غزل
غزل
ہر در پہ جبین سائی نہ کی
ہم نے ان سے کبھی بے وفائی نہ کی
نفسی نفسی کے عالم میں بھی
اس نے ہماری جدائی نہ کی
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں
میں نے اسکی کھبی پزیرائی نہ کی
درباری مشاعروں کے ہم نہیں قائل
کہ ہم نے حکمرانوں کی واہ واہی نہ کی
یوں ہی چھڑ گئ تھی جنگ صلیبیوں سے
ورنہ عیسیٰ نے کبھی خدائی نہ کی
یہ مرضِ عشق میرے مرشد کی دیں ہے
ہم نے بھی اس مرض کی دوائی نہ کی
- م ز م ل