Nimra Akthar

Add To collaction

رہغوزر

پھر وہی بڑھتے ہوئے رکتے ہوئے قدموں کی چاپ
پھر وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی سرگوشیاں
پھر وہی بھکی ہوئی مہکی ہوئی سی آہیں
پھر وہی گاتی سی لہراتی سی کچھ مدوشیاں

زندگی طوفان تھی سیلاب تھی بھونچال تھی
وقت پھر بھی کروٹوں پر کروٹیں لیتا رہا
قافلے اس راہ پر آتے رہے جاتے رہے
راہبر سب کو مسافت کا صلہ دیتا رہا

وہ تبسم جس کو روتے ہیں کئی اجڑے سوہاگ
بن رہا ہے ایک لچکتا کانٹے اپنے پاؤں میں
وہ نظر جو کل تک ہر جسم کو دستی رہی
آج سستانے لگی ہے مشورت کی چھاؤں میں

کتنی امیدوں کے مدفن اس کے ہاتھوں بن چکے
کتنے ارمانوں کے لاشے اس نے خود دفنائے ہیں
آہ یہ مقتل کی جس کے پاسبانی کے لیے!
کتنے مستقبل فنا کے عیب پر لہراتے ہیں

کلفتوں سے تنگ آ کر بے خودی کی تلاش میں
قافلے اس راہ پر آتے رہے جاتے رہے
راہبر سب کو مسافت کا صلہ دیتا رہا
راہ رو اپنے تجسس کا صلہ پاتے رہے

   1
0 Comments