Add To collaction

غزل

غزل


ہر در پہ جبین سائی نہ کی 
ہم نے ان سے کبھی بے وفائی نہ کی 

نفسی نفسی کے عالم میں بھی 
اس نے ہماری جدائی نہ کی 

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں 
میں نے اسکی کھبی پزیرائی نہ کی

درباری مشاعروں کے ہم نہیں قائل
 کہ ہم نے حکمرانوں کی واہ واہی نہ کی 

یوں ہی چھڑ گئ تھی جنگ صلیبیوں سے 
ورنہ عیسیٰ نے کبھی خدائی نہ کی 

یہ مرضِ عشق میرے مرشد کی دیں ہے 
ہم نے بھی اس مرض کی دوائی نہ کی

- م ز م ل

   2
0 Comments