KUCH THA TERA KHYAL BHI
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا اک دفعہ تو رک گئی گردشِ ماہ و سال بھی دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں شیشہ گرانِ شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی اس کی سخن ترازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی گاہ قریبِ شاہ رگ گاہ بعیدِ وہم و خواب اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا موجِ ہوا ئے کوئے یار کچھ تو میرا خیال بھی۔
madhura
21-Sep-2024 03:48 PM
Awesome
Reply
Nazneen Khan
12-Jun-2024 09:54 AM
amazing 👌
Reply