28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام
حدعاء موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_5
پانچواں_حصہ
★حضرت موسیٰ علیہ السلام مد ین تشریف لے جاتے ہیں:-
جب موسیٰ علیہ السلام کے اتفاقی قتل کی خبر بادشاہ تک پہنچ گئی اور اس نے آپ کو گرفتار کر نے کا حکم دیا تو آپ خوفزدہ ہوکر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
پس موسیٰ وہاں سے خوف زدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوۓ۔ کہنے لگے: اے پروردگار! مجھے ظالموں کے گروہ سے بچا لے ۔ اور جب مدین کا رخ کیا تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا۔ جب آپ مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دوعورتیں الگ کھڑی (اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔ پوچھا:تمہارا کیا معاملہ ہے؟ وہ بولیں: جب تک یہ چرواہے واپس نہ چلے جائیں ، ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔ پس آپ نے خود ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آۓ اور کہنے لگے : اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے، میں اس کا محتاج ہوں ۔‘‘ (القصص: 28/ 21-24 )
ان آیات میں اللہ تعالی اپنے بندے، اپنے رسول اور اپنے کلیم کے بارے میں بیان فرما رہا ہے کہ وہ مصر سے نکلے تو ادھر ادھر دیکھتے بھالتے نکلے۔ آپ خوف محسوس کر رہے تھے کہ فرعون کی قوم کا کوئی شخص آپ تک پہنچ جاۓ ۔ آپ کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کس طرف رخ کر میں اور کون سی راہ اختیار کریں کیونکہ اس سے پہلے کبھی مصر سے باہر نہیں گئے تھے۔ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور جب مدین کا رخ کیا۔‘‘یعنی ایک راہ پر چل دیۓ تو کہنے لگے: " مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلےگا۔‘ یعنی امید ہے کہ اس راہ سے وہ منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے اور ایسے ہی ہوا۔ انہیں منزل مل گئی اور کتنی عظیم منزل مل گئی ! جب آپ مدین کے پانی پر پہنچے ۔‘‘ یعنی اس کنویں پر جا پہنچے جس سے لوگ جانوروں کو پانی پلاتے تھے ۔ مدین وہی شہر ہے جس میں اصحاب الا یکہ اللہ کے عذاب کی وجہ سے تباہ ہوۓ ۔ یہ لوگ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تھے ۔ ایک قول کے مطابق ان کی ہلاکت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے پہلے ہو چکی تھی ۔
جب آپ اس کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دوعورتیں الگ کھڑی (اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔
یعنی اپنی بکریوں کو روک رہی ہیں کہ لوگوں کی بکریوں میں نہ مل جائیں ۔ اہل کتاب کہتے ہیں کہ وہ سات لڑکیاں تھیں لیکن یہ غلط ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ شعیب علیہ السلام کی سات لڑکیاں ہوں ،لیکن جانوروں کو پانی پلانے کا کام دو ہی کرتی تھیں ۔ یہ توجیہ ممکن ہے بشرطیکہ سات کی روایت قابل اعتماد ہؤ ورنہ قرآن کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو ہی تھیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: ’’تمہارا کیا معاملہ ہے؟ وہ بولیں: جب تک چرواہے واپس نہ چلے جائیں ہم پانی نہیں پاتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔ یعنی ہم کمزور عورتیں ہونے کی وجہ سے بکریوں کو اس وقت پانی نہیں پلا سکتیں جب تک چرواہے پانی پلانے سے فارغ نہ ہو جائیں اور ہمیں خود بکریاں چرانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ابا جان بوڑ ھے اور کمزور ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’پس آپ نے خود ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔‘‘ "پھر ساۓ کی طرف ہٹ آۓ ‘‘ مفسرین کہتے ہیں یہ کیکر کے درخت کا سایہ تھا۔ اس وقت آپ نے دعا کی: ’’اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے، میں اس کامحتاج ہوں ۔‘‘
،★حضرت موسیٰ علیہ السلام کو محفوظ مقام میسرآ گیا:-
حضرت موسیٰ علیہ السلام طویل سفر کے بعد تھکے ہارے ایک درخت کے ساۓ میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالی سے مدد کی درخواست کی جو فوری قبول ہوگئی ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
"اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی۔ کہنے لگی: میرے والد صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تا کہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں۔ جب ( حضرت موسیٰ علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے: اب نہ ڈرو! تم نے ظالم قوم سے نجات پائی ۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اباجی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجیے کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ، ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔ اس بزرگ نے کہا: میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں اس (مہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں۔ ہاں! اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے ( بطور احسان ہے، میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں ، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آ دمی پائیں گے ۔موسی نے کہا: خیر! تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی ۔ میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں، مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہم یہ جو کچھ کہہ ر ہے ہیں ، اس پر اللہ ( گواہ اور کارساز ہے ۔‘‘ (القصص: 28 / 25-28 )
