں کتنا خوش قسمت انسان ہوں میں کہ میری بیٹی غیروں میں نہیں جائے گی ۔ مصطفی تمہارا بہت خیال رکھے گا ۔ ایک منٹ بابا میں مصطفی سے شادی نہیں کر سکتی ۔میں نے کبھی اس کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں ہے وہ مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے ۔ ہم ایک ساتھ ارجسٹ نہیں ہو سکتے ہماری نیچر بہت الگ ہے ۔ وہ عمر میں مجھ سے کتنا بڑا ہے ابھی میں پڑھ رہی ہوں ۔دعا نے ایک ساتھ کتنے ہی ریزن دے دیے جیسے بابا ابھی اس سے مصطفی کے ساتھ رخصت کر رہے ہوں ایم سوری بابا میں اس سے شادی نہیں کر سکتی اور وہ بھی کبھی نہیں مانے گا ۔اسے یقین تھا کہ مصطفیٰ بھی اسے کچھ خاص پسند نہیں کرتا ۔ وہ کون ہوتا ہے نہ ماننے والا ہم مان چکے ہیں ۔اور اب اس کے یا تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ نکاح تم دونوں کا بچپن میں ہی ہوچکا ہے اب تو صرف رسم ادا کرنی ہے ۔ پاپا نے پہلے مصطفی کا نام لے کر اس کے ہوش اڑائے تھے اور اب نکاح کا بتا کر ایک اور بم پھو ڑچکے تھے دعا بے یقینی سے کبھی اپنے باپ کو تو کبھی سڑک کو دیکھ رہی تھی جو تیزی سے اس کے گھر کی طرف جا رہی تھی تو کیا مصطفی جانتا ہے اس نکا ح کہ بارے میں ۔۔دعا کے ذہن میں پہلا سوال یہ آیا لیکن انجانے میں یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنے کی بجائے وہ کافی اونچی آواز میں بولی تھی ۔ ہاں وہ تو بچپن سے جانتا ہے ۔جب وہ 13 سال کا تھا اور تم 4 سال کی ۔ بابا نے اس کے سوال کا جواب دیا ۔ تو کیا آج صبح مصطفیٰ نے جو کہا وہ سب کچھ سچ کر دکھائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہتے ہیں ۔جب سلطان صاحب کے پیچھے دعا گھر میں داخل ہوئی ۔ بس ٹھیک ہے کوئی ضرورت نہیں اب ہمیں تمہاری ویسے بھی ہماری بھی بیٹی گئی ہے ۔بہت کوشش کے باوجود بھی جب مصطفی نہ مانا ۔تو دعا کے آنے کی بھی ایک الگ ہی خوشی ہوئی ۔ بیٹا جلدی سے لڈو لے کے آؤ ۔آج میں اور میری لاڈلی بیٹی لڈو کھیلے گے ۔اور لوگوں کو جلائیں گے انہوں نے مصطفیٰ کے طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔ لیکن دعا شاید ان کی بات سنی نہیں رہی تھی وہ بنا کچھ بولے سیڑھیاں چڑنے لگی ۔ سلطان کہیں تم نے میری بیٹی کو ڈانٹا تو نہیں ہے ۔۔؟ وہ سلطان صاحب کے ساتھ گھر واپس آئی تھی تو مصطفی کے ڈانٹنے کے تو کوئی چانس ہی نہیں تھے اسی لیے انہوں نے سیدھا سلطان کو گھیرا۔ نہیں بھائی صاحب میں نے ڈانٹا نہیں ہے میں نےا سے مصطفی اور اس کے رشتے کے بارے میں بتایا ہے ۔ میں نے سوچا گھر میں شادی کی باتیں چل رہی ہے تو اسے بھی انجان نہیں رکھنا چاہیے ۔ لیکن چاچو اس طرح سے اچانک بتانے کی کیا ضرورت تھی ۔ہم اسے آرام سکون سے بھی سمجھا سکتے تھے ۔اس طرح سے اچانک پتہ لگنے سے وہ ہرٹ ہو سکتی ہے ۔اور ہم کونسا آج ہی رخصتی کر رہے ہیں ۔دعا کا ری ایکشن دیکھ کر مصطفی کو یہی لگ رہا تھا کہ دعا کو ان کے نکاح کے بارے میں بتا کر اچھا نہیں کیا گیا ۔ نہیں بیٹا ۔بھائی صاحب شادی جلدی چاہتے ہیں اور یہ غلط نہیں ہے ۔دعا کو اس رشتے کی سمجھ ہونی چاہیے ۔ اور میں نوٹ کر رہا ہوں دعا تم سے بہت بد تمیزی کرتی ہے ۔نہ جانے کیوں تم سے اتنا چڑتی ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں کی شادی کے پہلے وہ تمہارے اور اپنے رشتے کے بارے میں سوچے اور سمجھے ۔