صبر
جو بھی میں لکھ رہا لفظ ہیں ہزار یہ
آج نہیں سنتا کوی کل بیکیں گے بازار میں
تم نے جو بولا تو کماتا اک ہزار نہیں
کتنے ہزار خرچوں آج میں بازار میں
میرے کردار میں ہزار ہوں گی غلتیاں
میں نے ہی خود خواہشات کو قتل کیا
میں نے تو لکھا اپنے باپ کی قبر پر
میں نے تو لکھا اپنے ٹوٹتے صبر پر
میرا تو صبر ایسا صبر بھی صبر کرے
میرے خود کے جزباتوں کی قدر کرے
دل ہے مردہ۔۔۔۔ زندگی صفر کرے
سوچتا کچھ نہیں دماغ مجھ پر جبر کرے