جب موسیٰ علیہ السلام ساۓ میں بیٹھے اورفرمایا: اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں ۔ تو ان خواتین نے یہ بات سن لی ۔ جب وہ والد کے پاس پہنچیں تو انہیں اتنی جلدی واپس آ جانے پر تعجب ہوا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیش آمدہ واقعہ بیان کیا ۔ والد نے ایک کو حکم دیا کہ جا کر ان کو بلا لاۓ۔ ’’ تو ان دونوں عورتوں میں سے ایک شریف زادیوں کی طرح شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی۔ کہنے لگی : ’’ میرے والد صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تا کہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلا یا ہے، اس کی اجرت دیں ۔
اس نے واضح طور پر وجہ بیان کر دی تا کہ اس کی بات سے
کوئی غلط فہمی یا شک وشبہ پیدا نہ ہو۔ یہ بھی اس خاتون کی حیا اور پاک دامنی کا مظہر ہے۔ "جب(حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس پہنچے اور ان
سے اپنا سارا حال بیان کیا ۔ اور بتایا کہ مصر کے بادشاہ فرعون کے ڈر سے اپنا وطن ،مصر، چھوڑ کر نکلے ہیں ۔ تو وہ بزرگ کہنے گے: ’’اب نہ ڈر! تو نے ظالم قوم سے نجات پائی ۔‘‘ یعنی اب ان کے دائر و اختیار سے باہر آ گئے ہیں کیونکہ اب آپ ان کی سلطنت کی حدود میں نہیں ۔ بزرگ نے آپ کی مہمان نوازی کی اور عزت واحترام سے رکھا اور آپ کا واقعہ سن کر خوش خبری دی کہ آپ ان سے نجات پا چکے ہیں ۔ تب ایک لڑکی نے اپنے والد سے کہا: ’’ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیے۔‘‘ تا کہ وہ آپ کی بکریاں چرائیں ۔ پھر آپ کی یہ خوبی بیان کی کہ وہ طاقت ور اور دیانت دار ہیں ۔ حضرت عمر ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ اور دیگر علماء سے روایت ہے کہ جب اس نے یہ بات کہی تو اس کے والد نے پوچھا:’’ تجھے اس کی قوت وامانت کی کیا خبر ؟‘‘ اس نے کہا: ’’جو بھاری بھاری پتھر دس آدمی اٹھاتے ہیں ، انہوں نے اکیلے ہی اٹھالیا (اس سے مجھے ان کی طاقت کا اندازہ ہوا اور جب میں انہیں لے کر آ رہی تھی تو میں آ گے چل رہی تھی ۔ انہوں نے کہا:’’میرے پیچے چلو، جب راستہ مڑنا ہو تو مجھے راستہ بتانے کے لیے اس طرف کنکری پھینک دینا۔‘‘
جب موسیٰ علیہ السلام ان کے گھر پہنچے تو اس بزرگ نے کہا: ’’میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں اس (مہر) پر کہ آپ آ ٹھ سال تک میرا کام کاج کریں ۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے ( بطور احسان ہے، میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں ۔ اللہ کو منظور ہے تو آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے ۔ بعض علماء نے اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوۓ کہا ہے کہ روٹی کپڑے پر مزدوری کرنا درست ہے جیسے کہ
معروف رواج ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: ’’موسیٰ نے کہا: یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی ۔ میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں، مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ( گواہ اور کار ساز ہے ۔‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سسر سے فرمایا: آپ نے جو بات کہی وہ درست ہے ۔ میں جونسی مدت پوری کروں ، مجھے اس کا حق ہو گا۔ اس سلسلے میں مجھ پر کوئی زیادتی نہیں کی جاۓ گی ۔ ہماری مفاہمت پر اللہ گواہ ہے جو سب کچھ سن رہا ہے ۔ تا ہم موسیٰ علیہ السلام نے زیادہ مدت پوری کی ، یعنی پورے دس سال ان کی خدمت کی ۔
حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: مجھ سے حیرہ کے ایک یہودی نے پوچھا موسیٰ علیہ السلام نے دونوں میں سے کوئی مدت پوری کی تھی؟ میں نے کہا: ” مجھے تو معلوم نہیں البتہ میں عرب کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے دریافت کروں گا۔‘‘ تو میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا آپ نے زیادہ اور بہتر مدت مکمل کی تھی۔ اللہ کا رسول جب کوئی بات کہہ دے تو اسے پوری کرتا ہے ۔
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعاء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
Megan Velez
08-Jan-2022 12:19 PM
Nice
Reply
Sobhna tiwari
08-Jan-2022 12:11 PM
Good
Reply
Zainab Irfan
08-Jan-2022 12:04 PM
Good
Reply