Salman ikram

Add To collaction

حیرت کیسی

غزل

پشت پر اس نے کیا وار تو حیرت کیسی
دوست کا کھل گیا کردار تو حیرت کیسی

کوئی دولت نہیں درکار تو حیرت کیسی
میری پونجی مرے افکار تو حیرت کیسی

لذتِ ہجر سے ہو جائے شناسا جو دل 
وصل اس کو لگے آزار تو حیرت کیسی

عشق کا بن کے خدا وہ تھا مقابل میرے
ہو گیا مجھ کو اگر پیار تو حیرت کیسی

میرا قاتل ہی مسیحائی کے بہروپ میں تھا
بن کے آیا ہے عزادار ۔ . . تو حیرت کیسی

اپنے شعروں کو دیا خونِ جگر غالب نے 
اس کا ہر شعر ہے شہکار تو حیرت کیسی

وہ جو رہتا تھا فقط  شہرِ تخیل میں مرے
وہ نہ اس پار نہ اس پار ۔ تو حیرت کیسی

بھائی چارے کا محل جس گھڑی مسمار ہوا
صحن میں اٹھ گئی دیوار تو حیرت کیسی

عشق کے کھیل میں لوگوں نے جہاں تک چھوڑا
ہم سے چھوٹا ہے جو گھر بار تو حیرت کیسی

ظلم سے لوگ سسکتے ہیں، قلم بکتے ہیں
جھوٹ کہتا ہے جو اخبار تو حیرت کیسی

بیعتِ جبر کا انکار تبسم نے کیا
دم بخود رہ گیا دربار تو حیرت کیسی
   

   20
9 Comments

Angela

09-Oct-2021 10:09 AM

👌👌👌👌

Reply

prashant pandey

12-Sep-2021 01:23 AM

👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Rakhi mishra

08-Sep-2021 03:54 PM

💜💜💜💜💜

Reply