Amreen khan

Add To collaction

تیرے عشق میں -- باب - ۱۹

باب - ۱۹

شاہمیر کی نیندیں اس کی آنکھوں سے غایب تھی۔۔ بیڈ پر لیٹتے ہوے اس نے تکیے کے نیچے سے اس چمکتے بریسلیٹ کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔ نا جانے اس کو اس بریسلیٹ میں کس چیز کی تلاش تھی۔۔ تبھی موبایل کی رنگنگ ہوئی۔۔ اسکرین پر عباس کا نیم چمک رہا تھا۔۔

ہیلو۔۔ شاہمیر

ہاں بولا۔۔

یار شاہمیر مجھے سخت بوریت ہو رہی ہے، کلب چلیں۔۔۔ فری ہے ؟؟؟

نہیں میرا موڈ نہیں تمہیں جانا ہے تو جا ، کل والی میٹنگ کو پریزنٹیشن بھی ریڈی کرنی ہے ابھی

شاہمیر اکتائے لہجے میں بولا

اوف یار ہر وقت کام، کام

مجھے تو لگتا تم نے قائد اعظم کے قول کو زیادہ سر میں لے لیا ہے

عباس بولتے ہوئے خود ہی قہقہ لگا گیا ،،، دوسری طرف شاہمیر کے ہونٹ بھی مسکراہٹ میں ڈھلے مگر صرف چند سیکنڈز کے لئے۔۔۔

اب میں رکھو؟؟

ہمم چل ٹھیک یے مگر کل شاپنگ پر چلیگے۔۔۔ عباس بولا

نہیں

ابھی شاہمیر اپنا اپنی بات پوری کرتا کہ عباس فورن ٹوک کر بولا

پلیز شاہمیر اس طرح ہماری تھوڑی مستی بھی ہو جائے گی اور میں انکل اور آنٹی کے لے گفٹ بھی لے لوں گا۔۔! عباس نے شاپنگ کرنے کا اپنا اصل مقصد بتایا۔۔

کتنا بے عزت ہے تو۔۔ میں نے تو تجھے انوایٹ نہیں کیا ہے۔۔ پھر بھی منہ اٹھا کر آ جائے گا شاہمیر افسوس کے لہجے میں بولا۔۔

ہا ہا ہا۔۔۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے تو مجھے کبھی انوایٹ نہیں کرتا لیکن میں سب سے پہلے موجود ہوتا ہوں۔۔ عباس ڈھٹائی سے بولا۔۔

بے عزت جو ہے۔۔۔ شاپمیر مسکرا کر بولا۔۔

اچھا یار بتا نا جاے گا یا نہیں۔۔ عباس پھر سے اپنے مقصد پر آیا۔۔ ٹھیک ہے چلوں گا مگر جلدی واپس آجائے گے۔۔۔ شاہمیت جان چھڑاتا ہوا بولا۔۔ او کے یار کل ملتے ہے۔۔ شاہمیر نے کال ڈسکنیٹ کر دی۔۔۔۔

اب امی سے اجازت کیسے لوں گی۔۔ صنم سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔۔جواد صاحب نے بیٹی

کو دیکھا جو کب سے انگلیاں چٹکا رہی تھی۔۔

صنم کیا بات ہے بیٹا۔۔

جواد صاحب نے بیٹی کی پریشانی جانی چاہی

کچھ بھی نہیں بابا۔۔ صنم زبر دستی مسکراتی ہوئی بولی۔۔

اب اپنے بابا سے بھی چھپائیں گی۔۔ جواد صاحب بیٹی کو دیکھ کر بولے۔۔

بابا۔۔ پرسوں میری فرینڈ کے گھر ایک پارٹی ہے میری ساری دوستیں جائیں گی مجھے بھی انوائٹ کیا ہے

،،، کیا میں چلی جاو؟؟

صنم کے اتنے معصومیت سے بولنے پر جواد صاحب منع نہ کر پائے

ہم ٹھیک ہے بیٹا۔۔ آپ تیاری کرے میں آپ کی ماما کو منا لوں گا۔۔جواد صاحب کہتے ہوئے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے،،،

جبکہ صنم جواد صاحب کو شاکی نظروں سے دیکھ رہی تھی

لالی ابھی جیسے ہی لیٹنے کے لیے بیڈ پر آئی۔۔ میسیج کی رنگ ٹون ہوئی لالی موبایل اٹھاتی ہوئی انباکس میں آے میسیجیس کو دیکھنے لگی۔

السلام و علیکم

کا میسج وہ بھی انجان نمبر سے دیکھ کر لالی کی پیشانی پر نم آلود شکنیں نمودار ہوئی

کون ؟؟؟

لالی نے بھی میسج ٹایپ کر کے سینڈ کیا۔۔ کچھ سیکنڈ بعد پھر ٹون بجی۔۔

شاید آپ کا کوئی چاہنے والا ہوں۔۔

جواب دوسری جانب سے آیا۔۔ لالا رخ کو ایسے جواب کی امید نہیں تھی۔۔

کیا مطلب شرافت سے اپنا نام بتاو، نہیں تو میرے بھائی کے بارے میں جانتے نہیں ہو۔۔لالی نے غصہ سے ٹایپ کر کے سینڈ کیا۔۔ جانتے نہیں ہو میں کون ہوں۔۔ لالی نے اپنی پہچان کرانا ضروری سمجھا۔۔۔

جی جانتا آپ کون ہے۔۔ لیکن یہ کمبخت دل نہیں مانتا ہزار بار یے کہہ کر سمجھایا یے وہ شاہمیر شاہ کی بہن ہے۔۔ لیکن یہ ماننے کو راضی ہی نہیں۔۔ دوسری جانب سے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا دکھڑا سنایا گیا۔۔

اس جواب پر لالا رخ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی۔۔ تت۔۔ تم مجھے جانتے ہو ؟؟ لالی نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔۔ دوسری جانب مقابل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔۔ نہیں ابھی کوشش کر رہا ہوں۔۔ صبح ہونے دو بھائی سے کہہ کر تمہارا پتا نکلواتی ہوں۔۔ لالی غصے سے تیز اسپیڈ سے ٹائپ کر کے سینڈ کیا۔۔

لالی کا میسج پڑھ کر عباس کے ہونٹ مسکرانے سے باز نہیں آ رہے تھے۔۔

کیا ظلم ہے۔۔ وہ ظلم بھی ہے۔۔۔ محبوب بھی ہے

دوسری جانب سے شعر و شاعری کا آغاز ہوا۔۔

جاہل

لالی منہ ہی منہ بڑبڑائی موبایل آف کر کے سونے کی سعی کرنے لگی۔۔۔

کیا لالی شاہمیر کو ان میسجس کے باری میں بتاےگی؟؟

اگر آپ لوگو کو میری ناول پسند آ رہی ہو تو پلز سارے باب کو لایک کرے۔

اگلا باب میں بھت جلد پیش کرونگی تب تک کہ لے اللہ حافظ۔

   1
0 Comments