Orhan

Add To collaction

دھول

" میں نے یہ سب اس وقت اس لئے نہیں بتایا کہ ہماری عزتیں تو برباد ہو ہی گئی تھیں . میرے بتانے پر طاہرہ اپا شاید بچ جاتیں ' لیکن فاخر شاید پولیس کے ہاتھ لگ جاتا یا پھر عا صم کے ہاتھوں قتل ہو جاتا پھر کیا بچتا .تایا جی نے بھی شاید یہی سوچ کر میرا نکاح عا صم سے کروایا تھا پھر میں کیسے اپنے ہاتھوں اپنا خاندان ختم کرتی . اس لئے میں نے اپنی قربانی دے دی ."

" بس کرو فارہ ... خدا کے لئے بس کرو ..." باہر کھڑا فاخر پوری قوت سے چیخا تھا اور شدت سے روتا ہوا دیوار سے سر مارنے لگا تھا .کمرے میں موجود تمام لوگ جو اب تک ساکت تھے ' آواز سن کر اپنی جگہ سے ہل گئے تھے اور عا صم کی آنکھیں کھلی رہ گئیں. طاہرہ اور اس کے پیچھے جنونی حالت میں روتا فاخر ... سب سے پہلے راحیلہ بیگم بھاگتے ہوئے آئیں.

بچوں کی طرح روتا ہوا فاخر ماں سے لپٹ گیا . جبکہ طاہرہ باپ اور بھائی کے قدموں میں گر کر معافی منگنر لگی تھی . سب ہی جان گئے تھے کہ وہ بے قصور ہے . سب نے کھلے دل سے اسے قبول کر لیا اور عا صم ساکت رہ گیا .

" امی جی ! فارہ سے کہیں مجھے معاف کر دے . میں اپنے غلیظ وجود کو سزا دیتے ہار گیا ہوں . میں نے پورے پانچ سال کانٹوں پر گزارے ہیں . طاہرہ سے بھی ہر دن ، ہر لمحہ معافی مانگی ہے لیکن اس نے مجھے معاف نہیں کیا . اس مرنے والے بچے سے بھی ، جس نے ایک سانس بھی دنیا میں لینا گوارا نہ کیا . فارہ سے کہیں مجھے معاف کر دے . میں بہت تکلیف میں ہوں میں شیطان کے بہکاوے میں آ گیا تھا . میں آج بھی اس سے نھبت کرتا ہوں ." فارہ کی آنکھوں سے بہت سے آنسو ٹوٹ کر بکھرے تھے ." یہ کیسی ذلت تھی جو ذلت کی آخری حد بھی پار کر گئی .

فاخر نے اپنا سر دیوار پر مار مار کر زخمی کر لیا تھا اور راحیلہ بیگم اسے سنبھالنے میں ناکام ہو گئی تھیں . عا صم کے قدموں میں گری رپورٹیں اطہر نے اٹھائی تھیں .

" امی جی ... میں نے رب کی رضا کے لئے فاخر کو معاف کیا ." فارہ کا سانس اٹک گیا .

طاہرہ نے فارہ کے ہاتھ تھام لئے اور نم آنکھوں سے کہا .

" میں نے بھی اسے معاف کیا ." مزید کسی کے کہنے کی گنجائش ہی نہیں تھی . فاخر کچھ پل سر اٹھا کر عا صم کو دیکھتا رہا . وہ اپنی جگہ ساکت تھا . فاخر نے اپنے درد کو ماں سے بانٹ لیا . اک نظر شرمندگی کی سب پر ڈالی اور باہر نکل گیا . کوئی نہیں جانتا تھا کہ اب وہ واپس آئے گا کہ نہیں ؟

" جگر کا کینسر اور گردے ختم ہو چکے ہیں ، مرض آخری سٹیج پر ہے . عا صم یہ کس کی رپورٹ لے آئے ہو ؟"

اطہر نے بے یقینی سے اس سے پوچھا اور اس کی آنکھوں سے سفید موتی بہہ نکلے . بے بسی کی انتہا تھی . کمرے میں موجود سب ہی لوگ ایک بار پھر پل صراط سے گزر رہے تھے .

" نہیں ایسا نہیں ہو سکتا . فارہ ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتی . اب اسے خوشیاں دیکھنی ہیں . " فارہ کی ماں روتے ہوئے اس سے لپٹ گئیں . فارہ بمشکل اپنا سانس کھینچ رہی تھی بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ .

" عا صم." اس نے عا صم کو پکارا تو وہ جلدی سے اس کے پاس آیا تھا .

   1
1 Comments

fiza Tanvi

06-Dec-2021 02:29 PM

Good

Reply