عشقِ لو
غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتی ہوں اس کو مگر اے جزبہءِ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
پھرتی ہُوں لیے یوں تیرے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آئے تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کوئی کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ دیکھو کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ کام کریں بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ہے کسی کا کسی دل پہ
کہ لگائے نہ لگے عشقِ لو اور بجھائے نہ بنے
Babita patel
07-Mar-2024 08:41 AM
Nice
Reply
Mohammed urooj khan
02-Mar-2024 12:36 PM
👌🏾👌🏾👌🏾
Reply