Orhan

Add To collaction

موسم موحببت اور تم

پھر جب چچا جان پر فالج کا اٹیک ہوا تھا تو وہ دونوں بہت پریشان رہے تھے۔۔۔ دونوں چپکے چپکےروتے کبھی بھی ایک دوسرے کو حرف تسلی نہ دے سکے۔۔۔ اور پھر گھر۔۔۔ چچا جان کے وجود سے خالی ہو گیا تو جیسے مشکلات کا انبار ٹوٹ پڑا تھا۔

ساری جمع پونجی لگ چکی تھی اور ان کے تعلیمی اخراجات بھی بہت بھاری تھے ۔۔۔ وہ رات گئے ٹیوشنز پڑھا کر آتا تھا۔۔۔ وہ سہمی' سہمی ادھر ادھر گھومتی رہتی۔۔۔۔ چچا جان نے چچی جان جب حیات تھیں ان سے مشورہ کیا تھا اور پھر تقریبا پندرہ سال بعد ان کا نکاح کر دیا تھا ۔۔۔ اور وہ سمجھوتے کی چادر اوڑھے چپ رہے۔۔۔۔ یہی زندگی تھی۔۔۔ وہ گھر کا مرد تھا اور سارا سارا دن دھکے کھاتا تھا اور عقیدت اس کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔۔۔ وہ خود بھوک برداشت کر لیتی تھی مگر اسے کبھی بھوکا نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔ رات ڈھلنے سے صبح اترنے تک وہ اسے آرام دیتی تھی ۔۔۔ کپڑے استری کر کے ہینگ کر دیتی ۔۔۔ شوز پالش کر کے رکھتی تھی ۔۔۔ اس کے آنے پر ہی کھانا گرم کر کے دیتی تھی۔۔۔ وقت نے آہستہ اہستہ ان کی چپ توڑی تھی اور وہ دونوں دوستی کے دائرے میں مقید ہو گئے۔

وقت گواہ تھا کہ عقیدت نے شہریار اکرام کے لیے دن رات کا آرام تیاگ دیا تھا۔۔۔ وہ روز راتوں کے

آخری پہر اکیلے کمرے میں دیواروں پر اترتے ساۓ دیکھ کر ڈر جاتی تھی۔۔۔ وہ خود سے باتیں کرنے لگی تھی ۔۔۔ مگر کب تک۔۔۔ پھر دل کے احساسات ڈائری کے کورے اوراق پر جگہ بنانے لگے تھے ۔ شہریار اکرام نے پہلی بار جب اس کی ڈائری کا ایک ورق پڑھا تھا تو اسے لگا تھا عقیدت اس کی زندگی کا اہم ستون ہے۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ سارے خول توڑتا گیا۔۔۔ اور ان کے مابین دوستی کا رشتہ استوار ہو گیا اگرچہ جو زیادہ مضبوط نہیں تھا مگر پھر بھی غنیمت تھا ۔۔۔ شہریار کو وہ الفاظ آج تک یاد تھے اور وہ بھی اپنے پورے معنی اور مطالب کے ساتھ۔۔۔

" یہ رات کے اندھیرے میں ساۓ مجھے کیوں ڈراتے ہیں۔۔۔ بیڈ کے نیچے چھپتی ہوںتو یہ وہاں بھی آ جاتے ہیں۔۔۔ مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔ کہتے ہیں کوئی مر جاۓ تو اس کی روح سایہ بن کر گھومتی رہتی ہے۔۔۔ کیا یہ وہی روحیں ہیں۔۔۔؟ کاش۔۔۔ یہ چاند روز آسمان پر ابھرا کرے۔۔۔۔ جب چاند ہوتا ہے تو ڈراؤنے ساۓ نہیں ہوتے۔۔۔ میرا کوئی بھی دوست نہیں ہےپیاری ڈائری ۔۔۔ تم میری باتیں سنتی رہتی ہومگر بولتی نہیں ہو۔۔۔ تم بولا کرو ناں۔۔۔ مجھے خاموشیاں مجھے اچھی نہیں لگتی ہیں۔۔۔ مجھے ان سے خوف آتا ہے۔۔۔ تم بولا کرو گی ناں۔۔۔؟"

آخری سوال پر نمکین پانی کے قطرے سیاہی میں مدغم ہوتے صاف دیکھے جا سکتے تھے ۔۔۔ وہ ہمیشی شہریار کو دن کے پہر پر سکون نظر آتی تھی مگر رات کے تاریک پہر کے قصوں سے اب وہ آگاہ ہوا تھا۔

رات جو ساحر ہے۔ جو وجود پر کبھی کبھی چابک کی طرح لگتی ہے اور یہ چابک عقیدت کے حصے میں روز اتا تھا۔۔۔

لڑکیوں اور لڑکوں کی ٹولیاں نوٹس بورڈ کے گرد جمع تھیں۔۔۔۔ رضیہ پنجابن کو سکتہ ہو گیا تھا اور گم صم سی دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑی تھی۔۔۔۔ فائزہ چیمہ اس کی مارکس شیٹ اس کے سامنے لہرا لہرا کر کہہ رہی تھی۔۔۔

   1
0 Comments