جس رات موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس موقع پر اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے احسانات یاد دلاتے ہوۓ فرمایا:
" ہم نے تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے ۔ جب ہم نے تیری ماں کو وہ الہام کیا جس کا ذکر اب کیا جار ہا ہے کہ تو اسے صندوق میں بند کر کے دریا میں چھوڑ دے، پس در یا اسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا اور میں نے اپنی طرف کی خاص محبت و مقبولیت تجھ پر ڈال دی تا کہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جاۓ ۔‘‘ (طہ:20 / 37-39 )
یعنی تجھے آرام وآسائش کے ساتھ بہترین غذا اور بہترین لباس ملے یہ سب اس لیے ہے کہ تجھے میری خصوصی حفاظت حاصل ہے کیونکہ میں نے تجھ پر احسانات فرماۓ اور تیرے لیے وہ کچھ مقدرفر مایا جس کی قدرت میرے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے:
" (یادکر ) جب تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اگرتم کہوتو میں تمہیں بتاؤں جواس کی کفالت کرے (اس تدبیر سے ) ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمگین نہ ہو۔ اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، اس پر بھی ہم نے تجھے غم سے بچالیا۔ غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا۔‘ (طہ: 40/20 )
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی کی اتفاقی ہلاکت:-
ارشاد باری تعالٰی ہے:
اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہو گئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا فرمایا۔ نیکی کر نے والوں کو ہم اس طرح بدلہ دیا کر تے ہیں ۔ اور موسیٰ ایک ایسے وقت میں شہر میں آۓ جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے تو یہاں دوشخصوں کو لڑتے ہوۓ پایا۔ یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا، اس ( موسیٰ ) سے فریاد کی ، جس پر موسیٰ نے اسے ایک ضرب لگائی ، جس سے وہ مر گیا۔ موسیٰ کہنے لگے: یہ تو شیطانی کام ہے ، یقینا شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے ۔ ( پھر دعا کر نے اور کہنے لگے: اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے معاف فرما دے سو اللہ تعالی نے انہیں بخش دیا۔ وہ بخشش اور بہت مہربانی کر نے والا ہے ۔ (موسیٰ) کہنے لگے: اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا، میں بھی اب ہرگز کسی گناہ گار کا مدگار نہ بنوں گا ۔‘(القصص: 28 / 14-17 )
اللہ تعالی نے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس نے آپ کی والدہ پر احسان فرمایا کہ آپ کو ان کے پاس واپس پہنچا دیا۔ اب یہ بیان ہور ہا ہے کہ جب آپ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہو گئے یعنی جسمانی اور اخلاقی طور پر کمال کے درجہ تک پہنچ گئے اکثر علماء کے نزدیک اس سے چالیس سال کی عمر مراد ہے تب اللہ نے آپ کو حکمت اور علم یعنی نبوت ورسالت کا منصب عطا فرمایا جس کی بشارت آپ کی والدہ کو اس فرمان میں دی گئی تھی: ’’ہم یقینا اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے پیغمبر بنانے والے ہیں ۔ (القصص:7/28 )
قبطی کی موت پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پشیمانی:
اس کے بعد اللہ تعالی نے وہ واقعہ بیان کیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکل کر مدین کے علاقے میں پہنچنے کا باعث بنا۔ آپ وہیں قیام پذیر رہے حتی کہ مقررہ مدت ختم ہوگئی اور پھر اللہ تعالٰی نے آپ سے ہم کلام ہو کر آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا جیسے کہ آیندہ بیان ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’اور موسیٰ ایک ایسے وقت شہر میں آۓ جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے ۔‘‘ اس میں’’وقت‘‘ کی بابت حضرت ابن عباس بن سعید بن جبیر مکرمہ،قادہ اور سدی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:’’یہ دوپہر کا وقت تھا۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ سے ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت ہے ۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’ یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوۓ پایا۔‘ یعنی وہ آپس میں مار کٹائی کر رہے تھے۔ ’’یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا۔ ’’اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے یعنی قبطی تھا۔ "اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا، موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کو مصر کے ملک میں ایک باوقار مقام حاصل تھا کیونکہ آپ کا فرعون سے ایک اہم تعلق قائم ہو چکا تھا جس نے آپ کو بیٹا بنایا تھا اور آپ نے اس کے گھر میں پرورش پائی تھی ۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل کو بھی عزت نصیب ہوئی تھی اور وہ سر اٹھا کر چلنے لگے تھے کیونکہ وہ دودھ کے رشتہ سے خود کو آپ کے ننھیالی رشتہ دار سمجھتے تھے۔ جب اس اسرائیلی نے اس قبطی کے خلاف موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی تو آپ اس کی طرف مڑے اور ’’اسے ایک ضرب لگائی ۔ ‘یعنی مکا مارا یا ڈنڈا مارا۔ ’’جس سے وہ مر گیا ۔‘‘ وہ قبطی کافر تھا، اللہ کے ساتھ شرک کر نے والا تھا۔ ویسے بھی موسیٰ علیہ السلام اسے قتل نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اسے تنبیہ کرنا اور روکنا چاہتے تھے ۔ اس کے باوجود موسیٰ علیہ السلام نے کہا: " یہ تو شیطانی کام ہے۔ یقینا شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے ۔ (پھر ) کہنے لگے: اے میرے رب! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، تو مجھے معاف فرما دے۔ اللہ تعالی نے اسے بخش دیا۔ وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والا ہے ۔ (موسیٰ) کہنے لگے: ”اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر کرم فرمایا۔‘یعنی قوت اور شان عطا فرمائی ہے ’’میں بھی اب ہرگز
کسی گناہ گار کا مددگار نہ بنوں گا ۔‘‘
اس کے بعد ارشاد باری تعالی ہے:
متوی صبح ہی صبح ڈرتے اندیشہ کی حالت میں خبریں لینے کو شہر میں گئے کہ اچانک وہی شخص جس نے کل ان سے مددطلب کی تھی ان سے فریاد کر رہا ہے ۔ موسیٰ نے اس سے کہا: اس میں شک نہیں تو تو صریح گمراہ ہے ۔ پھر جب اپنے اور اس کے دشمن کو پکڑنا چاہا تو وہ ( فریادی کہنے لگا: موسیٰ! کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کوقتل کیا، مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے؟ تو تو ملک میں ظالم وسرکش ہونا چاہتا ہے اور تیرا یہ ارادہ ہی نہیں کہ تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہو۔ اور شہر کے پر لے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: موسیٰ! ( یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں پس تو ( فورا چلا جا۔ میں یقینا تیرا خیر خواہ ہوں ۔‘‘ (القصص: 28 / 18-20 )
اس دن جب صبح کے وقت آپ شہر میں چل رہے تھے، تو کیفیت یہ تھی کہ آپ خوف محسوس کر رہے تھے اور ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔ اچانک وہی اسرائیلی مل گیا جس نے کل آپ سے مدد چاہی تھی اور آپ سے فریادکر نے لگا اور ایک اور آدمی کے خلاف آپ سے مدد مانگنے لگا، جس سے اس کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کی بار بار کی شراتوں کی بنا پر اسے ملامت کی اور سے فرمایا: ’’ اس میں شک نہیں کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔‘‘ پھر آپ نے اس قبطی پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا جو موسیٰ علیہ السلام کا بھی دشمن تھا اور اسرائیلی کا بھی ، تا کہ اسے منع کریں اور اسرائیلی کو اس سے چھڑائیں ۔ جب آ پ اس ارادے سے قبطی کی طرف بڑھے تو اس نے کہا: ’’موسیٰ! کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کوقتل کیا، مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے؟ تو تو ملک میں ظالم وسرکش ہونا چاہتا ہے اور تیرا یہ ارادہ ہی نہیں کہ تو اصلاح کر نے والوں میں سے ہو۔‘‘
بعض علماۓ کرام فرماتے ہیں کہ یہ بات اس اسرائیلی نے کہی تھی جس نے موسیٰ علیہ السلام کا گزشتہ روز کا واقعہ دیکھا تھا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس نے جب موسیٰ علیہ السلام کوقبطی کی طرف بڑھتے دیکھا تو یہ سمجھا کہ وہ خود اس (اسرائیلی کو سزا دینا چاہتے ہیں، کیونکہ آپ اسے فرما چکے تھے: ” تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اس لیے اس شخص نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ بات کہ کر کل والا راز فاش کر دیا اورقبطی نے فوراً فرعون کے پاس جا کر موسیٰ کی شکایت کر دی۔ اکثر علمائے کرام نے یہی تشریح بیان کی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلام قبطی کا ہو۔ اس نے جب آپ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو ڈر گیا۔ اس نے اندازے سے ی