تیرے عشق میں -- باب - ۷
باب - ۷
ڈنر کے وقت کھانے کی ٹیبل پر بھی صنم کی زبان پر اب بھی وہی قسہ تھا ٬٬٬٬٬ آپ نے دیکھا نہیں تھا کتنا مغرور اور پر اوڈلی تھا،،،
صنم منہ بناتی ہوئی بولی،،،
بیٹا اب رہنے بھی دو،،، کیا ہو گیا ہے،،
جواد صاحب اکتاتے ہوئے بولے،،،،
کس بارے میں بات کر رہے ہیں آپ جواد صاحب؟؟ شمسہ بیگم منہ میں لقمہ رکھتی ہوئی بولیں!
کچھ بھی نہیں بیگم ،،،،، جواد صاحب بات ختم کرنی چاہیے۔۔ خاموشی کے ساتھ کھانا کھایا گیا،،، جواد صاحب شکر کرتے اٹھ گئے،،،
شمسہ بیگم کی ناراضگی صنم کو کسی صورت قبول نہ تھی،،،،
ماما جانی؟؟
صنم حسرت بھری نظروں سے شمسہ بیگم کو دیکھ کر پکاری۔۔۔۔۔لیکن شمسہ بیگم اس کو مکمل نظر انداز کرتی ٹیبل سے روٹی اٹھاتے باورچی خانے کی طرف قدم بڑھا دی جیسے ان کے علاوہ وہاں کوئی صنم بھی ان کے پیچھے چلتی ہوئی باورچی خانے میں داخل ہوئی موجود ہی نہ ہو۔۔۔ "" امی جان ای ایم سوری ""
صنم معصوم سی شکل بناتے ہوئے بولی۔۔ ماما یار مان بھی جائے نا میں" صنم کہتی ہوئی ان کے گلے میں جھول گئی !!!۔ شمسہ بیگم جانتی تھی جب تک وہ اس سے بولیں گی نہیں وہ سر کھاتی رہے گی ! اور ویسے بھی ماں اور اولاد میں کب تک خاموشی رہ سکتی تھی۔۔۔ شمسہ بیگم نے اس کے ماتھے پر ممتا بھرا بوسه ثبت کیا۔۔۔ صنم خوش ہوتے ہوے ان کے گلے لگ گی۔۔۔
ماما دیکھنا میں زارا کے گھر سے ایک گھنٹہ میں واپس آجاو گی آئی پرومس،،،، صنم شمسہ بیگم کے گلے لگتے ہوئے ہوئے بولی
شاباش میرا پیارا بیٹا
اچھی لڑکیاں دیر رات تک باہر نہیں کرتی،،،
اب وہ شمسہ بیگم کے سینے سے لگی پورا دن کی روادار سنا گئی تھی،،،
بھائی آجائے آپ ڈنر کرلیں ریڈی ہے۔۔۔ لالی شاہمیر کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔۔
نہیں بھوک نہیں ہے گڑیا
شاہمیر اپنی انگلیوں کو بالوں میں پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔
لیکن بھائی !! لالی نے ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا۔۔۔۔ شاہمیر بیچ میں بول پڑا۔۔۔
لالی پلیز سخت نیند آ رہی ہے۔۔ ہم صبح بات کرے شاہمیر نیند سے ڈوبی آواز میں بولا کیوں کی جب سے گھر آیا تھا لیپٹاپ پر ہی بزی تھا۔۔ او کے بھائی گڈ نایٹ۔۔لال مسکرا کر کہتے کمرے سے باہر نکل گی۔۔شاہمیر شاہ کے اوپر نیند کا غلبا تھا ۔۔ شاہمیر کب کا نیند کی وادیوں میں کھو چکا تھا۔۔ اس کے خوبصورت چمکتے بال کشادہ پیشانی کو چھو رے
صبح ہو چکی تھی چڑیوں کی چہچہاہٹ پوری فضا میں گونج رہی تھی آج موسم ابر آلود تھا کیونکہ اکتوبر کا سٹارٹ تھا،،، بارش رات سے وقفے وقفے کے ساتھ ہو رہی تھی۔۔۔۔ صنم جلدی جلدی بالوں کو پونی کی شکل دیتی۔۔۔ بیگ اٹھاتے ہوئے کمرے سے باہر آئی۔۔۔ چادر کو ارد گرد پھیلاتی شمسہ بیگم کی جانب دوڑی۔۔۔
سوری امی بہت لیٹ ہو رہا۔۔ بس بھی نکل جائے گی ان کمبختوں نے گاڑی بھی نہیں بھیجی۔۔۔ صنم شاہمیر اور عباس کو کوستے ہوئے بولی۔۔لیکن صنم بیٹا ناشتہ
شمسہ بیگم ناشتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولیں۔۔
بہت لیٹ ہو رہا ہے قسم سے امی۔۔ صنم شمسہ بیگم کو بوسہ دیتے باہر کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔
یا اللہ پاک بس مل جائے
صنم دعا کرتی تیزی سے قدم آگے بڑھا رہی تھی۔۔۔
بس کو نکلنے میں ابھی دو منٹ اور رہے گے تھے۔۔۔۔ صنم کا اس بس پر چڑھنا خاصا مشکل ہو رہا تھا ہر قسم کے لوگ اس بس میں موجود تھے۔۔۔
شکر ہے یا اللہ
کونے کی ایک سیٹ خالی دیکھ کر صنم شکر کرتی جھٹ سے اس پر بیٹھ گی۔۔۔
شاہمیر تیار ہو کر ایک نظر خود کو آئینہ میں دیکھ کر اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی لئے نیچے آیا بلیک پینٹ پر اوف وایٹ شرٹ بہت ہی کھل رہی تھی اس کے کسرتی جسم پر ۔۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد شاہمیر باہر آیا جہاں پر ٹھنڈی پر نور فضا نے اس کا استقبال کیا۔۔۔ مالی بابا پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھے ۔۔۔ چڑیوں اپنی چہچہاہٹ سننے پر مجبور کر رہی تھی ،، رنگ برنگے پھول ہر جانب بھرے تھے۔۔۔
شاہمیر کو یہ منظر بہت ہی بھلا لگ رہا تھا۔۔۔ ایک دم اسی لالی کے چلانے کی آواز آئی،،،،
بھائی ،،،،
بھائی شکر آپ ابھی نکلے نہیں
لالی باپتی کا پتی رسٹ واچ ہاتھ میں پہنتے ہوے بولتی ہوئی باہر آئی۔۔سامنے شاہمیر کو دیکھ کر اس کو
تھوڑا سکون ملا۔۔۔ کیا ہوا بیٹا ؟؟
شاہمیر نے نظریں لالی کی جانب مرکوز کی۔۔۔ ہلکے سی گرین کلر کے سوٹ میں لالی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ میچنگ اسٹال گلے میں مفلر کی طرح باندھے ہوئے تھی۔۔۔ کالی سیاہ آنکھ میں کاجل کی لکیر غضب کی ڈھا رہی تھی !!!
بھائی آج میں آپکے ساتھ جاو گی کیونکہ ڈرائیور ابھی تک آیا نہیں
اوکے چلو،،،،ڈراپ کر دوں
شاہمیر گاڑی کا دروازہ کھولتا سیٹ پر بیٹھتے ہوے سیٹ بیلٹ باندھا۔۔
لالی بھی اسکے ساتھ براجمان ہوئی
بلیک چمچماتی گاڑی یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے رکی
یلو گڑیا
شاہمیر نے وائلٹ سے پیسے نکال کر لالی کو دیئے،،،، لالی گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر اترتی بولی۔۔۔۔ " تھینکس بھیا اینڈ پلیز ڈرائیور سے کہئے گا مجھے ٹائم پر پک کرے "
او کے بیٹا آپ فکر نہ کرو ڈرائیور وقت سے پہلے پہنچ جائے گا،،،،،
لالی مسکراتی ہوئی شاہمیر کو تھینکس بولتی لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گی۔۔۔ شاہمیر کو مسلسل عباس کی کال آ رہی تھی لیکن نیٹ ورک ایشو ہونے کی وجہ سے کال سن نہیں پا رہا تھا۔۔ شاہمیر گاڑی کا دروازہ کھولتا باہر نکلا۔۔ اور عباس کو کال ملانے لگا۔۔۔۔
یار وہ کون ہے ؟؟ فائزہ سموسوں سے انصاف کرتی ہوئی کنزا سے بولی۔۔
کون؟؟؟ کنزا نے یہاں وہاں نظریں دوڑائی۔۔۔ سامنے دیکھو سائیں۔۔ فائزہ چاے کا مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولی
ہاں یار۔۔ پتا نہیں کون لیکن کیا پرسنیلٹی ہے واو۔۔۔ کنزا شاہمیر کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے مسکرا کر بولی۔۔۔ آئی تھنک یہ صنم کی بچی آج نہیں آنے والی فائزہ منہ بناتی ہوئی بولی۔۔۔
کیا صنم اور شاہمیر کی ایک بار پھر سے ملاکات ہوگی؟؟
اگر آپ لوگو کو میری ناول پسند آ رہی ہو تو پلز سارے باب کو لایک کرے۔
اگلا باب میں بھت جلد پیش کرونگی تب تک کہ لے اللہ حافظ۔