Orhan

Add To collaction

سودا

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

ہوا بھی ہو گئی میثاق تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے

اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے

نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں
نشان مہر کمان سپر میں رکھا جائے

وفا گمان ہی ٹھہری تو کیا ضرور کہ اب
لحاظ ہمسفری بھی سفر میں رکھا جائے

ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے

ہمیں بھی عافیت جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے
افتخار عارف

   8
0 Comments