Alikhan Riyaz

Add To collaction

پرانی موحببت

وہ امی کے سامنے رو پری تھی اتنا کے اپنے رخصتی والے دن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا . اس نے امی کو سب بتا دیا ' کچھ نہیں چھپایا . اسکی ہچکیاں بندھ گئیں . امی کو بھی بہت برا لگا . صدف انکی بیٹی تھی اور بیٹیوں کے آنسو ماؤں کی نیندیں اڑا دیتے ہیں . وہ کافی عرصے سے گھر گئی بھی نہیں تھی . ایک عجیب طرح کی سزا کے اذیت ناک لمحے تھے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتے تھے . وہ سن رہی تھی اور پیچھے سے اچانک کاشف نکل آیا تھا . وہ کانپ کر رہ گئی تھی .

" کیا کہ رہی تھی تیری ماں بد کردار ہوں . عورتوں کا رسیا ہوں ' برا ہوں ' ذلیل ہوں ."

وہ دھاڑ رہا تھا . فون نیچے گر گیا تھا اور ٹوٹ بھی گیا تھا . وہ بھی ٹوٹ گئی تھی ' صفائیا ں دیتے دیتے کہ وہ ایسا نہیں سمجھتی . بات حدود سے باہر تھی تو بری تھی ' مگر وہ بول بول کر چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ بات ایسی ہی تھی . سب ایسا ہی تھا . وہ خدا ترسی کا لبادہ اوڑھے شیطان تھا . چھپا ہوا شیطان . بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی . اس کی آواز بلند سے بلند تر ہو گئی تھی اور بشریٰ کو نئے راستے دکھا گئی تھی . منزلیں سہل کرتی گئی تھی . اس نے کہیں پڑھا تھا کے جھوٹا انسان اپنی آواز بلند کر کے مدھم سچ کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کرتا ہے اور سچ صرف وقتی طور پر دب سکتا ہے مگر اپنی حقیقت نہیں کھو سکتا . کمرے میں کاشف کی گونجتی آواز سن کر اس نے سوچا . اس کے بعد خواری کا لا متناہی سلسلہ تھا . کٹھن راستے تھے تنہائی تھی . درد تھا اور درد دینے والا اپنا تھا . کاشف نے نہ صرف ہنگامہ کھڑا کیا تھا بلکہ اس ہنگامے کو لے کر اپنے والدین کو بھی اس کے خلاف بد گمان کیا تھا .

سب اسے لعنت ملامت کر رہے تھے اور کاشف کو سچا مان رہے تھے . اس نے فون پر اور ساس کے سامنے لا متناہی پھٹکار سنی تھی . نندوں کے ذلت آمیز رویے برداشت کیے تھے . ساس نندوں کا رشتہ اگر طنز کا اور گندا رشتہ تھا تو کاشف نے انھیں شہ دے کر دگنا کر دیا تھا . بشریٰ کی زبان درازی میں اضافہ ہو گیا تھا . حوصلے بڑھے تھے . وہ جھوٹی ہو کر جیت گئی تھی اور وہ سچی ہو کر خوار ہوتی پھر رہی تھی . بشریٰ اور اسکی ماں نے اسکی آنکھوں میں اندھیرے بھر دیے تھے . ان کے دکھڑے اور خود ساختہ مسائل جیت گئے تھے . صدف ہار گئی تھی . سچ کے راستے پر چلنے والوں کا مقدر ہار ہی ہوتا ہے شاید .

   1
0 Comments