Add To collaction

صبر

جو بھی میں لکھ رہا لفظ ہیں ہزار یہ
آج نہیں سنتا کوی کل بیکیں گے بازار میں

تم نے جو بولا تو کماتا اک ہزار نہیں
کتنے ہزار خرچوں آج میں بازار میں

میرے کردار میں ہزار ہوں گی غلتیاں
میں نے ہی خود خواہشات کو قتل کیا

میں نے تو لکھا اپنے باپ کی قبر پر
میں نے تو لکھا اپنے ٹوٹتے صبر پر

میرا تو صبر ایسا صبر بھی صبر کرے
میرے خود کے جزباتوں کی قدر کرے

دل ہے مردہ۔۔۔۔ زندگی صفر کرے
سوچتا کچھ نہیں دماغ مجھ پر جبر کرے

   10
0 Comments