Ahmed Alvi

Add To collaction

03-Mar-2024 اقبال کی مشہور نظم شکوہ کی پیروڈی


ہندوستان کے مسلم لیڈروں کا اقبال جرم 

(شکوہ کی پیروڈی)


چمچہ گیری کے لئے ملک میں مشہورہیں ہم

اونچے عہدوں پہ اسی واسطے مامور ہیں ہم

خون پینے کے لیئے اپنوں کا مجبور ہیں ہم

قوم کے سینے پہ رستے ہوئے ناسور ہیں ہم


اپنی گردن پہ ہی چلتی ہے جو تلوار ہیں ہم

 ہند میں امتِ احمد کے گنہگار ہیں ہم


 ہم سے پہلے تھے عجب اپنے وطن میں لیڈر

دال روٹی پہ ہی ہوتی تھی بچاروں کی گذر

قورمہ زردہ پلائو کی نہ تھی ان کو خبر

فائیواسٹار کے کھانوں پہ ہی رہتی تھی نظر


ہم سے پہلے نہ لگا پایا کوئی دام ترا

قوّتِ بازوئے چمچّ نے کیا کام ترا


اب کے چمچوں کی نہیں ملتی کہیں پر بھی نظیر

ایک سے ایک ہیں بڑھ چڑھ کے یہ چمچے کفگیر

بینک بیلینس کہیں پر تو کہیں پر جا گیر

اونچے عہدوں کے لئے بیچ دیا سب نے ضمیر


رشوتیں لینے میں بنگلے پہ ہی آسانی تھی

یوں تو دفتر میں بھی نوٹوں کی فراوانی تھی


ہم تو جیتے ہیں فقط قوم کی خدمت کے لئے

رشوتیں لیتے ہیں کیا اپنی ضرورت کے لئے

غنڈے رکھتے ہیں مخالف کی مرمت کے لئے

کار بنگلے بھی ہیں اس قوم کی عزت کے لئے


قوم اپنی جو زرو مال وجہاں پر مرتی

چمچہ گیری نہیں پھر کا لاہی دھندہ کرتی


پینشن کے لئے سرکار سے اڑجاتے ہیں

عہد چھن جائے ہمارا تو بگڑجاتے ہیں

در پہ نیتائوں کے اے دوستو پڑجاتے ہیں

فائدے کے لیئے اللہ سے لڑ جاتے ہیں


چار بیوی پہ لڑے ہم کبھی روٹی پہ نہیں

شاہ بانوں کے لیئے ایک لنگوٹی پہ نہیں


قوم کے واسطے قربانی کو تیار نہیں

چندے کھانے میں مگر ہم کو کوئی عار نہیں

قوم کیا شے ہے ہم اپنے ہی وفادار نہیں

اک طوائف کا ہے اپنا کوئی کردار نہیں


تم ہو اللہ کے ‘ کرسی کے پجاری ہم ہیں

شعبدے باز میاں مدنی بخاری ہم ہیں


ہم کو آتا ہے الکشن میں ہی ملّت کا خیال

یاد رہتا ہی نہیں ماضی ومستقبل وحال

گوشت سبزی ہی میسّر ہے نہ اب آٹا نہ دال

فاقے کرتے ہیں کریں قوم کے یہ اہل و عیال


جنتادل، بھاجپا، و کانگریسی ایک ہوئے

پار لیمینٹ میں پہونچے تو سبھی ایک ہوئے


اپنے کاندھوں پہ لیے پرچمِ اسلام پھرے

چند ووٹوں کے لئے باندھ کے احرام پھرے

ہم مئی جون میں بھی دوپہر وشام پھرے

کس مْحلّے سے بتائو کبھی ناکام پھرے


ایسے دوڑائے سیاست میں وہ گھوڑے ہم نے

ووٹ تو ووٹ ہیں ووٹر بھی نہ چھوڑے ہم نے


ہندو مسلم کو لڑانے کا وہ فن جانتے ہیں

حرکتیں اپنی سبھی اہلِ وطن جانتے ہیں

ہم نے بیچے کہاں لاشوں کے کفن جانتے ہیں

کس سے پوشیدہ ہے سب اپنا چلن جانتے ہیں


اپنی آنکھوں پہ چڑھا رہتا ہے سرکاری غلاف

عہدہ چھن جائے اگرجائیں ہم آقا کے خلاف

 

چھاگلہ ہم میں ہوئے ہم میں بخاری بھی ہوئے

دیو بندی بھی ، بریلی بھی ، بہاری بھی ہوئے

پیر و مرشد بھی بنے مولوی قاری بھی ہوئے

تیری امت میں یہ دولت کے پجاری بھی ہوئے


لال بتّی کی نئی کار ہے چاہت اپنی

 ہم نے عہدوں کے لیئے بیچ دی غیرت اپنی


ذات تو اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں

ان میں کچھ بنگلہ بھگت ہیں کئی غدّار بھی ہیں

ان میں عیسائی بھی ہندو بھی ہیں سردار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ وطن سے مرے بیزار بھی ہیں


ایڈ آتی ہے برہمن کے شبستانوں پر

ٹاڈا لگتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر


نفسِ امارہ کو ہر طرح سے ماراہم نے

آٹھ کاروں پہ کیا صرف گذارا ہم نے

آسمانوں کی بلندی سے اتارا ہم نے

رکھ دیا نام مسلماں کا بچارا ہم نے


نائی دھوبی ہے مسلماں کہیں رکشہ پولر

چند برسوں میں اس ہیرو کو بنایا جوکر


قتل مسلم کا فسادوں میں کرایا ہم نے

گھر جلے ایک بھی آنسونہ بہایا ہم نے

راسو کا میں کہیں ٹاڈا میں پھنسایاہم نے

قوم پر ظلم ہوئے لب نہ ہلایا ہم نے


پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم سے بڑھ کے توکوئی لائقِ دربار نہیں‘‘