لیکن جب تک وہ اس رشتے کی نزاکت کو نہیں سمجھے گی ۔وہ یہ رشتہ قبول نہیں کر پائیں گی اور مجھے لگتا ہے کہ اسے اس رشتے کے بارے میں پتہ ہونا چاہیئے ۔ تاکہ تم دونوں کو فیوچر میں کوئی مسئلہ نہ ہو ۔ فیوچرکے چکر میں میری لڈو گیم تو رہ گئی نہ اب کون کھیلے گا میرے ساتھ تایا ابو نے ان کا مسئلہ ایک سائیڈ پر رکھ کر اپنا مسئلہ کشمیر بتایا جس پر سارے ہنسنے لگے ۔ جی آپ کا یہ مسئلہ بھی حل کرتے ہیں ۔بتائیے کہاں ہے لڈو میں لے کے آتا ہوں ۔مصطفی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔کیونکہ اس وقت وہ خود بھی ٹینشن فری ہونا چاہتا تھا ۔ میں اپنی بیٹی کے بغیر نہیں کھیلوں گا اپنی بیٹی کا موڈ دیکھا ہے آپ نے ۔سیدھے منہ کسی سے بات نہیں کر رہی ہے ۔ ہاں تو تمہاری وجہ سے اس کا موڈ خراب ہوا ہے جاؤ سے مناو اور نیچے لے کے آؤ تاکہ میں اس کے ساتھ اپنی ٹیم بنا کے لڈو کھیل سکوں ۔ بابا میں جاؤں۔آپ جانتے ہیں نہ اس کا موڈ میری وجہ سے خراب ہو رہا ہے مجھے دیکھ کر اس کے منہ پر بارہ بجے جاتے ہیں ۔گویا آج تو ایسے جھٹکا دیا گیا ہے ۔ اس نے نکاح والی بات کی طرف اشارہ کیا ۔جس پر سب ہنسنے لگے ۔ ٹھیک ہے مت جاؤ میں خود جاتا ہوں اپنی بیٹی کو منانے کے لیے ۔اور یہ بھی کہہ دوں گا کہ اگر مصطفیٰ اسے پسند نہیں ہے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مصطفی سے اچھے لڑکے بھی ہے اس دنیا میں ۔اٹھتے اٹھتےانہوں نے مصطفی کو ڈرایا ۔ ہاں تو میں جا رہا ہوں نہ ۔وہ ایسے کے کمرے کی طرف بھاگا۔جیسے بابا سچ مچ میں دعا کی شادی کہیں اور کرادیں گے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو دعا کی سکیوں کی آوازیں آرہی تھی۔یقیناً وہ جب سے آئی تھی تب سے رو ہو رہی تھی۔ بیڈ پے اڑی ترچھی لیٹے آنکھیں سختی سے بند کیے ۔منہ دوسری طرف کیے وہ رونے میں مصروف تھی ۔ مصطفی آہستہ سے اس کے قریب آیا اور زمین پر بیٹھ کے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا ۔ یہ حق تو مصطفی کے پاس کئی سالوں سے تھا ۔لیکن استعمال کرنے کا موقع آج ہی ملا تھا ۔ بابا مجھے مصطفی سے شادی نہیں کرنی ۔مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے وہ بہت خراب ہے ۔آپ پلیز شادی سے انکار کردیں۔ اور ویسے بھی بابا بچپن کے نکاح کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ہم طلاق لے لیں گے ۔دعا اپنی طرف سے بہت سمجھداری کی بات کر رہی تھی ۔اور خود کو سلطان صاحب سے بہت زیادہ روٹھا ہوا محسوس کر وا رہی تھی ۔ جب اسے اپنی سر پر وزن محسوس ہوا ۔نرمی سے بالوں میں چلتا ہوا ہاتھ کب اس کے بال جکڑ گیا اسے سمجھ میں نہیں آیا ۔ آہ ۔درد کی شدت سے اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا نہ تو وہ اپنا سر اٹھا پا رہی تھی اور نہ ہی گردن ہلا پا رہی تھی تم مجھ سے طلاق چاہتی ہو بے حد قریب سے مصطفی کی آواز سنتے ہی دعا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ آپ میرے کمرے میں کیا کر رہے ہیں ۔بے حد غصے سے بولنے کے باوجود بھی وہ اپنا آپ چھڑوا نہیں پائی ۔ یہ بکواس تم نے میرے سامنے کی ہے اگر گھر میں کسی کے سامنے کی تو زبان گدی سے کھینچ لوں گا ۔ میں کہتی ہو چھوڑیں مجھے ۔