Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_3
تیسرا_حصہ 
حضرت موسیٰ  فرعون کے محل میں:-
مفسرین بیان کرتے ہیں کہ لونڈیوں نے دریا میں بہتا ہوا صندوق نکال لیا لیکن اسے کھولنے کی جرات نہ کی ۔ بلکہ اسے فرعون کی ملکہ ’’ آسیہ‘‘ کے سامنے پیش کر دیا۔ آسیہ علیہ السلام کا نسب یوں ہے: آسیہ بنت مزاحم بن عبید بن ریان بن ولید۔ یہ ریان بن ولید وہی ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر کا بادشاہ تھا۔ بعض حضرات کی راۓ ہے کہ آسیہ علیہ السلام بنی اسرائیل ہی سے تعلق رکھتی تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قبیلے میں سے تھیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ آپ کی پھوپھی تھیں ۔ (واللہ اعلم )
حضرت آسیہ علیہ السلام نے جب صندوق کھولا اور کپڑا ہٹایا تو موسیٰ علیہ السلام کا چہرہ انوار نبوت سے روشن نظر آیا۔ جب ان کی نظر آپ کے چہرہ اقدس پر پڑی تو ان کے دل میں آپ کی شدید محبت پیدا ہوئی۔ جب فرعون آ یا تو بولا:’’ یہ کیا ہے؟‘‘ اور اسے ذبح کر دینے کا حکم دے دیا۔ حضرت آسیہ علیہ السلام نے مزاحمت کرتے ہوۓ فرمایا:  "يہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔‘‘ فرعون نے کہا:’ تیرے لیے تو ہے، میرے لیے نہیں ۔‘ زبان کی کہی ہوئی بات حقیقت بن جایا کرتی ہے۔
آسیہ علیہ السلام نے کہا تھا: ’’بہت ممکن ہے یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچاۓ ۔‘اللہ تعالی نے انہیں وہ فائده عطا فرما دیا جس کی انہوں نے امید ظاہر کی تھی ۔ دنیا میں یہ فائدہ کہ انہیں آپ کی وجہ سے ہدایت نصیب ہوئی اور آخرت میں یہ کہ آپ کی وجہ سے نہیں جنت میں ٹھکانا مل گیا۔ انہوں نے فرعون سے کہا: " یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں ۔‘‘ انہوں نے آپ کو اس لیے منہ بولا بیٹا بنالیا کہ ان کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:- اور وہ لوگ (انجام سے بے خبر تھے ۔‘‘ انہیں معلوم نہ تھا کہ اللہ نے ان کے ہاتھوں موسیٰ علیہ السلام کو پانی سے نکلوا کر فرعون اور اس کی افواج کو تباہ کرنے کا بندوبست کر دیا ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو والدہ کی طرف لوٹانے کی الہٰی تدبیر:-
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں چلے گئے ۔ ادھران کی والد محتر مہ بیٹے کی جدائی اور فراق میں سخت غمگین ہوگئیں ۔ اس وقت اللہ تعالی نے ان کی والد کوتسلی دی اور آپ کا بیٹا نہایت خوبصورت تدبیر سے لوٹادیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: 
’’اور موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہو گیا ۔ اگر ہم ان کے دل کومضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اس ( قصے کو ظاہر کر دیں (اور اس سے ) غرض یہ تھی کہ وہ مومنوں میں رہیں اور اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچے چلی جا لہذا وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان (لوگوں کو کچھ خبر نہ تھی ۔ اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دائیوں کے ) دودھ حرام کر دیے تھے سو موسیٰ کی بہن نے کہا کہ میں تمہیں ایسے گھر والے بتاؤں کہ تمہارے لیے اس ( بچے کو پالیں اور اس کی خیر خواہی سے پرورش کر یں ۔ پس ہم نے اس طریق سے ان ( موسیٰ ) کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچادیا تا کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں اور معلوم کر لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن ان کے اکثر (لوگ نہیں جانتے ۔‘‘ (القصص: 28 / 10-13 )