بینک بیلنس ہیں بھارت میں تو اس پاربھی ہیں

ہم وہ لیڈر ہیں جو کرسی کے وفادار بھی ہیں

ہم بھکاری بھی ہیںاس ملک میں خوددار بھی ہیں

چار بیوی ہی نہیں ہم پہ کئی کار بھی ہیں


آپ نے سچ ہی کہا قوم کے غدار ہیں ہم

بے وفا اپنے سہی تیرے وفادار ہیں ہم


کس سلیقے سے محبت سے مٹادی اردو

دفن آثارِ قدیمہ میں کرادی اردو


دفتروں اور کچہری سے ہٹادی اردو

فلمی گیتوں میں ہی محدود بنادی اردو

آگ اردو کی کلیجوں میں دبی رکھتے ہیں

 عشق ہم غالب و مومن سے دلی رکھتے ہیں


ہر مسلماں کو کیا ہم نے یہاں خانہ خراب

بنگلہ دیشی کا اسے ہم نے ہی دلوایا خطاب

اب تو فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں یہاں کل کے نواب

ہم کہ خودساختہ ہیں محترم و  عالیجناب


طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے

اپنے چہرے پہ یہ د اڑھی بھی تو سرکاری ہے


عقل والے بھی وہی ہیں یہاں بدھو بھی وہی

ناصرالدین وہی ہیں شری نتھو بھی وہی

یوں تو مسلم بھی وہی ہیں یہاں ہندو بھی وہی

وہی بینگن یہاں تھالی کے ہیں کدّو بھی وہی


آئے لیڈر گئے ووٹوںکا ذخیرہ لیکر

اب انہیں ڈھونڈیں کہاں گیس کا ہنڈہ لیکر


میں نے چاہا نہیں ہوں قوم کے بچے نوکر

چور ڈاکو یہ بنیں اور بنیں اسمگلر

یاکریں لیڈری بچے یہ پہن کر کھدر

اور رہ جائیں فقط تھانے کے مخبر بن کر


نوجوانوں کی ترقی کا نہ کچھ کام کیا

ہم نے ملّت کو ہر اک موڑپہ بدنام کیا


راہبر جب سے بنے ہیں بڑے لیڈر کے غلام

فائیو اسٹار میں مولانا کا رہتا ہے قیام

بھوک اور پیاس سے مرتے ہیں تو مرجائیں عوام

ان کو پانا ہے سیاست میں بہت اونچا مقام


قبر ہیں سارے مسلمان مْجاور ہم ہیں

بیچ دیتے ہیں جو ایمان وہ تاجر ہم ہیں


کچھ تو بتلائو مسلماں کا یہاں کیا ہے قصور

اس کو سروس سے ویا پار سے کیوں رکھتے ہو دور

اس کو فردوس کی چاہت نہ تمنائے حور

ہاں طلبگار ہے دو وقت کی روٹی کا ضرور


کوئی تکلیف سے دکھ درد سے آگاہ نہیں

 سب کو ہے اپنی طلب میری کوئی چاہ  نہیں


بات مسلم کی نہ کی ہم نے مسلماں ہوکر

کفر ہی بکتے رہے صاحبِ ایماں ہوکر

درد تقسیم کیے درد کا درماں ہوکر

منتشر خو دکو کیا دست وگریباں ہوکر


جوتیوں میں سدا اس دال کو باٹا ہم نے

ووٹ لیکر کیا اس قوم کو ٹاٹا ہم نے


قوم پر بند کیے ہم نے ہی روزن سارے

کارناموں سے مرے خوش ہیں برہمن سارے

جْھن جْھنا لیکے ہی گھومے ہیں جھنا جھن سارے

ہم نے بکوا دیئے اس قوم کے برتن سارے


کی ہے مسلم کی فسادوں سے سگائی ہم نے

اپنی گردن پہ ہی تلوار چلائی ہم نے


ان کی سرسبز زمیں کو کیا بنجر ہم نے

جسمِ ناپاک پہ کھدّر کو سجا کر ہم نے

بس مسلمان کو گردانہ ہے ووٹر ہم نے

قوم کے پیٹ سے بندھوا دیئے پتھر ہم نے


ووٹ لینے کے لئے فتوے برابر لائے

اپنے مطلب کے لئے بھیس بدل کر آئے


پاس ہے اپنے حرامی نہ حلالی دنیا

صرف نیتائوں کی کرتی ہے دلالی دنیا

رہ گیا علم ‘ عمل سے ہوئی خالی دنیا

رہبرِ قوم کی ہوتی تھی مثالی دنیا


جھوٹ ہے مکر ہے ہر بات میں عیاری ہے

ایم پی بننے کی علّامہ کی تیاری ہے


ایک بھی راستہ سورج سا منور نہ رہا

عہدِ حاضر میں کوئی قوم کا لیڈر نہ رہا

خون میں جوش نگاہوں میں وہ تیور نہ رہا

راہ زن رہ گئے اس قوم میں رہبر نہ رہا


صرف میدانِ سیات کے وہی غازی ہیں

چمچہ گیری کے عوض ایم پی اعزازی ہیں



   12
3 Comments

Babita patel

07-Mar-2024 08:40 AM

Nice

Reply

Mohammed urooj khan

05-Mar-2024 03:51 PM

👌🏾👌🏾👌🏾👌🏾

Reply

Reena yadav

03-Mar-2024 08:35 AM

👍👍

Reply