جب سارا زور لگانے کے بعد بھی اپنا آپ چھڑوا نہیں پائی ۔تو غصے سے دھاڑتے ہوئے بولی ۔ ٹھیک ہے چھوڑ رہا ہوں اٹھو اپنا منہ صاف کرو اور نیچے چلو سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ مصطفی نے ایک جھٹکے سے خود سے دور کیا ۔ میں سب کو بتاؤں گی ۔کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی سنا آپ نے ۔کیوںکہ شادی انسانوں کے ساتھ کی جاتی ہے اور میری نظر میں آپ انسان ہی نہیں ہے ۔ غصے سے پہر پٹکتی وہ واش روم میں چلی گئی ۔ ہاں شوق سے سب کو بتانا ۔لیکن اس غلط فہمی میں مت رہنا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا ۔تم سے تو بہت سارے حساب بے باق ہونگے ۔جتنا تم نے مجھے تنگ کیا ہے سب کا بدلہ لوں گا ۔ مصطفی مسکراتے ہوئے اسے اور چھیڑنے لگا ۔ کیونکہ مصطفی کو وہ چڑتی ہوئی غصہ کرتی پسند تھی نہ کےرو تے آنسو بہاتی وہ جانتا تھا کہ پہلی ملاقات کی وجہ اس پر مصطفی کا کچھ خاص اچھا اثر نہیں پڑا ۔ لیکن تب مصطفی صرف اپنے کام کے سلسلے میں یہاں آیا تھا ۔اس کا ابھی شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ دعا اپنی پرھائی مکمل کر لے ۔لیکن دعا کو دیکھنے کے بعد اس کی نیت خراب ہوگئی ۔اور اس نے شادی کا فیصلہ کرلیا ۔ لیکن اسے اس بات کا زیادہ ڈر طارق بھٹی کی دھمکی کا تھا ۔جس نے یاسر خان کو نہ چھوڑنے کی صورت میں دعا کو اغواء کرنے کی دھمکی دی تھی ۔اور مصطفی دعا کے معاملے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔ لیکن وہ خود اسے اس نکاح کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اور اسے یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ یہ نکاح اس کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا ہے ۔لیکن اس سے پہلے چاچو نے دعا کو سب کچھ بتا کر اس کے سارے پلین پر پانی پھیر دیا ۔ ابھی تک وہ یہی سب کچھ سوچ رہا تھا جب دعا واش روم سے باہر آئی اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی اور بہت سرخ تھی ۔اگر وہ دعا کو نکاح کے ساتھ یہ بھی بتاتا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو یقیناً وہ اپنی حالت اتنی نہ بگارتا ..................................... وہ اسے زبردستی کمرے سے تو باہر لےآیا تھا لیکن زبردستی اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں لاپایا آج نا تو اس نے کوئی شور مچایا اور نہ ہی کوئی ہلا گلہ کیا بس خاموشی سے بیٹھی رہی اسے سمجھ ا چکا تھا کہ اگر یہ مصطفی کے ساتھ مزید لڑتی یا بدتمیزی کرتی ہے تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا کیونکہ مصطفی اس سے بدلہ لینے کے لئے اس حد تک جا سکتا تھا کہ بچپن سے جڑے رشتے کو ڈھال بنائے گا یہ دعا نے کبھی نہیں سوچا تھا ۔ لیکن دعا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس نے مصطفی کے ساتھ ایسا کیا برا کیا ہے جس کے بدلے میں وہ اس کے ساتھ اس طرح سے کر رہا ہے ۔ بیٹا تم اس طرح سے خاموش کیوں ہو تایاابو سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگے ۔ ہاں دعا کیا ہوا ہے تمہیں طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ۔۔؟مصطفی نے بھی پوچھا ۔ وہ بھی کب سے اس کے اداس چہرے کی وجہ جاننا چاہتا تھا ۔ تایا ابو مجھے یہ شادی ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی بابا بول پڑے ۔ کچھ نہیں بھائی صاحب اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔یہ کہتی ہے کہ سے ابھی شادی نہیں کرنی۔کیونکہ یہ پڑھنا چاہتی ہے ۔لیکن بیٹا تمہارے رزلٹ سے ہم سب واقف ہیں ۔اگر تم پڑھائی میں کچھ اچھی ہوتی تو ہم تمہاری شادی جلدی کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے ۔ بابا نے ایسےکہا جیسے کہہ رہے ہو کے اپنا منہ بند رکھو ۔ ہماری گڑیا کوئی پڑھائی کا طعنہ نہیں دے گا تم کون سا پڑھائی بہت اچھے تھے۔۔ وہ دعا کی اتری ہوئی شکل دیکھ کر بولے ۔ دیکھو بیٹا اگر تم پڑھناچاہتی ہو تو تمہیں کوئی نہیں روکے گا وہ یہ نالائق تو تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ انہوں نے مصطفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دیا ۔ لیکن بیٹا تم دونوں کی شادی بہت جلدی ہوگی کیونکہ میں اپنی زندگی ختم ہونے سے پہلے تم لوگوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔ تایا ابواب ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں دعا کرسی سے اٹھ کر صوفے پر ان کے ساتھ آ بیٹھی تھی ۔میں آپ کو کبھی کچھ نہیں ہونے دوں گی ان کے سینے پر سر رکھ کے وہ رونے لگی۔اتنے سالوں کے بعد تو اسے کوئی رشتہ ملا تھا اسے پتہ چلا تھا کہ ماں باپ کے علاوہ بھی کوئی رشتہ ہوتا ہے ۔ ارے میری بیٹی تو رونے لگی۔ میں نہیں جاؤں گا کہیں بھی ایک بار تمہاری شادی ہو جائے پھر تو فرشتے لینے آئے تب بھی انکار کر دوں گا ۔انہوں نے اسے خوش کرنے کی کوشش کی ۔ اگر تم اجازت دو تو ہم شادی کی تیاری شروع کریں اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا ۔ دلہا چینج کرنے کا آپشن ہے ۔۔؟ روتے روتے اور سوال پوچھا ۔جس پر مصطفیٰ نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا ۔ نہیں بیٹا اسی کے ساتھ گزارہ کرنا پڑے گا بابا نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر مصطفیٰ بھی مسکرا دیتا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر میں درد کی کی وجہ بہت کوشش کے باوجود بھی جب نیند نہ آئی تو اٹھ کر نیچے چلی آئیں اور اپنے لئے چائے بنانے لگی ۔ ابھی اس نے پانی رکھا ہی تھا کے پیچھے سے مصطفی کچن میں داخل ہوا ۔ ایک کپ چائے میرے لیے بھی ۔ایک اور حکم۔ اس نے کچا چھپا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔ آپ تو رات کو چائے پی کر نہیں سوتے طنزیہ کہا ہاں نہیں سوتا تھا لیکن اب سوچتا ہوں کہ عادت ڈال لوں اب شادی کے بعد تم روز رات کو اکیلی چائے پیوگی تو مجھے تمہارا ساتھ دینا پڑے گا نا ۔اس نے جس انداز میں طنز کیا تھا اس کے مقابلے جواب بہت محبت سے آیا تھا ۔ دیکھیں یہاں پر کوئی نہیں ہے نہ تایاابو اور نہ ہی بابا تو آپ کو مجھ سے اتنی نرمی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی آپ پر سوٹ بھی نہیں کرتا میرے ساتھ اتنا نورمل ہونا۔ جب کہ آج آپ مجھے صاف صاف بتا چکے ہیں کہ یہ شادی آپ بدلہ لینے کے لئے کر رہے ہیں ۔سارے دن کا جمع کیا اور غباراب وہ نکال رہی تھی ۔ دعا میں تم سے کس بات کا بدلہ لوں گا یار ۔صبح تم نے بدتمیزی کی طلاق کی بات کی مجھے غصہ آگیا ۔