Amreen khan

Add To collaction

تیرے عشق میں -- باب - ۴

باب - ۴

شاہمیر بیٹھو مجھے تمسے کچھ بات کرنی ہے ۔ سخاوت صاحب دو ٹک لہجے میں بولے !! آپ بولے میں کھڑا ہو کر بھی سن سکتا ہوں۔۔۔ شاہمیر ایک نظر سامنے بیٹھی عورت کو دیکھ کر بولا

ماہ جبین بیگم ڈرتے ہوے شوہر کی طرف نظریں مرکوز کی۔ شاہمیر میں چاہتا ہوں تم اپنی ماں کے ساتھ اپنا رویہ دروست رکھو !!! جس طرح ماں کو عزت دی جاتی ہے اسی طرح تم اپنی ماں کو عزت دو ان کا احترام کرو جو کے تم پر فرض بھی ہے ،،،،، گھر میں ہزار ملازمیں ہے ان کے سامنے تم نے اپنی ماں کی عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دی ہے سخاوت صاحب نے اپنی بات مکمل کی اور شاہمیر کے بولنے کا انتظار کرنے لگے۔۔ لالا رخ خوفزدہ آنکھوں سے شاہمیر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

ماں !!!!

ہنہ میری ماں کون ہے ؟؟ جہاں تک میرا خیال ہے وہ میرے بچپن میں ہی گزر چکی ہے !!! اور یہ عورت صرف سخاوت شاہ کی بیوی ہے۔۔

شاہمیر !!

سخاوت صاحب غصے سے دھاڑے

کچھ شرم لحاظ کرو شاہمیر میں تمہارا باپ ہوں۔۔

کاش آپ نے مجھے تمیز سکھائی ہوتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا آپ کو خیر ماه جنین بیگم کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر ان کے گالوں کو بھگو دیے !!!! شاہمیر بات ختم کر کے جانے کے لیے پلٹا !! کچھ یاد آنے پر پھر سے پلٹا ! ضروری نہیں بابا جان۔

آپ جو چاہے ہمیشہ وہی ہو !

شاہمیر کی مسکراہٹ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا،،،

جیسے سخاوت صاحب کا مزاق اڑا رہا ہو

چلے جائیں آپ یہاں سے مجھے کچھ نہیں سننا"


صنم کی پھنسی پھنسی سی آواز اندر سے آئی جو شاید رونے کی وجہ سے ہوئی تھی،،٬٬

"بابا کی جان باہر آئیں کیا ہوا ناراض ہے کیا گڑیا۔۔۔ مگر ہوا کیا کہے ناراضگی کی وجہ بھی تو پتا چلے ،" آپ نے لنچ بھی نہیں کیا اس طرح آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی بیٹا،،،

جواد صاحب ہارے ہوئے لہجے میں بولے۔۔۔ ایک بار دروازہ تو کھولو بیٹا انہوں نے پھر ہلکی دستک دی۔۔۔۔۔

صنم سے اب اور بھوک ہڑتال نہیں ہو سکتی تھی صرف صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا،،،اب بھوکے رہنا اسکے لئے بہت مشکل تھا۔۔ ۔۔۔ آخر ہار کر صنم نے احسان کرنے والے انداز سے دروازہ کھولا اور جواد صاحب کو دیکھتے ہی دنیا جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سموئے اپنے بابا جان کے گلے لگ گی اور اب موٹے موٹے

آنسوؤں سے اُن کی وائٹ شرٹ بھگو رہی تھی،،،،،

بس میری جان بس آپ بتائے مجھے کیا ہوا ہے" بیٹی کے آنسو ان کی برداشت سے باہر تھے

ماما نہ کچھ کہا ہے کیا

جواد صاحب نے پوچھا مگر صنم نے روتے چور نگاہوں سے شمسہ بیگم کو دیکھا جو لنچ کے لئے بلانے آئی

تھی کمرے میں۔۔۔۔'

جواد صاحب شمسہ بیگم سے مخاطب ہوئے،

شمسہ اپنے ہماری گڑیا کو کیا کہا ہے"

شمسہ بیگم نے ایک نظر اپنے شوہر پر ڈالی پھر اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا جو آنسوؤں سے سرخ ہو چکا تھا

میں نے

شمسہ بیگم کے بات مکمل کرنے سے پہلے ہی صنم کو آواز گونجی

بابا، بابا، ہچکیوں کی وجہ سے صنم کی آواز نکلنی مشکل ہو گی تھی بمشکل اس نے کچھ الفاظ اپنی زبان سے ادا کے کیے ،،، پرسوں میری فرینڈز کی برتھڈے ہے اور مجھے جانا ہے سب دوستیں ہونگی وہاں ماما نے کہا نہیں جا ، جانا مجھے جانا ہے پلیززز آپ جانے دے نہ ہاں! تو مسلہ کیا ہے ہم جائینگے ضرور جائینگے ، جواد صاحب اپنی بیٹی کو خوش کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔

شمسہ بیگم جانتی تھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے اس لئے کھانے کا کہ کر باہر نکل گئیں سچی، صنم بے یقینی سے اپنے بابا کے آنکھوں میں دیکھنے لگی

سچی، جواد نے خوش ہوتے ہوئے کہا

ہم گفٹ کیا لیکر جائینگے اپنے بابا کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا،،، جو آپ کو پسند ہو

انہوں نے خوش ہوتے ہوے کہا

تھنگیوں، تھنکیو سو مچ بابا " صنم کی خوشی دیدنی تھی۔ چلے اب آپ کھانا کھاے جواد صاھب نے مصنوعی غسسے کی شکل بناکر کہا۔۔۔ اوکے بابا صنم ہنستے ہوے اپنے بابا کہ ساتھ ٹیبل کی ترف بڑھ گیئ ۔

آخرکار صنم کو برتھڈے پارٹی پر جانے کی اجازت مل گئ۔

اگر آپ لوگو کو میری ناول پسند آ رہی ہو تو پلز سارے باب کو لایک کرے۔

اگلا باب میں بھت جلد پیش کرونگی تب تک کہ لے اللہ حافظ۔

   6
0 Comments