Orhan

Add To collaction

دھول

ہر رشتے کو غلط ہی لے رہا تھا . حالانکہ فارہ کی بے لوث خدمت اور وفا بھی اس میں ذرا سی لچک نہ لا سکی اور لوگ بھی کب بھولتے ہیں ایسی باتوں کو . وہ اسی شہر اور گلی میں رہتا تھا جہاں سب ہی طاہرہ اور فاخر کو جانتے تھے . گھر سے نکلتے وقت کوئی عورت یہ پوچھ لیتی کچھ پتا نہیں چلا طاہرہ کا .... یا فاخر کے ملنے جلنے والے فاخر کے بارے میں پوچھتے . پوچھنے والا تو پوچھ کر اپنی راہ لیتا اور شامت فارہ کی آ جاتی . وہ خاموشی سے مار سہتی رہتی ' راحیلہ بیگم ہاتھ جوڑ جوڑ کر اسے بچاتی رہتیں . رانا آفاق نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی . ان کے لئے فارہ بھی مر گئی تھی . جبکہ اطہر اپنی ماں کے ساتھ کئی بار آیا تھا لیکن اسے ساتھ لیجانے کی نہ ہی عا صم نے اجازت دی ' نہ ہی فارہ راضی ہوئی . وہ بہن کے ساتھ بیٹھ کر روتا اسے مناتا اور تھک کر واپس چلا جاتا .

ایک دن راحیلہ بیگم فاخر کا کمرہ صاف کرنے اور اس کی چیزوں کو چھونے میں مصروف تھیں ' وہ ماں تھیں انھیں فاخر دن رات یاد اتا تھا . چیزیں رکھتے وقت ایک ڈائری ان کے ہاتھ آئی. وہ خود تو پڑھی لکھی نہ تھیں فارہ کو آوازیں دینے لگیں . فارہ اس کمرے میں آنا نہیں چاہتی تھی کہ عا صم نے سختی سے منع کر رکھا تھا . راحیلہ بیگم کے بار بار آواز دینے پر چلی آئی.

" جی خالہ ! آپ بلا رہی تھیں ."

" فارہ ! دیکھنا یہ فاخر کی ڈائری ہے شاید اسی سے کچھ پتا چل جاۓ !" فارہ نے ابھی ڈائری کھولی ہی تھی کہ عا صم آ گیا اور آتے ہی گرجنے لگا .

" جب میں نے تمہیں منع کیا ہے تو تم کیوں اس کمرے میں .....؟" فارہ کی ٹانگیں کانپنیں لگیں . کلائی پکڑ کر کمرے میں لے گیا تھا اور دروازہ بند کر لیا تھا . باہر راحیلہ بیگم فریاد کرتی رہ گئیں. لاتوں سے ہاتھوں سے اس کے پورے وجود کو نیل و نیل کر دیا جسم پر جو پہلے کے زخم تھے ان میں سے خون رسنے لگا . اسی شام اطہر آفاق چلا آیا . فارہ کی حالت دیکھ کر اس کا دل پھٹ گیا .

" یار بس کر ! بس کر کیا تجھے خدا کا خوف نہیں میں بھی تو نازلی پر تشدد کر سکتا تھا کہ تمہارا بھائی میری بہن کو ورغلا کر لے گیا لیکن میں جانتا ہوں کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے . اسی طرح فارہ کا بھی قصور نہیں ہے . وہ مر جاۓ گی . کہیں اس کا صبر ہمارے لئے نا سور نہ بن جاۓ . پانچ سال کم تو نہیں ہوتے . وہ پتھر تو نہیں انسان ہے . اتنا ٹارچر اگر کسی جانور پر بھی کرتے تو وہ بھاگ جاتا . باغی ہو جاتا . یہ وہی فارہ ہر جس کی ہر منہ سے نکلی ہوئی خواہش ہم پوری کرتے تھے ! اس وقت اس میں اتنا سا بھی صبر نہ تھا . ذرا سی بات پر روٹھ جاتی تھی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی ہے . دھول ہوتی جا رہی ہے . " اطہر جیسے جیسے اسے یاد کروا رہا تھا عا صم کے اندر ندامت کا سمندر بہنے لگا تھا اطہر اسی شام چلا گیا تھا اور اس کو سوچنے کا موقع دے گیا تھا .

فارہ ٹھنڈے فرش پر دوہری ہو کر لیٹی.... گردے میں ہونے والے شدید درد سے نڈھال ہو رہی تھی . درد بھی کتنی شکلیں بدلتے ہیں . طاہرہ کا دیا ہوا درد اس کی پیشانی پر لگ گیا تھا . اور رانا آفاق کی نفرت کا درد دل میں جم گیا تھا . شوہر کا درد اس کے اندر باہر سے رستا تھا . اب پچھلے چند ماہ سے پیٹ میں شدید درد اٹھتا تھا جو اسے نڈھال کر دیتا تھا ! اور وہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ! پہلے آزمائشیں کم تھیں جو اب اندرونی درد نے بھی جگہ گھیر لی تھی !

   1
1 Comments

fiza Tanvi

06-Dec-2021 02:27 PM

Good

Reply