میں نے ڈانٹ دیا اور سچ کہوں تو مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے غصے میں تمہیں کیا کہا تھا ۔اتنا کچھ بولنے کے بعد بھی دعا کچھ نہ بولی بس اپنا کام کرتی رہی ۔ ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمہیں میری باتوں پر غصہ ہوگا ۔ٹھیک ہے ایم سوری دیکھو میں نے کان بھی پکڑ لئے وہ سچ مچ میں اپنے کان پکڑ کر سوری بول رہا تھا ۔لیکن دعا جانتی تھی کہ یہ سب کچھ صرف اسے بہلانے کے لیے کر رہا ہے سچ صرف وہ جو آج صبح اس نے کہا تھا ۔ چائے بنا کے جب وہ جانے لگی تو اس کے راستے میں آگیا ۔ دعا میں سوری بول رہا ہوں یار ۔مصطفی اسے جتنا اپنی ذات کو اگنور کرنے سے روکتا تھا یہ اتنا اسے اگنور کر رہی تھی۔ ٹھیک ہے میرا راستہ چھوڑیں دعا نے جان چھڑاتے ہوئے کہا ۔ ٹھیک ہے یعنی کے تم نے مجھے معاف کر دیا اب تم مجھے سوری بولو اس کا راستہ چھوڑنے کی بجائے ایک اور حکم دے دیا ۔ دعا اسے دیکھ کر رہے گی کیوں۔۔؟ میں کیوں سوری بولوں آپ کو ۔۔۔؟دعا نے پوچھنا ضروری سمجھا کیونکہ آج سارہ دن وہی اسے تنگ کر رہا تھا دعا تو اسے کچھ نہیں کہہ رہی تھی ۔ تمہاری وہ دولہا چینج کرنے کے اوپشن والی بات مجھے بہت بری لگی ۔اس لیے تمہیں مجھے سوری بولنا ہوگا ۔ مصطفیٰ نے کسی روٹھے ہوئے بچے کی طرح کہا ۔ مصطفی راستہ چھوڑیں میرا دعا کو یقین تھا کہ وہ صرف ٹائم پاس کر رہا ہے ۔ تم سوری بولے بغیر اپنے کمرے میں نہیں جا سکتی اور یہ کیا تم نے میرے لئے چائے کیوں نہیں بنائی ۔۔؟ یہ لیں آپ یہی چائے پی لیں بس مجھے جانے دویں دعانے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ۔ پہلے سوری بولو پھر میرے لئے چائے بناؤ یہ تمہاری چاہے اسے تمہیں بھی پیو ۔ چلو شاباش سوری بولو ۔وہ دعا کا چہرہ تھا میں زبردستی اس سے سوری بلوا رہا تھا ۔ ایم سوری اب میرا راستہ چھوڑیں دعارونا نہیں چاہتی تھی لیکن پھر بھی وہ رونے لگی ۔آج کا دن اس کی زندگی کی تاریخ میں سنہری لفظوں سے لکھا جانا تھا کیوں کے اس سے پہلے وہ اتنا کبھی نہیں روئی تھی ۔ یار اس میں رونے والی کونسی بات ہے ۔دعا ہم نے ساری زندگی ایک ساتھ گزارنی ہے تم مجھے اور مجھے تمہیں سمجھنا ہے ۔اسی لئے آج کے بعد میرے سامنے یہ بے فضول کے آنسو مت بہانا ۔ میں جانتا ہوں کہ مجھ سے پہلے تمہاری زندگی میں کوئی نہیں تھا تم ہمیشہ سے اپنے ماں باپ کی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھی اور تمہارے ماں باپ کی مرضی میں ہوں ۔اس لیے تمھارے یہ آنسو اور سوکوڈغم بےفضول ہے ۔اس لیے نورمل ہو جاؤ اور نورمل طریقے سے اپنی ہونے والی شادی کو انجوائے کرو ۔ ان سب خواہش پے دھیان دو جو ایک دلہن کی ہوتی ہے ۔ اور آج کے بعد میں تمہیں اس طرح سے آنسو بہاتے ہوئے نہ دیکھو ں۔ تمہاری ایک فیملی ہے دعا جس کو تمہارے آنسو تکلیف دیتے ہیں ۔ اور ہاں اب کمرے میں جا کے رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے جاکر آرام سے سو جاو کل ہم شادی کی شاپنگ پر جائیں گے ۔ مصطفی نے اسے جانے کی اجازت دی۔لیکن اس کی بات ماننے کی بجائے وہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی ۔ بیوقوف لڑکی۔بدلے کے لئے شادی کر رہا ہوں ۔۔۔بدلہ تو میں بس ان آنسوؤں کا لونگا ۔جن کی وجہ سے تم اپنی آنکھیں تباہ کر رہی ہو ۔۔

   0
0 Comments