جنگی کے میلے می
زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں تم سے کیا کہیں جاناں اس فدر جھمیلے میں وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے ہجر کے سمندر میں تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے تم کو جو سنانی ہے
بات گو زرا سی ہے بات عمر بھر کی ہے عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں درد کے سمندر میں ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا بات اس دیۓ کی ہے بات اس گلے کی ہے جو لہو کی خلوت میں چور بن کہ آتا ہے لفظ کے فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں
زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے راستے میں کیسے ہو بات تخلیۓ کی ہے تخلیۓ کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے ہو سکے تو سن جاؤ ایک دن اکیلے میں تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
madhura
21-Sep-2024 03:50 PM
Nice
Reply