حضرت ابن عباس رضی اللہ اور دوسرے علماء نے فرمایا:  ’’ موسیٰ کی والدہ کا دل خالی ہو گیا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ کے سوا دنیا کے ہر کام اور خیال سے خالی ہو گیا ( یعنی دل بہت بے قرار ہو گیا)  "قریب تھا کہ اس واقعہ کو ظاہر کر دیتیں ۔ یعنی سب کے سامنے آپ کے بارے میں پوچھنے لگتیں ’’اگر ہم اس کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے ۔‘ یعنی صبر وثبات سے نہ نواز تے ۔  ’’تا کہ وہ یقین کر نے والوں میں رہے۔ اور اس (موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ کی بہن سے کہا۔‘‘ یعنی اپنی بڑی بیٹی سے فرمایا:  ’’تو اس کے پیچھے پیچھے جا۔‘‘ اور اس کے حالات معلوم کر کے مجھے تا۔  لہذا وہ اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی۔ قتادہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی وہ انہیں اس انداز سے دیکھتی رہیں گویا مقصود ان کا خیال رکھنانہیں ( بلکہ اپنے کسی کام سے جا رہی ہیں اس لیے فرمایا:  ’’اوران (فرعونیوں) کو اس کا علم بھی نہ ہوا۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے محل میں پہنچ گئے تو ان لوگوں نے آپ کو کچھ کھلانا پلانا چاہا۔لیکن آپ نے نہ کسی عورت کا دودھ پیا اور نہ کوئی اور چیز قبول کی ۔ وہ لوگ بہت پریشان ہوۓ آپ کو ہر طرح غذا دینے کی کوشش کی لیکن آپ نے کچھ نہ کھایا پیا۔ جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:  ’’ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا ۔‘‘
انہوں نے آپ کو عورتوں کے ہاتھ بازار بھیجا کہ شاید کوئی ایسی عورت مل جاۓ جو آپ کو دودھ پلا سکے ۔ وہ لوگ وہاں کھڑے تھے اور عورتیں جمع تھیں کہ آپ کی ہمشیرہ نے آپ کو دیکھ لیا۔ انہوں نے یہ ظاہر نہ کیا کہ وہ آپ کو جانتی ہیں بلکہ کہا:  ’’ کیا میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کرے اور ہوں بھی وہ اس بچے کے خیر خواہ؟‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں: جب موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے یہ بات کہی تو ان لوگوں نے کہا’’ تجھے کیا معلوم کہ وہ اس کے خیر خواہ ہوں گے اور اس پر شفقت کریں گے؟‘‘وہ بولیں:’’ وہ بادشاہ کوخوش کر نا چاہیں گے اور اس سے فائدہ کی امید رکھیں گے۔‘‘
تب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو چھوڑ دیا اور ان کے ساتھ ان کے گھر گئے ۔ آپ کی والدہ نے آپ کو اٹھالیا اور آپ کو دودھ پلا نا چاہا تو آپ فورا دودھ پینے لگے ۔ وہ لوگ بہت خوش ہوۓ ۔ ایک آدمی نے جا کر فورا آسیہ  کو خوش خبری دی ۔ آسیہ علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو  محل میں بلالیا اور انہیں وہیں رہنے کی پیشکش کی اور کہا کہ ان پر ( ملکہ کی نظر عنایت ہوگی ۔
انہوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی اور عرض کی کہ میں بال بچوں والی عورت ہوں اور میرا خاوند بھی موجود ہے اس لیے خاوند کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مجھے اپنے گھر میں رہنا پڑے گا میں تو دودھ پلانے کی خدمت اس صورت میں انجام دے سکتی ہوں کہ آپ بچے کو میرے ساتھ ہی ( میرے گھر) رہنے دیں۔ آسیہ علیہ السلام نے اجازت دے دی اور موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی تنخواہ مقررکر دی ۔ اس کے علاوہ انعام و خلعت سے نوازا۔ آپ بچے کو لے کر گھر آ گئیں اور اللہ نے بیٹے کو ماں سے ملا دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’ پھر ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف لوٹادیا تا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ آزردہ خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔‘‘ یعنی اللہ نے آپ کو واپس پہنچانے کا اور رسول بنانے کا وعدہ فرمایا تھا تو اب واپس پہنچانے کا وعدہ پورا ہو گیا ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی رسالت کی خوشخبری بھی سچ ہے ( جوضرور پوری ہو گی ) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ)
جاری ہے ۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   7
3 Comments

Abraham

08-Jan-2022 11:14 AM

Good

Reply

Simran Bhagat

03-Jan-2022 10:10 PM

Good

Reply

Dr.Abdul Aleem khan

04-Jan-2022 01:26 PM

Shukriya

Reply